حماس کو ہتھیاروں سے سبکدوشی قبول ہے! اپنا موقف واضح کرے: فلسطینی وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
فلسطینی وزیرِاعظم محمد مصطفیٰ نے کہا ہے کہ جو بھی ملک اپنی خودمختاری کا احترام کرتا ہے، وہ ہتھیار، قانون اور حکومت میں دوئی برداشت نہیں کرتا۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیراعظم فلسطین نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ حکمرانی اور اسلحے کے معاملے پر اپنا مؤقف باضابطہ طور پر واضح کرے۔ محمد مصطفیٰ نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں قانون، سکیورٹی اور ہتھیار صرف فلسطینی ریاست کے ہاتھ میں ہونے چاہییں۔
وزیرِاعظم محمد مصطفیٰ نے کہا کہ “اسرائیلی نہیں چاہتے کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ میں دوبارہ اقتدار سنبھالے”۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ غزہ کو مکمل طور پر فلسطینی اتھارٹی کے تحت ہونا چاہیے، ہم کسی جزوی کردار کو قبول نہیں کریں گے”۔
انہوں نے کہا کہ اگر بین الاقوامی فورس غزہ میں سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالتی ہے تو وہ فلسطینی اتھارٹی کی منظوری سے ہی آئے اور اس کا کردار صرف عارضی ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فورس فلسطینیوں کی مددگار ہو، متبادل نہیں”۔
محمد مصطفیٰ نے بتایا کہ فلسطینی حکومت نے عرب ممالک سے غزہ میں اتھارٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے حمایت حاصل کر لی ہے۔
ان کے مطابق “ہماری فورسز کو مصر اور اردن کی جانب سے تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ غزہ میں اپنے فرائض انجام دے سکیں”۔
انہوں نے کہا کہ “غزہ میں 18 ہزار سکیورٹی اہلکار موجود ہیں جو اپنی ذمہ داریاں دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، جب کہ یورپی مانیٹرنگ فورسز سرحدی گزرگاہوں پر اتھارٹی کے کام میں معاونت کریں گی”۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ “غزہ میں کسی بھی بین الاقوامی فورس کی کارروائی اسرائیلی انخلا سے مشروط ہے۔ کوئی غیر ملکی فورس یا کمیٹی دو ملین فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی”۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ “غزہ کے انتظام کے لیے کسی متبادل نظام کی تلاش کی ضرورت نہیں، اصل یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے ادارے وہاں واپس جائیں”۔
تاہم انہوں نے کہا کہ “ایک عبوری انتظام پر بات ہو سکتی ہے جب تک کہ اتھارٹی مکمل طور پر اقتدار سنبھال نہ لے تب تک ایک عبوری انتظامیہ ذمہ داریاں سسنبھالے”۔
انہوں نے واضح کیا کہ “اس وقت اسرائیل ہی واحد فریق ہے جو اتھارٹی کی واپسی میں رکاوٹ بن رہا ہے”۔
محمد مصطفیٰ نے کہا کہ “سعودی عرب نے فلسطینی اتھارٹی کے اصلاحاتی پروگرام کی حمایت کی ہے اور عرب قیادت میں فلسطینی ریاست کے لیے سعودی کردار نمایاں ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ریاض نے فلسطینیوں کے لیے اہم سیاسی پیش رفت کی قیادت کی اور نیویارک کا اعلان پورے خطے کے لیے امن کا جامع نقشہ پیش کرتا ہے”۔
واضح رہے کہ حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے پیر کے روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسلحے کا معاملہ ابھی زیرِ غور ہے اور یہ معاملہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے سے منسلک ہے”۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے تحت 10 اکتوبر 2025 ء کو جنگ بندی معاہدہ نافذ ہوا تھا۔ معاہدے میں غزہ کو غیر مسلح کرنے اور تکنیکی ماہرین پر مشتمل فلسطینی انتظامیہ کے ذریعے بین الاقوامی نگرانی میں چلانے کی تجویز دی گئی تھی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینی اتھارٹی اتھارٹی کے محمد مصطفی نے کہا کہ انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
غزہ جنگبندی کیلئے اصلی خطرہ اسرائیل ہی ہے، خالد مشعل
الجزیرہ سے اپنی ایک گفتگو میں حماس کے سینئر رہنماء کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو غیر مسلح کرنا ان کی روح کھینچنے کے مترادف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کے سینئر رہنماء "خالد مشعل" نے کہا کہ غزہ تک ہر ممکن ذریعے سے انسانی امداد پہنچانی چاہئے، جس کے لئے حماس کی قیادت کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی رژیم پر دباؤ بڑھانے اور جنگ بندی کے معاہدے کے دوسرے مرحلے کی جانب بڑھنے کے لئے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار الجزیرہ سے گفتگو میں کیا۔ اس موقع پر خالد مشعل نے کہا کہ اصل خطرہ غزہ سے نہیں بلکہ اسرائیل کی جانب سے ہے۔ فلسطینیوں کو غیر مسلح کرنا ان کی روح کھینچنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کا انتظام ایک فلسطینی ادارے کو چلانا چاہئے کیونکہ وہاں کے اصلی حاکم فلسطینی ہی ہیں۔ یاد رہے کہ حماس نے 10 اکتوبر 2025ء کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ طور پر غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہو گیا ہے۔
اسی روز صیہونی فوج نے بھی حماس کے ساتھ غزہ کی پٹی میں سیز فائر کی خبر دی۔ اس حوالے سے اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ جنگ بندی کے معاہدے کے مطابق، صیہونی افواج غزہ کے بعض علاقوں میں موجود رہیں گی۔ یہ افواج شمالی غزہ تک جانے کے لئے الرشید بلیوارڈ سے صلاح الدین شاہراہ استعمال کرسکیں گی۔ تاہم اس سب کے باوجود صیہونی فوج ڈھٹائی کے ساتھ جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور اسی معاہدے کے پہلے مرحلے کو نافذ کرنے میں بہانوں کا سہارا لے رہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے 60 روز گزرنے کے بعد، فلسطینی دفتر اطلاعات نے ایک رپورٹ میں صیہونی جارحیت و جرائم کے اعداد و شمار جاری کئے۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ ان دو مہینوں میں اسرائیل نے 738 بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔