خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس، امن و امان پر بحث کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان آپس میں الجھ پڑے
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
امن و امان کی ابتر صورتحال کا ذمہ دار صوبائی حکومت نے وفاق جبکہ اپوزیشن نے صوبائی حکومت کو حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس میں امن و امان پر بحث کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان آپس میں الجھ پڑے، امن و امان کی ابتر صورتحال کا ذمہ دار صوبائی حکومت نے وفاق جبکہ اپوزیشن نے صوبائی حکومت کو حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے، وفاق دہشت گردی کے خاتمے کا حل مذاکرات سے نکالے جبکہ اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا امن وامان کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے اگر حکومت امن قائم نہیں کرسکتی تو مستعفی ہوجائے۔ صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کے خطاب کے دوران ہی اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کردی جس پر اجلاس یکم دسمبر تک ملتوی کردیا گیا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی اجلاس کے دوران امن و امان پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی ارکان ڈاکٹر امجد، نیک محمد، عجب گل، ریاض خان، فضل حکیم نے ایف سی ہیڈکوارٹر دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم روزانہ امن و امان پر بات کرتے ہیں ہمارا مقصد کسی ادارے کو نشانہ بنانا نہیں ہم ذمہ داری کی نشاندہی کرتے ہیں، ہم سب کا سوال ہے سرحد پار سے دہشت گرد کیسے آتے ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ 38 سو سے 41 سو تک دہشت گرد ہیں، سرحد پار سے دہشت گردوں کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے، سیکورٹی ایجنسیاں تحریک انصاف کی بے عزتی مقدمات کے اندراج میں لگی ہوئے ہیں، جب آگ پھیلتی ہے تو اس کی لپیٹ میں سب آتے ہیں۔
حکومتی ارکان نے کہا کہ دہشت گردی سے عام عوام اور سیکورٹی فورسز کے جوان بھی متاثر ہورہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں میں 57 ہزار خواتین بیوہ ہوچکی ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ بچے یتیم اور دس ہزار لوگ معذور ہیں، ہم پوچھنا چاہتے ہیں اسی خطے کو کیوں ٹارگٹ کیا جارہا ہے؟۔ حکومتی ارکان نے کہا کہ ہم بات کرتے ہیں تو نوٹس ملتے ہیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، اس صوبے میں آپریشن ہوتے ہیں لیکن فائدہ کچھ نہیں تو پھر مذاکرات کی طرف کیوں نہیں جاتے؟ یہ صوبہ دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہے گا، 2013 سے قبل صوبے پر کس کی حکومت تھی، 66 سالوں میں ایسے مسائل کو ایوان میں نہیں اٹھایا گیا۔