اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے 9 مئی کیس میں  پی ٹی آئی کے ایم پی اے حافظ فرحت عباس کی ضمانت منظور کر نے کاتحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔

عدالت نے قراردیا ہے کہ استغاثہ نے کیس میں ابھی فرحت عباس کی جانب سے مجرمانہ سازش رچانے کے الزام کو ثابت کرنا ہے۔ درخواست گزار سے کوئی  برآمدگی  نہیں ہوئی،ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ درخواست گزار نے کیس کی تحقیقات میں تعاون کیا ہے۔

درخواست گزار کے پولیس کی جانب سے گرفتاری، تذلیل اور کیس کی تحقیقات میں تعاون کرنے کے باوجود ہراسگی کے خدشہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس نعیم اختر افغان کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کی سماعت کے 4 صفحات پر مشتمل حکم نامہ  میں کہاگیا یہے کہ اب تک کے ریکارڈ،ابتدائی  تفتیش  کے مطابق کیس  درخواست گزار کے خلاف مزید انکوائری کا متقاضی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے اسلم رئیسانی کے خلاف انتخابی عذرداری خارج کردی

درخواست گزار کو 9مئی واقعہ کی 12 مئی 2023کو ہونیو الی ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا ۔ اسے مدعی کے 10جون کے ضمنی بیان  کے بعد سوشل میڈیا پر ٹویٹس/آڈیو/ویڈیو کلپس کی بنیاد پر کیس میں ملوث کیا گیا ،یہی الزام شریک ملزم امتیاز محمود پر لگایا گیا ہے جن کی پہلے ہی  اسی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی جا چکی ہے۔

کیس کی تقفتیش میں مسلسل تعاون  پر درخواست گزارکو عبوری ضمانت قبل از گرفتاری کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔ درخواست گزار کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ مزید تفتیش میں تعاون کرے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: درخواست گزار

پڑھیں:

حزب اللہ لبنان کے خلاف سازش کی بانی قوتیں

اسلام ٹائمز: حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ ملکی سطح پر تیار نہیں کیا گیا بلکہ بیرونی طاقتوں کے براہ راست اور بالواسطہ دباو کا شاخسانہ ہے۔ امریکہ، فرانس اور اسرائیل تینوں نے اپنے اپنے خاص ہتھکنڈوں کے ذریعے اقتصادی پابندیوں سے لے کر سفارتکاری اور جاسوسی کے ذریعے لبنان حکومت کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ دوسری طرف لبنانی حکومت نے ان مداخلت آمیز اقدامات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاکہ عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس شدید تناو کے ماحول میں لبنان کے وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف بیان دے کر عوام میں غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور اسے شدید عوامی تنقید کا سامنا ہے۔ اس نے ایران پر لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا ہے جبکہ واشنگٹن، پیرس اور تل ابیب کی کھلم کھلا مداخلت پر پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ تحریر: فاطمہ احمدی رشاد
 
حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کی سازش عروج پر ہے اور لبنان اس وقت فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ لبنان حکومت نے امریکہ کی جانب سے "ایک ملک، ایک فوج" نامی منصوبے کی منظوری دے دی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سازش کی کڑیاں بیرونی طاقتوں سے جا ملتی ہیں۔ اس سازش کے تین اہم کھلاڑی امریکہ، فرانس اور اسرائیل ہیں۔ امریکہ لبنان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے، لبنان آرمی کو فراہم کی جانے والی فوجی امداد کو مشروط کر کے اور بین الاقوامی اداروں میں لابی گری کے ذریعے لبنان حکومت پر دباو کا بانی ہے جبکہ فرانس لبنان سے اپنے تاریخی تعلقات اور ثالثی کے کردار کے بل بوتے پر حزب اللہ کی فوجی طاقت محدود کرنے اور مشرقی مڈیٹرینین میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے درپے ہے۔ اور آخرکار اسرائیل جس ہے جو حزب اللہ لبنان کے غیر مسلح ہونے کو اپنی شمالی سرحدوں کی سلامتی اور خطے پر کنٹرول قائم کرنے کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔
 
ان تین اصلی کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور کچھ عرب ممالک بھی اس سازش میں ان کی مالی، سیاسی اور عملی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ اگرچہ بظاہر اس دباو کا مقصد لبنان میں مرکزی حکومت کو مضبوط بنانا اور اسلحہ صرف لبنان آرمی تک محدود کر دینا بیان کیا جا رہا ہے لیکن اصل مقصد ایک زیادہ بڑے منصوبے کے ذیل میں آتا ہے جو خطے کا سیکورٹی نظام، مغربی عبری عربی محاذ کی مرضی سے تشکیل دینے پر مبنی ہے۔ اس منصوبے کے تحت لبنان کو ایک ایسے شکست خوردہ اور کمزور ملک میں تبدیل کر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اپنی خودمختاری کی حفاظت نہ کر سکتا ہو اور اسرائیل کے خلاف ڈیٹرنس پاور سے بھی عاری ہو۔ جب یہ امریکی صیہونی منصوبہ لبنان کی کابینہ میں پیش کیا گیا تو حزب اللہ لبنان اور اس کی اتحادی جماعتوں کے وزراء نے واک آوٹ کیا اور امریکہ اور اسرائیل کے دباو کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔
 
امریکہ، سازش کا بانی
اپریل 2025ء میں امریکہ نے مشرق وسطی میں اپنے خصوصی نمائندے میگن اورٹیگاس کو بیروت بھیجا تاکہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے لبنان حکومت پر دباو بڑھایا جا سکے۔ اورٹاگوس نے لبنانی حکام سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ کے پاس موجود تمام اسلحہ لبنان آرمی کے حوالے کر دینا چاہیے اور ساتھ ہی اس نے اس عمل میں تیزی لانے کی وارننگ بھی دی۔ اس کے اس شدت پسندانہ اور مداخلت آمیز موقف پر لبنان میں شدید ردعمل سامنے آیا اور آخرکار اورٹاگوس کو اس کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ اسی سال موسم گرما میں ٹام براک کو امریکہ کے نئے نمائندے کے طور پر لبنان بھیجا گیا اور اس نے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے چار مراحل پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے پر لبنان حکومت کی کابینہ کا اجلاس تشکیل پایا جس میں حزب اللہ اور اس کی اتحادی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود اسے منظور کر لیا گیا۔
 
فرانس اور عرب اتحاد، لبنان کی تعمیر نو کی آڑ میں سازش آگے بڑھانا
لبنان حکومت کی جانب سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ اختیار کرنے کے بعد فرانس نے اس اقدام کو "تاریخی" اور "شجاعانہ" قرار دیا۔ فرانس کی وزارت خارجہ نے وعدہ کیا کہ فرانس اپنے یورپی، امریکی اور علاقائی اتحادیوں کی مدد سے اس عمل میں لبنان حکومت سے بھرپور تعاون کرے گا اور خاص طور پر لبنان آرمی کی مدد، یونیفل کی تقویت اور قرارداد 1701 کو عملی شکل دینے میں پوری مدد فراہم کرے گا۔ فرانس اس وقت شام اور لبنان میں اپنا روایتی استعماری کردار دوبارہ بحال کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح وہ امریکہ سے تعاون کے ذریعے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے درپے ہے۔ امریکہ اور فرانس یونیفل اور لبنان آرمی کی مدد سے حزب اللہ لبنان کو مرحلہ وار غیر مسلح کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ یہ منصوبہ واضح طور پر شکست خوردہ ہے کیونکہ اسرائیل اب تک بارہا جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکا ہے اور جنوبی لبنان کے کچھ علاقوں سے پیچھے بھی نہیں ہٹا۔
 
اسرائیل حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کیلئے بے تاب
اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کو کمزور کرنے اور آخرکار اسے غیر مسلح کرنے کے لیے چند مراحل پر مشتمل حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ فوجی اور انٹیلی جنس میدان میں لبنان کے مختلف علاقوں پر فضائی حملوں، حزب اللہ رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ، فضائی نگرانی میں اضافے، سرحدی علاقوں پر مسلسل حملوں اور زمینی حملے کی تیاریوں کے ذریعے حزب اللہ لبنان پر دباو ڈال رہا ہے تاکہ وہ غیر مسلح ہونے کو قبول کر لے۔ یہ اقدامات امریکہ سے مکمل ہم آہنگی اور اس کی بھرپور حمایت سے انجام پا رہے ہیں۔ دوسری طرف مغربی اور عرب ممالک نے لبنان حکومت پر سفارتی دباو ڈال رکھا ہے۔ حال ہی میں صیہونی رژیم کے عربی بولنے والے ترجمان نے حزب اللہ لبنان کو بیروت دھماکوں کا ذمہ دار قرار دیا اور دعوی کیا کہ اسرائیل کا ان دھماکوں میں کوئی کردار نہیں تھا۔
 
سازشی مثلث
حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ ملکی سطح پر تیار نہیں کیا گیا بلکہ بیرونی طاقتوں کے براہ راست اور بالواسطہ دباو کا شاخسانہ ہے۔ امریکہ، فرانس اور اسرائیل تینوں نے اپنے اپنے خاص ہتھکنڈوں کے ذریعے اقتصادی پابندیوں سے لے کر سفارتکاری اور جاسوسی کے ذریعے لبنان حکومت کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ دوسری طرف لبنانی حکومت نے ان مداخلت آمیز اقدامات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاکہ عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس شدید تناو کے ماحول میں لبنان کے وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف بیان دے کر عوام میں غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور اسے شدید عوامی تنقید کا سامنا ہے۔ اس نے ایران پر لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا ہے جبکہ واشنگٹن، پیرس اور تل ابیب کی کھلم کھلا مداخلت پر پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں سینئر وکیل کے قتل میں نامزد ملزم کی پشاور ہائیکورٹ میں راہداری ضمانت کی درخواست
  • حزب اللہ لبنان کے خلاف سازش کی بانی قوتیں
  • اسلام آباد کے پٹوار خانوں میں نجی افراد سے سرکاری کام کرانے کا الزام ثابت
  • ڈیگاری دہرا قتل: شیرباز ساتکزئی کی درخواست ضمانت مسترد، گل جان بی بی رہا
  • ترک قونصل جنرل کی سیکریٹری داخلہ پنجاب سے ملاقات، سیکیورٹی اور ٹیکنالوجی کے تعاون پر بات چیت
  • عمران خان کے بنی گالہ گھر کی نیلامی کی خبریں جھوٹ ثابت
  • غزہ میں جنگ کا دائرہ وسیع کرنا ہی اختتام کا بہترین طریقہ ہے، اسرائیلی وزیر اعظم کی منظق
  • نقالی ویڈیوز بنانے والوں کیلئے سخت پیغام پر ساحر لودھی مہوش حیات کے شکر گزار، آبدیدہ ہوگئے
  • خواجہ آصف نے جو الزام عائد کیا اس پر انکوائری نہیں کارروائی کرنا پڑے گی
  • حکومت زائرین سے کئے گئے وعدوں پر فوری عملدرآمد کرے، علامہ مقصود ڈومکی