سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ:پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم کالعدم
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لیے مخصوص نشستوں کا دروازہ بند کرتے ہوئے ان نشستوں سے متعلق اپنا پچھلا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت عظمیٰ نے آج طویل سماعت کے بعد 5 کے مقابلے میں 7 ججز کی اکثریتی رائے سے نظرثانی درخواستیں منظور کر لیں اور پشاور ہائی کورٹ کے مارچ 2024 کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
یہ فیصلہ پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں ایک اہم موڑ تصور کیا جا رہا ہے، جو نہ صرف پارلیمانی جماعتوں کے درمیان طاقت کا توازن تبدیل کرے گا بلکہ آئندہ انتخابات اور پارلیمانی عمل میں بھی دور رس اثرات مرتب کرے گا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار، جو سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں کامیاب ہوئے، نے مخصوص نشستوں پر اپنے استحقاق کا دعویٰ کیا، جس کے بعد 12 جولائی 2024 کو سپریم کورٹ نے 8 ججز کی اکثریت سے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کا حکم دیا تھا، جس سے درحقیقت پی ٹی آئی کو ان نشستوں کا فائدہ حاصل ہوا۔
بعد ازاں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں دائر کیں، جس پر سپریم کورٹ کا 13 رکنی فل بینچ 6 مئی 2025 سے مسلسل سماعت کر رہا تھا۔ یہ نظرثانی درخواستیں مجموعی طور پر 17 بار سنی گئیں۔
آج کی طویل سماعت کے اختتام پر بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ 7 ججز نے نظرثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 12 جولائی 2024 کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے۔ ان ججز میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عامر فاروق، اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔
فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کا 14 مارچ 2024 کا فیصلہ درست تھا، جس کے تحت سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا اہل نہیں سمجھا گیا تھا۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے کیس سے علیحدگی اختیار کی جب کہ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے پہلے ہی ابتدائی مرحلے پر نظرثانی اپیلوں کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے مشروط طور پر نظرثانی کی اجازت دی، جنہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ریکارڈ کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرے کہ کس پارٹی کو مخصوص نشستیں دینی چاہییں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے صرف 39 نشستوں کی حد تک اپنا پرانا مؤقف برقرار رکھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب وہ مخصوص نشستیں جو پہلے سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آئی تھیں، اب مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر پارلیمانی جماعتوں میں تقسیم ہوں گی۔ اس کا براہ راست اثر پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کی طاقت اور موجودگی پر پڑے گا کیونکہ مخصوص نشستوں کے ذریعے خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی حاصل کی جا رہی تھی۔
نظرثانی اپیلوں کے دوران الیکشن کمیشن، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے تفصیلی تحریری معروضات جمع کرائیں۔ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی فیصل صدیقی اور حامد خان نے کی جب کہ پی ٹی آئی کے مؤقف پر وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں مخصوص نشستیں سپریم کورٹ پی ٹی آئی
پڑھیں:
نو مئی مقدمات میں ضمانت نہ دیئے جانے کیخلاف عمران خان کی اپیل پر نوٹس جاری
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت نہ ہونے کے خلاف اپیل پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کر دیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فریقین کے وکلا کو قانونی سوالات کی تیاری کا حکم دیتے ہوئے سماعت 19 اگست تک ملتوی کردی، بینچ میں جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس گل حسن اورنگزیب شامل ہیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ آج صرف استغاثہ کو نوٹس دیا جا رہا ہے، کیا ضمانت کیس میں حتمی آبزرویشن دی جا سکتی ہے؟ دونوں طرف کے وکلاء ان قانونی سوالات پر معاونت کریں، عدالت کوئی ایسی فائنڈنگ نہیں دے گی جس سے کسی کا کیس متاثر ہو، وکلاء آئندہ سماعت تک قانونی سوالات کی تیاری کریں۔
سماعت کے دوران پنجاب حکومت کے وکیل ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ہمیں اس کیس میں عدالت سے نوٹس جاری نہیں کیا گیا، جس پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آج آپ کو نوٹس جاری کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت کے فیصلے میں کیس کے میرٹ پر بات کی ہے، لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت کیس کے فیصلے میں حتمی رائے دی ہے، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ضمانت کے فیصلے میں ایسی فائنڈنگز دی جائیں؟ کیس کے زیر التواء ہونے کی وجہ سے کیس کے میرٹ پر بات نہیں ہو سکتی، آپ اس قانونی نکتے پر دلائل دیں کہ ضمانت کے فیصلے میں کیس کے میرٹ پر حتمی رائے کیسے دی جا سکتی ہے۔
Post Views: 8