جسٹس منصور علی شاہ کے دلچسپ ریمارکس، کمرہ عدالت میں قہقہے
اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT
پنجاب کے محکمہ لائیو اسٹاک سے وابستہ ڈاکٹر اعظم علی کی ترقی سے متعلق درخواست سپریم کورٹ نے مسترد کردی۔
کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے کی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کو چیلنج
درخواست گزار کے وکیل کا موقف تھا کہ ان کے موکل کو نظرانداز کرکے جونیئر افسران کو ترقی دی گئی۔
جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے دلچسپ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو دستاویزات سے ثابت کردیں کہ آپ کے موکل کو نظرانداز کرتے ہوئے جونیئرز کو ترقی دی گئی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ اگر کوئی بہت مشکل سوال ہے تو ہم وفاقی آئینی عدالت بجھوا دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ کی بیسمنٹ میں دھماکا، 4 افراد زخمی
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ہم تو ویسے بھی بیچارے ایسے ہی ہیں یہاں۔
جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے، آخر کار عدالت نے ڈاکٹر اعظم علی کی درخواست مسترد کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب جسٹس منصور علی شاہ ڈاکٹر اعظم علی سپریم کورٹ محکمہ لائیو اسٹاک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ ڈاکٹر اعظم علی سپریم کورٹ محکمہ لائیو اسٹاک جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ
پڑھیں:
27ویں ترمیم:ملک میں بڑی آئینی تبدیلیوں کے لیے رواں ہفتہ اہم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: 27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ بل پیش کیے جانے کے بعد یہ ہفتہ سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے پیش کردہ ترمیم کے مطابق ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کو ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے ماتحت کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس مجوزہ تبدیلی کے تحت اس نئی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری براہِ راست انتظامیہ کرے گی، جب کہ سپریم کورٹ کو اس کے دائرۂ اختیار کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اس بل کو رواں ہفتے کے دوران ہر صورت منظور کرانے کے لیے پُرعزم ہے۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام سے لفظ پاکستان بھی حذف کر دیا جائے گا، جب کہ چیف جسٹس کا عہدہ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت میں تبدیل ہو جائے گا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے 12 نومبر کو ترکی کے سرکاری دورے پر روانہ ہونے کے بعد ان کی غیر موجودگی میں سینئر ترین جج سید منظور علی شاہ قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے۔
ماہرینِ قانون کے مطابق اگر اس دوران پارلیمان نے 27ویں ترمیم منظور کر لی، تو حکومت کسی بھی جج کو نیا چیف جسٹس نامزد کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نظریں اب سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اس ترمیم پر کس نوعیت کا ردعمل دیتی ہے۔
قانونی ماہرین اور وکلا برادری میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی خودمختاری آئین کی بنیادی روح ہے، جسے کسی بھی قیمت پر مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چیف جسٹس آفریدی کو فوری طور پر فل کورٹ اجلاس بلا کر ججز کا متفقہ مؤقف سامنے لانا چاہیے تاکہ ادارے کی ساکھ محفوظ رہ سکے۔
دوسری جانب حکومتی اتحاد کے قانونی ماہرین اپنی قیادت کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ ایسی وفاقی آئینی عدالت کی ساکھ پر عوامی اعتماد کیسے قائم رہے گا، جس کے سربراہ کا تقرر خود حکومت کرے۔ سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کو اصولی مؤقف اپناتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے، تاکہ عدلیہ کی غیر جانب داری اور وقار برقرار رہے۔