Islam Times:
2025-11-10@12:19:04 GMT

خطے پر تسلط کیلئے صیہونیوں کا صدی پرانا خاکہ

اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT

خطے پر تسلط کیلئے صیہونیوں کا صدی پرانا خاکہ

اسلام ٹائمز: 1919ء میں جو نقشہ کھینچا گیا تھا، وہ آج خطے کی خون آلود حقیقت بن چکا ہے۔ لبنان، شام، فلسطین سب اسی منصوبے کے تسلسل میں جل رہے ہیں۔ اسرائیل کی جنگیں کبھی دفاع کے لیے نہیں ہوتیں؛ وہ قبضے کے لیے ہوتی ہیں، اس خواب کی تعبیر کے لیے جو اس غاصب ریاست کے پیدا ہونے سے پہلے ہی شروع ہوا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود صیہونی منصوبے کے آثار ختم نہیں ہوئے، بلکہ اس کی شکلیں اور حربے بدل کر مزید پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خطے میں جاری اس توسیع پسندانہ پالیسی کو صرف فلسطین کا مسئلہ نہ سمجھے بلکہ اسے عالمی امن کے لیے خطرہ تسلیم کرے، کیونکہ جب تک یہ منصوبہ موجود ہے، خطے میں پائیدار امن کا قیام محال ہے۔ یعنی اسرائیل کا وجود نہ صرف فلسطین کیلئے بلکہ خطے کے تمام ممالک اور اقوام کے لئے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

مسئلہ فلسطین کوئی اچانک پیدا ہونے والا تنازع نہیں بلکہ ایک صدی پرانی منصوبہ بندی کا تسلسل ہے۔ صیہونیوں نے فلسطین پر قبضے اور خطے پر تسلط کے لیے اپنی تحریک کا آغاز بہت پہلے کر دیا تھا۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو ہمیں نیپولین بونا پارٹ کے دور میں بھی یہ نظریہ نظر آتا ہے کہ یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم کیا جائے۔ نیپولین اگرچہ اس خواب کو پورا نہ کرسکا، لیکن صیہونی تحریک نے برطانوی استعماری طاقتوں کے سہارے اسے حقیقت کا روپ دیا اور یوں سنہ 1948ء میں اسرائیل نامی غاصب ریاست وجود میں آگئی۔ یہ وہ لمحہ تھا، جب غرب ایشیاء کی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ خطے میں جنگ، قبضے، بربادی اور عدم استحکام کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ آج تک جاری ہے۔

فلسطین پر قبضے سے بہت پہلے صیہونیوں نے ایک جامع منصوبہ بندی کر لی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سنہ 1919ء میں پیرس امن کانفرنس کے دوران صیہونی رہنماؤں نے ایک نقشہ پیش کیا، جس میں اُن کی مجوزہ گریٹر اسرائیل کی سرحدیں واضح طور پر دکھائی گئی تھیں۔ یہ سرحدیں جنوب میں مصر کے صحرائے سینا سے لے کر شمال میں لبنان کے دریائے عوالی تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ محض ایک تصوراتی تجویز نہیں تھی بلکہ مستقبل کی جارحانہ پالیسیوں کا خاکہ تھا۔ صیہونی رہنماء جانتے تھے کہ اگر انہیں اپنے وجود کو مستحکم رکھنا ہے تو انہیں توسیع در توسیع کے عمل کو جاری رکھنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد ہونے والی تمام جنگیں چاہے وہ 1948ء، 1967ء یا 1982ء کی ہوں، دراصل اسی 1919ء کے توسیعی نقشے کے تسلسل میں شروع کی گئی تھیں۔

توسیع پسندی کی عملی شکل اس وقت سامنے آئی، جب سنہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں، دریائے اردن کے اہم ذرائع اور شام کے آبی وسائل پر قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں، 1978ء اور 1982ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملے کئے اور بیروت تک پیش قدمی کی۔ ان حملوں کا مقصد محض فوجی کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ خطے کے قدرتی وسائل، خاص طور پر پانی پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ جیسا کہ سنہ1919ء کے نقشوں میں دریائوں پر قبضہ کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی بھی کی گئی تھی۔ غاصب صیہونیوں کی جانب سے شروع کی جانے والی یہ جنگیں کسی دفاعی حکمتِ عملی کا حصہ نہیں تھیں بلکہ جارحانہ عزائم کا عملی اظہار تھیں، وہی عزائم جو 1919ء کے نقشے میں درج تھے۔ اسرائیل نے لبنان میں طویل قبضہ برقرار رکھا، اس کے وسائل کا استحصال کیا اور سلامتی کے نام پر دراصل زمین پر قبضہ جمایا۔

واشنگٹن اور تل ابیب کے گٹھ جوڑ سے وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبے کو امریکی سرپرستی بھی حاصل ہوتی گئی۔ واشنگٹن اور تل ابیب نے مل کر خطے کو ازسرِنو ترتیب دینے کی حکمت عملی اپنائی۔ امریکہ نے اس خطے کے لئے نیا مشرق وسطیٰ بنانے کا جملہ استعمال کیا تو صیہونی اپنے صدی پرانے منصوبہ یعنی گریٹر اسرائیل کی تکرار کرتے رہے، لیکن دونوں کا مقصد ایک ہی تھا کہ اسرائیل کی توسیع کی جائے۔ مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان نے کہ اسرائیل بہت چھوٹا ہے، دراصل اسی صہیونی توسیع پسندانہ سوچ کو تقویت دی۔ شامی خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے اپنی عسکری موجودگی کو جنوبِ شام تک بڑھایا، گولان کی پہاڑیوں پر گرفت مضبوط کی اور درعا و قنیطرہ کے قریب علاقوں میں اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔ دوسری جانب، امریکہ نے مشرقی شام کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرکے اسرائیل کے اس منصوبے کو معاشی پشت پناہی فراہم کی۔

لبنان مسلسل دباؤ میں ہے اور لبنان اس وقت اسرائیل کی فوجی جارحیت اور امریکی سیاسی دباؤ کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ ایک جانب اسرائیلی بمباری نے جنوبی لبنان کو مسلسل عدم استحکام میں مبتلا کر رکھا ہے، دوسری جانب واشنگٹن بیروت میں اپنے بڑے سفارت خانے کے ذریعے سیاسی دباؤ بڑھا رہا ہے۔ یہ دباؤ لبنان کو ایک ایسے انتظامی ڈھانچے کی طرف لے جا رہا ہے، جو دراصل اسرائیلی سلامتی کے ایجنڈے کے مطابق ہو۔ یہ تمام حالات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایک صدی پہلے بنایا گیا صہیونی منصوبہ آج بھی پوری طرح فعال ہے اور خطے کی سیاست اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا خواب، جو صیہونی منصوبہ 1919ء میں پیرس کانفرنس میں پیش ہوا تھا، آج بھی اپنی تمام جہتوں کے ساتھ زندہ ہے۔ سرحدیں عارضی ہیں، مگر توسیع ایک مستقل عمل بن چکی ہے۔ اسرائیل کی ہر جنگ، ہر فوجی مہم دراصل اسی صدی پرانے خواب کی تکمیل کی کوشش ہے۔

1919ء میں جو نقشہ کھینچا گیا تھا، وہ آج خطے کی خون آلود حقیقت بن چکا ہے۔ لبنان، شام، فلسطین سب اسی منصوبے کے تسلسل میں جل رہے ہیں۔ اسرائیل کی جنگیں کبھی دفاع کے لیے نہیں ہوتیں؛ وہ قبضے کے لیے ہوتی ہیں، اس خواب کی تعبیر کے لیے جو اس غاصب ریاست کے پیدا ہونے سے پہلے ہی شروع ہوا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود صیہونی منصوبے کے آثار ختم نہیں ہوئے، بلکہ اس کی شکلیں اور حربے بدل کر مزید پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خطے میں جاری اس توسیع پسندانہ پالیسی کو صرف فلسطین کا مسئلہ نہ سمجھے بلکہ اسے عالمی امن کے لیے خطرہ تسلیم کرے۔کیونکہ جب تک یہ منصوبہ موجود ہے، خطے میں پائیدار امن کا قیام محال ہے۔ یعنی اسرائیل کا وجود نہ صرف فلسطین کے لئے بلکہ خطے کے تمام ممالک اور اقوام کے لئے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: توسیع پسندانہ اسرائیل کی صرف فلسطین اسرائیل نے کہ ایک صدی منصوبے کے بن چکا ہے بلکہ اس کے لیے کے لئے خطے کے

پڑھیں:

انگلینڈ ‘ اسرائیلی کلب کے درمیان فٹبال میچ، سٹیڈیم کے باہر فلسطین کے حق میں احتجاج 

لاہور(سپورٹس رپورٹر)انگلینڈ کے آسٹن ولا کلب اور اسرائیلی کلب مکابی کے درمیان ہونے والے فٹبال میچ کے دوران سٹیڈیم کے باہر ہزاروں افراد نے فلسطین کے حق میں احتجاج کیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق آسٹن ولا کلب اور کلب مکابی تل ابیب کے مابین یوروپا لیگ کا میچ برمنگھم کے وِلا پارک سٹیڈیم میں ہوا۔ میچ کے دوران سٹیڈیم کے باہر ہزاروں افراد نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرہ کیا اور اسرائیلی فٹبال کلبز کے بین الاقومی مقابلوں میں شرکت پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ شرکا نے مظاہرے کے دوران بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ اسرائیل نے فلسطین میں 400 سے زائد فٹبالرز کا قتل کیا۔ مظاہرے میں مقامی رکن پارلیمنٹ محمد ایوب نے بھی شرکت کی۔مظاہرین نے کہا کہ اسرائیل کھلاڑیوں کا قاتل ہے ‘دنیا کھیلوں میں ان کا بائیکاٹ کرے ۔ انٹر نیشنل مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کی جائے ۔  

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو کو غزہ پر حملوں کی اجازت دینے کی سیکیورٹی ناکامیوں کی تحقیقات کیلئے سوالات کا سامنا
  • مزاحمت کو غیر مسلح کرنیکا ہر منصوبہ ناکام رہے گا، الجہاد الاسلامی فی فلسطین
  • مقاومت کو غیر مسلح کرنا ناممکن ہے، جھاد اسلامی
  • فلسطین کا ترکی کے اسرائیلی عہدیداروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کا خیرمقدم
  • اسرائیل نے امریکی عوام میں اعتماد بحال کرنے کیلئے لاکھوں ڈالر خرچ کیے، ہارٹز کا انکشاف
  • علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ
  • اسرائیل نے امریکی عوام میں اعتماد بحال کرنے کیلئے لاکھوں ڈالرز خرچ کر ڈالے
  • انگلینڈ ‘ اسرائیلی کلب کے درمیان فٹبال میچ، سٹیڈیم کے باہر فلسطین کے حق میں احتجاج 
  • کتنے شیریں ہیں ترے لب