سابق ججز اور نامور وکلا نے پیر کے روز چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے مطالبہ کیا کہ وہ 27ویں آئینی ترمیم پر غور کے لیے فل کورٹ اجلاس طلب کریں۔

تفصیلات کے مطابق سینئر وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے تحریر کردہ خط 9 نومبر کو لکھا گیا ہے جس کی کاپی ڈان کو موصول ہوگئی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس (ریٹائرڈ) مشیر عالم، سابق سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس (ریٹائرڈ) ندیم اختر، اور دیگر 9 نامور وکلا نے اس پر دستخط کیے اور اس کی توثیق کی۔

View this post on Instagram

A post shared by Dawn Today (@dawn.

today)


خط میں کہا گیا کہ یہ پیغام عام حالات میں نہیں بلکہ ان حالات میں لکھا جا رہا ہے جو 1956 میں سپریم کورٹ کے قیام کے بعد سے اب تک ادارے کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

اس خط میں 27ویں آئینی ترمیمی ایکٹ کو وفاقی اپیلیٹ کورٹ کے ڈھانچے میں ’سب سے بڑی اور بنیادی تبدیلی‘ قرار دیا گیا جو 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے نفاذ کے بعد پہلی بار سامنے آئی ہے۔

وکلا اور جج صاحبان نے خط میں کہا کہ ہم یہ بات بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی سول یا فوجی حکومت نے کبھی یہ کوشش نہیں کی، یا کامیاب نہیں ہوئی کہ سپریم کورٹ کو ماتحت عدالت بنا دے اور اس سے مستقل طور پر اس کا آئینی دائرہ اختیار چھین لے، جیسا کہ مجوزہ (27ویں آئینی ترمیمی ایکٹ 2025) کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ اگر آپ (چیف جسٹس)، اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ یہ مجوزہ ترمیم سپریم کورٹ کی تشکیل کے بعد سے سب سے بڑی اور انقلابی تبدیلی ہے، تو ہم مؤدبانہ طور پر گزارش کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ آپ فل کورٹ میٹنگ طلب کریں تاکہ اس مجوزہ ترمیمی ایکٹ پر بحث کی جا سکے اور وفاقی حکومت کو مناسب تجاویز اور آراء دی جا سکیں۔

قانونی ماہرین نے زور دیا کہ ہم مؤدبانہ طور پر عرض کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو کسی بھی مجوزہ آئینی ترمیم پر وفاقی حکومت کو اپنی رائے دینے کا مکمل حق اور اختیار حاصل ہے، یہ مجوزہ قانون سازی سپریم کورٹ کے بنیادی ڈھانچے، اس کی آئینی حیثیت، اور انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری میں ’انقلابی تبدیلیاں‘ لا رہی ہے۔

خط میں فوری فل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ترمیم 11 نومبر (آج) یا اس کے بعد کسی بھی دن منظور کیے جانے کی توقع ہے۔

مزید کہا گیا کہ اگر یہ درخواست اس جواز کے تحت مسترد کر دی جاتی ہے کہ عدالت کو غیر جانبدار رہنا چاہیے یا قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ’جو وجوہات ہم غیر معقول سمجھتے ہیں‘، تو کم از کم ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ تحریری طور پر تسلیم کریں گے کہ آپ پاکستان کے آخری چیف جسٹس بننے پر رضامند ہیں، اور یہ بھی کہ آپ سپریم کورٹ آف پاکستان کے بطور اعلیٰ ترین عدالتی ادارے کے خاتمے کو تسلیم کر چکے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا کہ اگر آپ اس حقیقت کا اعتراف کر لیں، تو ہم آپ سے یہ توقع نہیں رکھیں گے کہ آپ سپریم کورٹ کے دفاع میں کوئی کردار ادا کریں گے۔

چونکہ یہ معاملہ انتہائی عوامی اہمیت کا حامل ہے، اس لیے خط میں یہ بھی درخواست کی گئی کہ اس کی ایک نقل میڈیا کو فراہم کی جائے۔

فیصل صدیقی اور ریٹائرڈ ججوں مشیر عالم اور ندیم اختر کے علاوہ، اس خط کی توثیق سابق اٹارنی جنرلز منیر اے ملک، انور منصور خان، سابق صدور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد ایس زبیری، علی احمد کرد، محمد اکرم شیخ، کنرانی بی امان اللہ، اور سپریم کورٹ کے وکلا خواجہ احمد حسین، صلاح الدین احمد، اور شبنم نواز اعوان نے بھی کی۔

عدالتی ڈھانچے میں مجوزہ تبدیلیاں
وفاقی کابینہ سے منظوری کے فوراً بعد (27ویں ترمیمی ایکٹ 2025 ہفتے کے روز سینیٹ میں پیش کیا گیا، جس پر حزبِ اختلاف نے ترمیم میں شامل تبدیلیوں کی رفتار اور وسعت پر شدید اعتراض کیا۔

سینیٹ کا اجلاس آج مسلسل تیسرے روز جاری ہے، اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایوان اس قانون کی منظوری دے دے گا، جس کے بعد یہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

ترمیم میں شامل مختلف تبدیلیوں میں سب سے اہم عدلیہ سے متعلق ہے، جن میں سب سے نمایاں تجویز وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی ہے۔

یہ نئی عدالت آئینی امور سے متعلق مقدمات سنے گی، اور اس کے فیصلے تمام عدالتوں (بشمول سپریم کورٹ) پر لازم ہوں گے۔

اسی نکتے کی بنیاد پر کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ان ترامیم کے نتیجے میں سپریم کورٹ کو درحقیقت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے درجے سے محروم کر دیا جائے گا۔

ترمیم کا بنیادی نکتہ ایک نئی اعلیٰ ترین عدالت (وفاقی آئینی عدالت) کا قیام ہے، جو کہ 26ویں ترمیم کے تحت بنائے گئے آئینی بنچز کی توسیع پر مبنی ہوگی، جنہیں اس وقت سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔

آئین میں باب 1-اے کے طور پر شامل کی جانے والی یہ عدالت اپنے چیف جسٹس اور ججوں پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس تین سال کی مدت کے لیے مقرر کیا جائے گا جب کہ جج سپریم کورٹ سے لیے جا سکتے ہیں، یا ایسے سینئر ہائی کورٹ ججز جو کم از کم 7 سال کا تجربہ رکھتے ہوں، یا پھر ایسے ماہر وکلا جنہیں وکالت کا کم از کم 20 سال کا تجربہ ہو۔

وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے، جب کہ موجودہ آئین کے آرٹیکل 179 کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ عمر 65 سال ہے۔

ترمیم میں مزید کہا گیا ہے کہ صدرِ مملکت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر کسی بھی ہائی کورٹ کے جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکیں گے اور اگر کوئی جج اس تبادلے کو قبول نہ کرے تو اسے اپنے عہدے سے ریٹائر تصور کیا جائے گا۔

وفاقی آئینی عدالت، سپریم کورٹ کے کئی اہم اختیارات سنبھال لے گی، نئے آرٹیکل 189 کے تحت سپریم کورٹ کو صرف دیوانی اور فوجداری اپیلوں کی اعلیٰ ترین عدالت تک محدود کر دیا جائے گا، جب کہ آئینی عدالت کے فیصلے تمام عدالتوں حتیٰ کہ سپریم کورٹ پر بھی لازم ہوں گے۔

وفاقی آئینی عدالت کو وفاق اور صوبوں کے درمیان یا صوبوں کے باہمی تنازعات پر بھی خصوصی دائرہ اختیار حاصل ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ عدالت از خود نوٹس لیتے ہوئے کسی بھی ایسے مقدمے کی سماعت کر سکے گی جس میں آئین کی تشریح سے متعلق کوئی بنیادی قانونی سوال شامل ہو۔

مزید برآں، وفاقی آئینی عدالت کو ان مقدمات پر بھی اختیار حاصل ہوگا جو بنیادی حقوق کے نفاذ، آئینی نوعیت کی اپیلوں، ہائی کورٹس کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر رِٹ پٹیشنز (خاندانی یا کرایہ داری مقدمات کے سوا)، اور صدرِ مملکت کی طرف سے آئینی مشورے کے لیے بھیجے گئے سوالات سے متعلق ہوں گے یعنی وہ تمام اختیارات جو اس وقت سپریم کورٹ کے دائرے میں آتے ہیں۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: وفاقی آئینی عدالت 27ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ کے سپریم کورٹ کو ترمیمی ایکٹ ترین عدالت کہا گیا کہ ہائی کورٹ عدالت کے چیف جسٹس فل کورٹ کسی بھی جائے گا کے تحت ہیں کہ کیا جا کے بعد کے لیے

پڑھیں:

’چیف آف آرمی اسٹاف چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے‘،27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ سامنے آگیا

آئین پاکستان میں 27ویں آئینی ترمیم کا بل ایکسپریس نیوز کو موصول ہوگیا،  مجوزہ ڈرافٹ 48شقوں اور 25صفحات پر مشتمل ہے۔

مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق آئینی ترمیم بل کا مقصد آئین میں مزید تبدیلیاں کرنا ہے، بل فوری طور پر نافذ العمل ہو گا، آرٹیکل 42 میں لفظ پاکستان کی جگہ فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ تجویز ہے۔

آرٹیکل 59 میں ممبران کی مدت کی وضاحت شامل ہیں، ہر رکن کی مدت 11 مارچ کو مکمل تصور ہو گی۔ آرٹیکل 63A میں لفظ سپریم بدل کر فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کرنے کی تجویز ہے۔

آرٹیکل 68 میں پارلیمانی بحث کے حوالے سے فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا ذکر شامل ہے۔

آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترامیم کے مطابق صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر کریں گے، چیف آف آرمی اسٹاف چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے۔

27 نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرنے کی تجویز  ہے، وزیراعظم آرمی چیف کی سفارش پر نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تقرر کریں گے، فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمیرل آف فلیٹ کا رینک مراعات اور وردی تاحیات رہیں گے۔

آرٹیکل 78 میں ترمیم متعلقہ پیراگراف میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا ذکر شامل کرنے کی تجویز ہے، آرٹیکل 81 میں ترمیم دونوں پیراگراف میں عدالت کا اضافہ تجویز ہے، 

مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق آئینی عدالت 7ججز پر مشتمل ہو گی،  آرٹیکل 93 میں تبدیلی: لفظ 5 کی جگہ 7 کرنے کی  تجویز شامل  ہے، آرٹیکل 100 میں ترمیم: لفظ سپریم کی جگہ وفاقی آئینی شامل کرنے کی تجویز ہے۔

آرٹیکل 114 میں ترمیم کے دوسری بار آنے والے لفظ  کے بعد عدالت کا نام شامل کرنے کی تجویز ہے، آرٹیکل 165A میں ترمیم بھی مجوزہ ڈرافٹ کا حصہ  ہے۔

آرٹیکل 165A میں دوسرے مقامات پر فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا اضافہ تجویزکیا گیا ہے، سرکاری اخراجات اور عدالتی دائرہ کار سے متعلق حوالوں میں تبدیلی، آرٹیکل 175 میں ترمیم بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

آرٹیکل 175 کی تعریف میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ آف پاکستان کا ذکر شامل کرنے کی تجویز ہے، آرٹیکل 175A میں بڑی تبدیلیاں کر دی گئی۔

عدالتی تقرری کے طریقہ کار میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا کردار شامل کرنے کی تجویز ہے، چیف جسٹس فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کو جوڈیشل کمیشن میں نمائندگی ملنے کی تجویز ہے۔

جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو، سپریم کورٹ اور فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کے سینئر ججز شامل ہوں گے۔

اعلی عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کیلئے آرٹیکل 175اے میں ترمیم کی تجویز،  وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونگے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونگے، سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت نے سنیئر  ایک ایک جج بھی جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونگے۔

ویں آئینی ترمیم سو موٹو اختیارات ختم کرنے اور  آرٹیکل 184مکمل شق ختم  کرنے کی تجویز ہے، ویں آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ سے سوموٹو کے اختیارات واپس لینے کی تجویز ہے۔

وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو مشترکہ طور پر 2 سال کیلئے نامزد کر سکتی ہے۔

وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تعداد ایکٹ آف پارلیمنٹ یا صدر کی منظوری سے کیا جائیگا۔

وفاقی آئینی عدالت کے جج کا پاکستانی شہری ہونا لازمی قرار دینے اور وفاقی آئینی عدالت کے جج کیلئے 68 سال عمر کی حد مقرر کرنے کی تجویز ہے، آئینی عدالت میں 20سال وکالت کا تجربہ رکھنے والا وکیل جج بننے کی اہلیت رکھ سکے گا۔

27ویں آئینی ترمیم سے قبل مفاد عامہ کے تمام مقدمات جو  آئینی بینچز میں زیر سماعت تھے خودکار طور پر وفاقی آئینی عدالت میں منتقل ہو گے، وفاقی آئینی عدالت  دو وفاقی اور صوبوں حکومتی کے مابین تنازعات کا مقدمہ  سننے کی مجاز ہوگی، صدر مملکت کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت بھی آئینی عدالت کرنے کی مجاز ہوگی۔

وفاقی آئینی عدالت میں ہائی کورٹ کو وہ جج ممبر بن سکتا ہے جس نے ہائی کورٹ میں کم از کم 7سال بطور جج خدمات دی ہوں، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت تین سال رکھنے کی تجویز  ہے، وفاقی آئینی عدالت کی مستقل نشست اسلام آباد میں ہو گی۔

 وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے کا اطلاق پاکستان کی تمام عدالتوں سمیت سپریم کورٹ پر بھی ہوگا، سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کا اطلاق وفاقی آئینی عدالت پر نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ملک آئینی عدالت کے سوائے ملک کی تمام عدالتوں پر ہوگا۔

 

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم: سپریم کورٹ سب سے بڑے خطرے سے دوچار، وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ
  • سپریم کورٹ میں دوران سماعت آئینی عدالت پر جسٹس منصور کے دلچسپ ریمارکس پر قہقہے
  • 27ویں آئینی ترمیم پر سینیئرز وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط، اہم مطالبہ کر دیا
  • ستائیسویں آئینی ترمیم پر سینیئرز وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط، اہم مطالبہ کر دیا
  • وفاقی آئینی عدالت کے ججز کے نام منظرِ عام پر آگئے
  • 27ویں ترمیم:ملک میں بڑی آئینی تبدیلیوں کے لیے رواں ہفتہ اہم
  • 27ویں ترمیم، اعلیٰ عدالتی اختیارات میں کمی، فوجی ڈھانچے میں تبدیلی، مسودہ سامنے آگیا
  • 27ویں آئینی ترمیم کے مطابق چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ کس کو تفویض کیا جائیگا؟ مسودہ سامنے آگیا
  • ’چیف آف آرمی اسٹاف چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے‘،27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ سامنے آگیا