اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئینی عدالت کی ممکنہ تشکیل کے لیے تیاریاں تیز
اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئینی عدالت کی ممکنہ تشکیل کے لیے تیاریاں تیز WhatsAppFacebookTwitter 0 10 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)
آئینی عدالت کی ممکنہ تشکیل اور جگہ کے انتخاب کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں تیاریاں تیز ہوگئیں۔
ذرائع کے مطابق فیڈرل شریعت کورٹ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کی تھرڈ فلور خالی کروانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہائی کورٹ کے تھرڈ فلور سے ریکارڈ روم کو پرانی ہائیکورٹ بلڈنگ میں منتقل کردیا گیا ہے۔
عدالتی ذرائع کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسسٹنٹ رجسٹرار محمد اسد کو ریکارڈ کی منتقلی کے لیے سپروائزر مقرر کردیا ہے، جبکہ ایڈیشنل رجسٹرار نے اس حوالے سے باقاعدہ آفس آرڈر بھی جاری کیا ہے۔
آفس آرڈر کے مطابق اسسٹنٹ رجسٹرار محمد اسد پرانی بلڈنگ میں ریکارڈ روم کے امور دیکھیں گے، جن میں ریکارڈ کی ترتیب اور منظم کرنے سے متعلق معاملات شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق ممکنہ آئینی ترمیم کے بعد آئینی عدالت کی تشکیل کے تناظر میں فیڈرل شریعت کورٹ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے تھرڈ فلور پر منتقل کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمعروف پروفیسر ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا انتقال کر گئیں معروف پروفیسر ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا انتقال کر گئیں کیش لیس معیشت سے گورننس میں بہتری اور کرپشن میں کمی آئے گی، وزیراعظم نمبرز پورے ہوگئے ہیں، اب ایمل ولی کیا کریں گے؟خاتون صحافی کے سوال پر اعظم نذیر تارڑ نے کیا جواب دیا؟ جے یو آئی کا 27ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلیے سینیٹ کا اجلاس جاری، حکومت کا نمبرز پورے ہونے کا دعویٰ ستائیسویں آئینی ترمیم پر سینیئرز وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط، اہم مطالبہ کر دیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائی کورٹ آئینی عدالت کی کے لیے
پڑھیں:
27ویں ترمیم:ملک میں بڑی آئینی تبدیلیوں کے لیے رواں ہفتہ اہم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: 27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ بل پیش کیے جانے کے بعد یہ ہفتہ سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے پیش کردہ ترمیم کے مطابق ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کو ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے ماتحت کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس مجوزہ تبدیلی کے تحت اس نئی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری براہِ راست انتظامیہ کرے گی، جب کہ سپریم کورٹ کو اس کے دائرۂ اختیار کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اس بل کو رواں ہفتے کے دوران ہر صورت منظور کرانے کے لیے پُرعزم ہے۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام سے لفظ پاکستان بھی حذف کر دیا جائے گا، جب کہ چیف جسٹس کا عہدہ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت میں تبدیل ہو جائے گا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے 12 نومبر کو ترکی کے سرکاری دورے پر روانہ ہونے کے بعد ان کی غیر موجودگی میں سینئر ترین جج سید منظور علی شاہ قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے۔
ماہرینِ قانون کے مطابق اگر اس دوران پارلیمان نے 27ویں ترمیم منظور کر لی، تو حکومت کسی بھی جج کو نیا چیف جسٹس نامزد کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نظریں اب سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اس ترمیم پر کس نوعیت کا ردعمل دیتی ہے۔
قانونی ماہرین اور وکلا برادری میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی خودمختاری آئین کی بنیادی روح ہے، جسے کسی بھی قیمت پر مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چیف جسٹس آفریدی کو فوری طور پر فل کورٹ اجلاس بلا کر ججز کا متفقہ مؤقف سامنے لانا چاہیے تاکہ ادارے کی ساکھ محفوظ رہ سکے۔
دوسری جانب حکومتی اتحاد کے قانونی ماہرین اپنی قیادت کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ ایسی وفاقی آئینی عدالت کی ساکھ پر عوامی اعتماد کیسے قائم رہے گا، جس کے سربراہ کا تقرر خود حکومت کرے۔ سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کو اصولی مؤقف اپناتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے، تاکہ عدلیہ کی غیر جانب داری اور وقار برقرار رہے۔