اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) شام کے صدر احمد الشرح نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایسی نئی ریاست قائم کر کے اپنی تعمیرنو کر رہا ہے جس میں بلاتفریق تمام لوگوں کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ شام ایک ایسا ملک ہے جس کی تاریخی تہذیب و ثقافت ہے۔

ایسی ریاست بننا اس کے شایان شان ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو، جو ہر فرد کی حفاظت کرے، تمام شہریوں کے حقوق کو محفوظ رکھے اور آزادیوں کی ضمانت دے۔

جنرل اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے کہا کہ شام کی سابقہ حکومت نے تقریباً 10 لاکھ افراد کو قتل کیا، لاکھوں کو اذیتیں دیں، لگ بھگ ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کو بے گھر کیا اور تقریباً 20 لاکھ گھروں کو ان کے مکینوں کے سروں پر تباہ کر دیا جبکہ عوام کو دو سو سے زیادہ مصدقہ حملوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بنایا۔

(جاری ہے)

سابق حکومت نے یہ سب کچھ سچائی کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے کیا اور مسائل کے سیاسی حل کو تسلیم کرنے سے انکاری رہی۔ لہٰذا عوام کے پاس اپنی صفیں منظم کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا جنہوں نے تیزرفتار کارروائی کر کے ساٹھ برس سے قائم مجرمانہ نظام کا خاتمہ کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ مظلوموں، اذیت کا شکار افراد اور بے گھر کیے گئے لوگوں کی جنگ جیت لی گئی ہے۔

پناہ گزینوں کی اپنے گھروں کو واپسی کا راستہ ہموار کر دیا گیا ہے۔ منشیات کی اس تجارت کو ختم کر دیا گیا ہے جو سابق حکومت کے دور میں شام سے دیگر ممالک کی جانب ہو رہی تھی۔نئے تصادم کا خدشہ

احمد الشرع نے کہا کہ شام کی منفرد کامیابی اور عوامی یکجہتی کو دیکھ کر بعض عناصر نے فرقہ وارانہ فساد اور داخلی لڑائی کو ہوا دینے کی کوشش کی تاکہ تقسیم کے منصوبوں کو آگے بڑھایا جا سکے اور ملک کو ایک بار پھر تقسیم کیا جا سکے۔

انہوں نے ملک کو لاحق اسرائیلی خطرات کا تذکرہ بھی کیا جو شام اور اس کے عوام کے حق میں بین الاقوامی مؤقف کے منافی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات سے خطہ ایک اور نئے تصادم کے دائرے میں داخل ہو سکتا ہے جس کا انجام نامعلوم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شام اس بحران پر قابو پانے کے لیے مکالمے اور سفارت کاری کا راستہ اپنا رہا ہے، 1974 کے 'ڈس انگیجمنٹ معاہدے' سے اپنی وابستگی کا اعادہ کرتا ہے اور بین الاقوامی برادری سے کہتا ہے کہ وہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے میں شام کا ساتھ دے اور ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کیا جائے۔

غزہ کے لوگوں سے یکجہتی

شام کے صدر نے کہا کہ سابق حکومت کے زوال کے بعد ان کے ملک نے واضح اہداف پر مبنی ایک ایسی پالیسی قائم کی ہے جو متوازن سفارت کاری، سلامتی کے استحکام اور اقتصادی ترقی پر مبنی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ شام میں عوامی نمائندوں کے لیے قانون ساز کونسل کے انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے، شہری و عسکری اداروں کو ازسرنو منظم کیا گیا ہے اور تمام سابقہ ڈھانچوں کو اس اصول کے تحت تحلیل کر دیا گیا ہے کہ اسلحہ صرف ریاست کے پاس ہو۔

شام نے اپنے بین الاقوامی تعلقات کو بحال کیا ہے، علاقائی و عالمی شراکتیں قائم کی ہیں اور اس پر پابندیوں کا بتدریج خاتمہ ہو رہا ہے۔ پابندیوں کو شام کے عوام کی آزادی سلب کرنے کا ہتھیار بننے نہیں دینا چاہیے۔

انہوں نے غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے علاقے میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جو درد شام نے سہا ہے اس کا سامنا کسی کو نہیں ہونا چاہیے۔ شام کے لوگوں کو جنگ کی تباہی اور اذیت کا پوری شدت سے احساس ہے اور اسی لیے وہ غزہ کے عوام کی حمایت کرتے ہیں جو جارحیت اور حقوق کی پامالیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ انہوں نے کہ شام کر دیا شام کے گیا ہے رہا ہے

پڑھیں:

علاقائی تبدیلیاں نئی اقتصادی حکمتِ عملی کی متقاضی ہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(کامرس ڈیسک)معروف تاجر رہنما شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی عالمی سیاسی غیر یقینی نئے دفاعی و تجارتی اتحاد اوربھارت اور افغانستان پر بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ سے پاکستان کی تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔ حکومت فوری طور پر تجارتی پالیسی پر نظرِثانی کرے۔ جب عالمی معیشت اور جغرافیائی سیاست تیزی سے بدل رہی ہو تو پاکستان پرانی پالیسیوں پر قائم نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کی تجارتی مسابقت بات پر منحصر ہے کہ اس کی تجارتی حکمتِ عملی نئے حقائق سے کس حد تک ہم آہنگ ہے۔کاروباری برادری سے خطاب کرتے ہوئے شاہد رشید بٹ نے کہا کہ پاکستان کو درپیش تجارتی مسائل صرف محصولات میں ردوبدل سے حل نہیں ہو سکتے بلکہ یہ ایک وسیع تر عالمی تناظر سے جڑے ہوئے ہیں۔ کاروباری طبقے میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ برآمدات بڑھانے اور علاقائی تجارتی راہداریوں سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے جڑی مالیاتی شرائط طویل عرصے سے پاکستان کی تجارتی پالیسی پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ محصولات میں اضافہ اور درآمدی پابندیاں زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کے نام پر نافذ کی گئیں مگر یہ اقدامات صرف وقتی حل ہیں اور ان سے طویل مدتی ترقی ناممکن ہے ۔دنیا کے زیادہ تر ممالک اپنی حکمت عملی پر نظرِثانی کر رہے ہیں۔ بھارت جو خطے کی بڑی معیشت ہیامریکہ کی جانب سے ٹیکنالوجی رسائی تجارتی مراعات اور ویزوں کے حصول رکاوٹوں کا سامنا کر رہا ہے جس سے اسکی چالیس ارب ڈالر کی ترسیلات متاثر ہو رہی ہیں۔ خلیجی ممالک نئے معاشی و دفاعی اتحاد بنا رہے ہیں جبکہ چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں میں سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے جس سے پاکستان کے لیے پائیدار تجارتی شراکت داریوں کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔شاہد رشید بٹ نے کہا کہ درآمدات پر ضرورت سے زیادہ انحصار مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔درامدات روکنے توانائی کی قیمت اورمحصولات بڑھانے نے عوام اور معیشت کو متاثر کیا ہے اور اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے جس پر توجہ دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ وقتی اقدامات سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح کرتے ہیں۔ ہمیں واضح برآمدی اہداف مقرر کرنے، مصنوعات کی بنیاد وسیع کرنے اور نئے تجارتی معاہدے کرنے کی ضرورت ہیکیونکہ پاکستان کی ترقی، روزگار اور مہنگائی براہِ راست تجارت سے جڑے ہوئے ہیں۔

کامرس ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • موجودہ عالمی نظام طاقتور ممالک کی اجارہ داری پر قائم، سری لنکن صدر
  • پاکستان میں کان کنی کے شعبے کی ترقی اور عالمی سرمایہ کاری کے نئے مواقع
  • سندھ کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کی جارہی ہے،زین شاہ
  • ابرا‌ر احمد کی دھوم، آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی رینکنگز میں ٹاپ فور میں شامل
  • ٹی ٹوئنٹی رینکنگ: ایشیا کپ میں شاندار کارکردگی، ابرار ٹاپ پوزیشن کے انتہائی قریب آگئے
  • احسن اقبال سی پیک مشترکہ رابطہ کمیٹی کے 14ویں اجلاس میں شرکت کیلئے چین  چلے گئے
  • وزیراعظم کی سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کیلیے قابل عمل منصوبوں پرکام کی ہدایت
  • پاکستان اور سعودی عرب کے اقتصادی تعلقات کے استحکام کا خیر مقدم کرتے ہیں،زبیر طفیل
  • علاقائی تبدیلیاں نئی اقتصادی حکمتِ عملی کی متقاضی ہیں