یمن کے نگراں صدر رشاد العلیمی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ثابت کرے کہ بین الاقوامی قانون صرف ایک "افسانہ" نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یمن کے صدر رشاد العلیمی نے مزید کہا کہ یمن اور غزہ کی صورتحال آج عالمی ضمیر کے لیے ایک اخلاقی کسوٹی بن چکی ہے۔

یمنی صدر نے کہا کہ فلسطینی مسئلہ عرب عوام کا مرکزی مسئلہ ہے اور ایک ایسا زخم ہے جو مسلسل رس رہا ہے۔

انہوں نے حوثی باغیوں کو "انتہا پسند دہشت گرد گروہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یمن کا بحران محض داخلی مسئلہ نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ساکھ کا امتحان ہے۔

ان کے بقول یمنی عوام دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہے ہیں، جبکہ ہماری سلامتی کے مسائل ہماری سرحدوں سے نکل کر پورے خطے اور دنیا تک پھیل گئے ہیں۔

رشاد العلیمی نے الزام لگایا کہ حوثیوں کو ایران کی جانب سے ممنوعہ ہتھیار فراہم کیے جا رہے ہیں۔ یمن میں قیام امن کے لیے ایک مؤثر بین الاقوامی اتحاد تشکیل دیا جائے۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ عالمی اتحاد یمن میں امن بحال کرے، ریاستی اداروں کی دوبارہ تعمیر کرے اور ملک کو ملیشیاؤں اور دہشت گرد گروہوں کے چنگل سے نجات دلائے۔

یاد رہے کہ یمن میں 2014 سے حوثی باغیوں اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے درمیان خانہ جنگی جاری ہے جبکہ باغی ملک کے شمالی حصوں پر قابض ہیں۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی کہا کہ

پڑھیں:

غزہ کے لیے امریکی امن قرارداد، بین الاقوامی فوج کے اختیارات پر اختلاف کا خدشہ

نیویارک: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا کی تیار کردہ غزہ امن قرارداد پر بات چیت کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ قرارداد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی منظوری کے لیے پیش کی جا رہی ہے، تاہم ماہرین کے مطابق بین الاقوامی فوج (ISF) کے دائرہ کار پر اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے۔

امریکا نے اہم عرب اور مسلم ممالک کے نمائندوں کے ساتھ قرارداد پر تفصیلی مذاکرات کیے۔ ایک روز قبل امریکا نے یہ مسودہ قرارداد سلامتی کونسل کے 15 ارکان کو ارسال کی تھی۔ ذرائع کے مطابق مصر، قطر، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات اس کے متن کے حق میں ہیں۔

امریکی نمائندہ مائیکل والٹز نے اقوام متحدہ میں 10 منتخب ارکان — الجزائر، ڈنمارک، یونان، گویانا، پاکستان، پانامہ، جنوبی کوریا، سیرالیون، سلووینیا اور سومالیا — کے اجلاس میں منصوبے کے لیے علاقائی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

رپورٹس کے مطابق قرارداد کا مقصد صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کو تقویت دینا اور بین الاقوامی فورس (ISF) کو بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ غزہ میں سیکیورٹی اور انسانی امداد کی نگرانی کر سکے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق امریکی مسودہ میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ غزہ کی صورتحال علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے، جب کہ عام طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 7 کے تحت ایسے اقدامات صرف عالمی امن کے خطرے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ سے مستقبل میں کچھ ممالک قرارداد کے قانونی دائرہ کار پر اعتراض کر سکتے ہیں۔

امریکی مسودے کے مطابق آئی ایس ایف کو شہریوں کے تحفظ، سرحدی سیکیورٹی، اور غزہ کی غیر مسلح کاری کو یقینی بنانے کا اختیار حاصل ہوگا، تاہم مسلم ممالک کے کچھ نمائندوں نے اس نکتے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق فورس میں تقریباً 20 ہزار فوجی شامل ہوں گے۔ امریکا نے اپنے فوجی نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن وہ انڈونیشیا، یو اے ای، مصر، قطر، ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ تعاون پر بات چیت کر رہا ہے۔ پاکستان کا نام بھی ممکنہ فوجی شراکت داروں میں شامل ہے، تاہم اسلام آباد نے اس پر تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ قرارداد کو جلد از جلد ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا، اور امکان ہے کہ روس اور چین اپنی رائے دیں گے، لیکن وہ اس منصوبے کو روکنے کی توقع نہیں رکھتے۔

متعلقہ مضامین

  • سوڈان کے شہر الفاشر میں قتل و غارت کی انتہا، اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش
  • پاکستان کو منشیات کیخلاف جنگ میں اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا: اقوام متحدہ
  • کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟
  • اقوام متحدہ کا پاکستان کی منشیات کے خلاف کارروائیوں کا عالمی سطح پر اعتراف
  • پاکستان کو منشیات کے خلاف جنگ میں اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا: اقوام متحدہ
  • امریکا اور اقوام متحدہ کی شامی صدر پر عائد پابندیاں ختم، دہشتگردوں کی فہرست سے نام خارج
  • اقوام متحدہ کے بعد امریکا نے بھی شامی صدر احمد الشرع پر پابندیاں ختم کر دیں
  • امریکا نے شامی صدر کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا
  • غزہ میں استحکام کے لیے بین الاقوامی فورس بہت جلد تعینات کی جائے گی، امریکی صدر
  • غزہ کے لیے امریکی امن قرارداد، بین الاقوامی فوج کے اختیارات پر اختلاف کا خدشہ