اسلام آباد:

عالمی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف ) نے ایک ججز کی تقرری،عدلیہ کی سالمیت اور آزادی سمیت گورننس اور بدعنوانی کا جامع جائزہ لینے کے لیے ایک مشن پاکستان بھیجا ہے۔

حکومتی اور سفارتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اپنی نوعیت کے اس پہلے تفصیلی جائزہ پر آئے اس مشن نے جمعرات کو اپنے کام کا آغاز کیا اور 14 فروری تک اپنا کام مکمل کریگا ۔ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران آئی ایم ایف کی ٹیم کم از کم 19 حکومتی وزارتوں، محکموں اور ریاستی اداروں کے نمائندوں سے ملاقات کرے گی، جس میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی شامل ہیں۔

مشن کا فوکس قانون کی حکمرانی، انسداد بدعنوانی، مالیاتی نگرانی، ریاست کے گورننس ڈھانچے میں گہری جڑی پکڑے ہوئے مخصوص مفادات کا خاتمہ اور منی لانڈرنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس مشن کی منصوبہ بندی گزشتہ سال ستمبر میں کی گئی تھی لیکن یہ ایک ایسے نازک وقت پر آیا جب اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرریوں کے طریقہ کار پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے.

 

ذرائع کا کہنا ہے کہ مشن اگلے ہفتے جوڈیشل کمیشن کے ساتھ میٹنگ کرے گا اور ججز کی تقرری کے طریقہ کار پر بات کرے گا۔ یہ عدلیہ کیسالمیت اور آزادی کے بارے میں جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے ملاقاتیں کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے ۔ مشن اپنی تشخیص کو حتمی شکل دے گا اور اس کی رپورٹ جولائی 2025 تک شائع کر دی جائے گی۔ 7 بلین ڈالر کے معاہدے کے تحت پاکستان گورننس کی مکمل رپورٹ شائع کرنے کا پابند ہے۔

آئی ایم ایف قومی احتساب بیورو کے ساتھ مل کر انسداد بدعنوانی کی قومی حکمت عملی، بدعنوانی کی نوعیت اور سنگینی ، انسداد بد عنوانی قانون کے نفاذ بشمول منی لانڈرنگ کی تحقیقات اور پراسیکیوشن پر تبادلہ خیال کرے گا۔

آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان کی کمزوریاں اور ساختی چیلنجز بدستور زبردست ہیں۔ مشکل کاروباری ماحول، کمزور گورننس، اور ریاست کا بڑا کردار سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ آئی ایم ایف مالیاتی مانیٹرنگ یونٹ کے ساتھ بھی ملاقات کر رہا ہے تاکہ ذمہ دار اداروں سے مشتبہ لین دین کی رپورٹنگ، مالیاتی انٹیلی جنس، وسائل اور ان چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون کی حکمرانی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وزارت قانون و انصاف کے ساتھ ایک اہم اجلاس ہوگا۔

آئی ایم ایف مشن عدلیہ کی آزادی، جائیداد کے حقوق کے تحفظ اور معاہدے کے نفاذ کے ذریعے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی قانونی اصلاحات کی ضرورت کے بارے میں جائزہ لے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ مشن سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کرے گا، جن میں سے کچھ ملاقاتیں پہلے ہی ہو چکی ہیں۔

مرکزی بینک نے گورننس اور سٹیٹ بینک، بینکنگ سیکٹر اور اس کی نگرانی کے انسداد بدعنوانی سے متعلق اہم چیلنجوں اور اصلاحات کی ترجیحات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ مرکزی بینک کے قانونی فریم ورک اور گورننس کے انتظامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے جبکہ موجودہ قوانین اور گورننس کو بہتر بنانے کے لیے ان میں ترمیم کی ضرورت پر مزید بات چیت ہوگی۔ آئی ایم ایف مشن بینکنگ کی نگرانی، تنظیم، وسائل کی فراہمی، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نظام، سپروائزرز کے لیے قانونی تحفظ، اور نگران فیصلہ سازی کے بارے میں بریفنگ بھی طلب کرے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ اسلامی بینکاری اور انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کا مقابلہ، بینکنگ ادائیگی کا نظام، حکومت اور بینکوں کے انتظامات کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ آئی ایم ایف ایف بی آر کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کرے گا۔ آئی ایم ایف ٹیکس پالیسی بنانے اور اس پر عمل درآمد میں گورننس کے خطرات کا جائزہ لے گا۔

فیڈرل لینڈ کمیشن کے ساتھ ایک میٹنگ ہو گی جس میں لینڈ مینجمنٹ میں گورننس کے پیرامیٹرز کا جائزہ لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے محکمے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے ملاقات کرے گا تاکہ بیوروکریٹس کے اثاثہ جات کے اعلان کے نظام کے لیے اپنے انسداد بدعنوانی کے ڈھانچے کا جائزہ لیا جا سکے. 

بجٹ کی تیاری اور اس پر عملدرآمد اور موجودہ اصلاحات کا جائزہ لینے کے لیے وزارت خزانہ کے ساتھ متعدد اجلاسوں کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے۔ بیرونی قرضوں، وزارت خزانہ کے ساتھ قرض کے انتظام کے تعاون بشمول قرضوں کے اعداد و شمار جمع کرنے اور اشاعت پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے وزارت اقتصادی امور کے ساتھ ایک میٹنگ کا بھی منصوبہ ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جائزہ لینے کے لیے انسداد بدعنوانی ا ئی ایم ایف منی لانڈرنگ ا ف پاکستان کے بارے میں عدلیہ کی کا جائزہ کے ساتھ اور اس کرے گا

پڑھیں:

گلگت بلتستان وفاقی سازشوں کے شکنجے میں ایک تفصیلی جائزہ

اسلام ٹائمز: یہ لوٹ مار صرف معاشی نہیں، بلکہ جیو پولیٹیکل بھی ہے۔ امریکہ اور چین دونوں یہاں کی معدنیات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی طاقتور لوگ ان کے ساتھ خفیہ معاہدے کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے پاکستانی وزیر خارجہ سے معدنیات کی کان کنی کے بارے میں بات کی جو علاقے میں جاسوسی کی آڑ میں کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ گلگت بلتستان کو ایک نوآبادیاتی علاقہ بنا رہا ہے، جہاں وسائل نکالے جا رہے ہیں مگر ترقی صفر ہے۔ تحریر: ایس ایم مرموی

گلگت بلتستان یہ وہ خطہ ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی بلند و بالا پہاڑوں اور بے پناہ معدنی وسائل کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ مگر افسوس کہ یہاں کی یہ دولت ہی اس کی بدقسمتی کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ وفاقی حکمرانوں اور بیرونی طاقتوں کی نگاہیں یہاں کے سونے، تانبے، جپسم، لیتھیم، یورینیم اور دیگر قیمتی معدنیات پر ٹکی ہوئی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس علاقے کو ہمیشہ تقسیم کرکے، لڑوا کر اور انتشار پھیلا کر قابض کیا گیا ہے۔ آج بھی یہی پرانی حکمت عملی نئے روپ میں جاری ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے، جہاں 2024ء اور 2025ء میں بڑھتے ہوئے احتجاج، معدنی وسائل کی لوٹ مار اور وفاقی پالیسیوں کے خلاف عوامی غم و غصہ عروج پر ہے، یہ موضوع ایک مفصل تجزیے کا متقاضی ہے۔

تاریخی پس منظر: تقسیم اور قبضے کی حکمت عملی

گلگت بلتستان کی تاریخ استحصال اور دھوکے کی داستان ہے۔ 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں یہ علاقہ جموں و کشمیر کا حصہ تھا، مگر برطانوی افسر میجر ولیم براؤن نے اسے پاکستان کے حوالے کردیا۔ براؤن نے گلگت سکاؤٹس کے ذریعے علاقے کو پاکستان سے ملانے کا اعلان کر دیا۔ آج بھی یہ علاقہ پاکستان کا نہ تو ایک مکمل صوبہ ہے اور نہ ہی اسے وفاقی پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے۔ یہ ایک "انتظامی علاقہ ہے جہاں فیصلے اسلام آباد سے ہوتے ہیں، اور مقامی اسمبلی محض ایک کٹھ پتلی ہے۔

2025ء میں یہ استحصال نئی شکلوں میں سامنے آ رہا ہے۔ مثال کے طور پر، لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025ء نے علاقے کی زمینوں کو متنازعہ بنا دیا ہے، جس کے خلاف گلگت، سکردو اور شیگر میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے۔ مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ یہ ایکٹ زمینوں کو چینی کمپنیوں اور وفاقی اداروں کے حوالے کرنے کا بہانہ ہے جبکہ اصل مالکان کو کچھ نہیں مل رہا، اسی طرح، معدنی وسائل کی کان کنی کے معاہدے خفیہ طور پر کیے جا رہے ہیں، جن میں امریکہ، چین اور پاکستانی افراد کی ملی بھگت شامل ہے۔

معدنی وسائل کی لوٹ مار وفاقی سازش کا مرکز
گلگت بلتستان معدنیات کا خزانہ ہے یہاں سونا، یورینیم، جواہرات، ماربل اور لیتھیم کی بڑی مقدار موجود ہے۔ مگر یہ وسائل مقامی لوگوں کی بجائے بیرونی طاقتوں کی جیب بھر رہے ہیں۔ 2025ء میں، شگر کے رہائشیوں نے معدنی وسائل کی کان کنی کے خلاف احتجاج کیا، الزام لگاتے ہوئے کہ وفاقی حکومت نے ان وسائل کو غیر ملکی کمپنیوں کو بیچ دیا ہے بغیر مقامی رضامندی کے۔ کے ٹو ایکشن کمیٹی نے یہ احتجاج منظم کیا جو زمینوں کی لوٹ اور وسائل کی چوری کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے۔

وفاقی ادارے جیسے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (FWO) معدنی کان کنی میں ملوث ہیں، مگر مقامی قبائل کو کچھ نہیں مل رہا۔ مثال کے طور پر۔ سی پیک کے تحت چینی کمپنیاں یہاں کی ندیوں اور پہاڑوں کو استعمال کر رہی ہیں، مگر گلگت بلتستان کے گاؤں اب بھی تاریکی میں ڈوبے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ علاقہ پاکستان کی بجلی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر مقامی لوگوں کو بجلی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

یہ لوٹ مار صرف معاشی نہیں، بلکہ جیو پولیٹیکل بھی ہے۔ امریکہ اور چین دونوں یہاں کی معدنیات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی طاقتور لوگ ان کے ساتھ خفیہ معاہدے کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے پاکستانی وزیر خارجہ سے معدنیات کی کان کنی کے بارے میں بات کی جو علاقے میں جاسوسی کی آڑ میں کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ گلگت بلتستان کو ایک نوآبادیاتی علاقہ بنا رہا ہے، جہاں وسائل نکالے جا رہے ہیں مگر ترقی صفر ہے۔

وفاق کی حکمت عملی واضح ہے بانٹو، لڑاؤ اور قابض ہو جاؤ۔ گلگت بلتستان میں شیعہ، اسماعیلی اور سنی فرقوں کو آپس میں لڑوانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح، بلتی، شینا اور دیگر زبانیں استعمال کرکے لسانی تقسیم پھیلائی جا رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے بنیادی حقوق  تعلیم، صحت، روزگار، صاف پانی  بھول جائیں اور آپسی جھگڑوں میں الجھے رہیں۔

2024،25ء میں گندم کی سبسڈی ختم کرنے اور ٹیکسوں کے خلاف احتجاج اس کی مثال ہیں۔ ہزاروں لوگوں نے قراقرم ہائی وے بلاک کی، خنجراب پاس بند کیا، اور وفاقی پالیسیوں کے خلاف نعرے لگائے۔ یہ احتجاج صرف معاشی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہیں لوگ آزادی اور حقوق مانگ رہے ہیں، مگر وفاقی حکومت ان احتجاج کو دبانے کے لیے انسداد دہشت گردی قوانین استعمال کر رہی ہے اور لوگوں کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے۔

موجودہ صورتحال احتجاج اور مزاحمت کی لہر
2025ء کی صورتحال تشویش ناک ہے۔ اپریل میں، گلگت بلتستان میں معدنی پالیسیوں کے خلاف بڑے احتجاج ہوئے، جہاں مذہبی رہنما آقا سید علی رضوی نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ یہ زمین ہماری ہے، فوج یا حکومت کی نہیں۔ جولائی میں، لینڈ گرابنگ کے خلاف سکردو اور گلگت میں مظاہرے ہوئے اور اب ستمبر میں بھی احتجاج جاری ہیں۔ خنجراب پاس 54 دن بند رہنے کے بعد کھلا، مگر تاجر اب بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج بتاتے ہیں کہ لوگ جاگ چکے ہیں مگر وفاقی ادارے انہیں خاموش کرنے کے لیے نگرانی، ڈرون حملے اور اغوا کا استعمال کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگ پرامن ہیں، مگر اگر یہ استحصال جاری رہا تو بلتستان لبریشن آرمی جیسی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں۔

گلگت بلتستان کا مسئلہ صرف معدنیات کا نہیں بلکہ شناخت، حقوق اور مستقبل کا ہے۔ وفاقی سازشیں جاری ہیں، مگر عوام کو متحد ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہم متنبہ کرتے ہیں کہ یہاں کی زمینوں اور پہاڑوں پر ڈاکہ نہیں چلے گا۔ 77 سال کی غلامی کے بعد، اب حقوق لینے کا وقت ہے۔ عوام جاگیں، متحد ہوں، اور اپنے وسائل کی حفاظت کریں ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمارے نمائندے بھی وفاق کے غلام اور کھٹ پتلی ہیں، یہاں سے جو آرڈر ملتا ہے اس پر لبیک کہتے ہیں یہ اس خطے سے اور نہ اس قوم سے مخلص ہیں اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں، اب قوم کو بھی ان مقامی بہروپیوں امجد، حفیظ، رانا فرمان شمس لون جیسے مفاد پرستوں کو سمجھنا ہوگا نہیں تو یہ کسی دن سب کو بیچ دیں گے۔ 

متعلقہ مضامین

  • بینکنگ کورٹ کے ملازمین کام چور، جوڈیشل الاﺅنس نہیں دیا جاسکتا، لاہور ہائیکورٹ
  • آئی ایم ایف مشن کل پاکستان پہنچے گا، اقتصادی جائزے کے بعد نئی قسط ملنے کا امکان
  • چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا بینکنگ کورٹ ملازمین کو جوڈیشل الاﺅنس دینے سے انکار
  • 200 کروڑ روپے کے منی لانڈرنگ، جیکولین کی درخواست پر عدالت کا فیصلہ آگیا
  • ۔23 ستمبر یوم قتل انصاف؛ وزیر اعظم اور عدلیہ عافیہ کو انصاف دلائیں؟
  • حکمران سیلاب متا ثر ین کی مدد کے بجائے فوٹوسیشن میں مصروف ہیں‘کاشف شیخ
  • کراچی، لوٹ مار میں مصروف دو ڈکیت پولیس مقابلے میں ہلاک، فائرنگ کی زد میں آخر خاتون سمیت 2 زخمی
  • گلگت بلتستان وفاقی سازشوں کے شکنجے میں: تفصیلی جائزہ
  • گلگت بلتستان وفاقی سازشوں کے شکنجے میں ایک تفصیلی جائزہ
  • ہائی کورٹ کے ججز کی آئینی درخواستیں اعتراضات کا شکار