چین میں سائنس و ٹیکنالوجی کی نئی لہر نے عالمی برادی کی تو جہ حاصل کر لی
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
چین میں سائنس و ٹیکنالوجی کی نئی لہر نے عالمی برادی کی تو جہ حاصل کر لی WhatsAppFacebookTwitter 0 10 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ :بیجنگ میں جاری دو اجلاسوں کے دوران معاشی موضوع پر مبنی ایک عمومی پریس کانفرنس سائنسی و تکنیکی جدت طرازی کے موضوع پر پوچھے گئے سوالات کی وجہ سے چین کے میڈیا میں کافی وائرل ہوئی۔ اس دوران چائنا سیکیورٹیز ریگولیٹری کمیشن کے چیئرمین وو چھینگ نے ڈیپ سیک کے حوالے سے صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا کہ “معاشی موضوع پر پریس کانفرنس سائنس و ٹیکنالوجی کے موضوع کی پریس کانفرنس بنتی جا رہی ہے”۔ یہ جملہ ایک واضح حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی نہ صرف چین کی اقتصادی ترقی کے لئے ایک اہم انجن ہے، بلکہ ترقی کے مسائل کو حل کرنے کا ایک بہتر طریقہ بھی ہے۔
پیر کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق حالیہ برسوں کے دو اجلاسوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہے کہ دو اجلاسوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کے موضوعات کا وزن بڑھتا جا رہا ہے۔ چاہے وہ وزیر اعظم کی جانب سے حکومتی ورک رپورٹ ہو، نمائندوں اور مندوبین کے انٹرویوز ہوں، اجلاسوں کے منتظمین کے زیر اہتمام پریس کانفرنسز اور نمائندوں اور مندوبین کا تبادلہ خیال ہو، سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی ایک ہائی فریکوئنسی لفظ بن چکا ہے۔ گزشتہ سال کی حکومتی ورک رپورٹ میں تجویز کردہ “کم اونچائی والی معیشت” کے بعد ،موجودہ حکومتی ورک رپورٹ میں پہلی بار ” ایمبوڈیڈ انٹیلی جنس “، اے آئی موبائل فون اور کمپیوٹر” اور “ذہین روبوٹس” جیسے نئے الفاظ سامنے آئے۔اس کے علاوہ “ٹیلنٹ ٹریننگ کس طرح سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کی خدمت کر سکتی ہے”، “کیپٹل مارکیٹ سائنس اور ٹیکنالوجی انٹرپرائزز کے لئے حمایت میں کیسے اضافہ کر سکتی ہے”، اور ” مصنوعی ذہانت کے قانون کا جلد اجرا ” سمیت دیگر موضوعات بھی دو اجلاسوں کے نمائندوں اور مندوبین کی تجاویز میں سامنے آچکے ہیں۔چین کی معاشی ترقی میں سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کے کلیدی کردار کے حوالے سے چینیوں کی تفہیم گہری ہے۔ “
ایک مسافربردار ہوائی جہاز کے بدلے 800 ملین شرٹس” کی تلخی سے لے کر دنیا میں جدت طرازی کے 44 شعبوں میں سے 37 میں چین کی صف اول کی پوزیشن کے حصول تک، تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جدت طرازی کے بیج صرف اس وقت ٹھوس پھل دے سکتے ہیں جب وہ حقیقی معیشت کی مٹی میں لگائے جائیں۔ 2024 میں چین کی 4.
چین میں سالانہ 12.8 ملین نئی توانائی کی گاڑیوں کی پیداوار الیکٹرک بیٹریوں کی ٹیکنالوجی میں پیش رفت کا نتیجہ ہے۔ چین کی فوٹووولٹک صنعت کا عالمی مارکیٹ میں 82فیصدکا تناسب نہ صرف صنعت کی شاندار تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ عظیم “نظام” کی طاقت کا مظہر بھی ہے بلیک میتھ: ووکانگ کی کامیابی، 10 ہزار کلومیٹر سے زائد فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی میزائل کی کامیاب لانچ،پھر چھٹی نسل کے جنگی طیارے کی لانچ، سیچھوان نامی بحری جنگی جہاز کی لانچ، اسپرنگ فیسٹیول گالا میں رقص کرنے والے روبوٹ ،نیژا 2 کا ریکارڈ باکس آفس بزنس اور حال ہی میں دنیا کو حیران کرنے والے ڈیپ سیک تک، صرف چند ماہ میں کسی ایک ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر سائنسی اور تکنیکی پیش رفت کا سامنے آنا محض اتفاقاً نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کا صنعتی ڈھانچہ، سائنسی تحقیقی ماحول، ٹیلنٹس کا ذخیرہ، بین الاقوامی حیثیت اور فوجی طاقت خاموشی سے “بنیادی” تبدیلیوں سے گزرتی ہوئی انتہائی مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔دو اجلاسوں کے ذریعے لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ چین میں ایک نئی لہر سامنے آ رہی ہے اور سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی چین کے ترقی کے نقشے کو نئی شکل دے رہی ہے۔ چین اپنے یقین کے ساتھ دنیا میں استحکام فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے، اور مشرق کی دانش مندی نے ایک بار پھر عملی طور پر یہ ظاہر کیا ہے کہ جدت طرازی پر پختہ عزم تاریخ کے اثاثوں کو ترقی کی محرک قوت میں تبدیل کر رہا ہے، اور روشنی کے اگلے مرحلے کی جانب انسانیت کی رہنمائی کر رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سائنس و ٹیکنالوجی چین میں
پڑھیں:
زہران ممدانی کی جیت
حمیداللہ بھٹی
زہران ممدانی کی جیت ایسے ہی ہے جیسے پتھر یلی چٹانوں سے نرم ونازک پودے کا اُگنا یاجوہڑ سے کنول جیسے خوبصورت پھول کا کھلنا،
انھوں نے دنیاوی طاقتوں کو پچھاڑ ا ہے جو ایک منفرداور اہم واقعہ ہے۔ البتہ تمام حربے ناکام ہونے پر شہرکے نسل پرست اور دولت مند
پریشان ہیں کیونکہ یہودیوں کے گڑھ میں مسلمان میئر کی جیت بدلتے منظر نامے کی طرف اشارہ ہے یوں تو رائے عامہ کے جائزوں سے
واضح ہوگیاتھا کہ نیویارک کے لیے نسل و مذہب کی بجائے اہلیت وصلاحیت مقدم ہے۔ نیزشہری دائیں بازو کی سیاست کوناپسندکرتے ہیں
اِس کے باوجود شہرکے ارب پتیوں نے ہمت نہ ہاری اور تاریخ کا دھارادولت سے بدلنے کی کوشش کی ممدانی کو شکست دینے کے لیے
لاکھوں ڈالر کے عطیات دیے گئے مگر کامیابی کوناکامی میں نہ بدل سکے اور ممدانی 49.6ووٹ لیکر نیویارک کے میئر منتخب ہوگئے جبکہ اُن کے
مدِ مقابل آزادامیدوار اینڈریوکوموصرف 41,7فیصد ووٹ لے سکے ریپبلکن امیدوار کرٹس سلواکے حاصل کردہ ووٹوں کاتذکرہ کیا کرنا وہ
شرمناک شکست سے دوچارہوئے ۔
نیوریارک میئر کے انتخابات کئی وجوہات کی بناپر اہم ہیں اول یہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہرہے دوم یہاں تارکینِ
وطن کی بڑی تعداد ہے سوم اِس شہر میں ارب پتی انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہیں چہارم تعلیم و روزگار کے وسیع مواقع ہونے کے باوجود
رہائشی سہولتوں کی کمی ہے پنجم یہ شہر ملک کے سیاسی منظر نامے کا تعین کرتا ہے۔اسی تناظرمیں صدرٹرمپ کی کامیابی کی طرح عام خیال یہ تھا کہ
اُن کا حمایت یافتہ امیدوار باآسانی میئر منتخب ہوجائے گا مگر ممدانی کے عوامی منشورنے رائے عامہ کی توجہ حاصل کرلی اور پھر اسرائیل کے
سفاک وزیرِ اعظم نیتن یاہوکی گرفتاری کے عندیے نے انھیں مقبولِ عام بنادیا جب رائے عامہ کے جائزوں میں ممدانی کوتمام امیدواروں
سے مقبول ظاہر کی جانے لگا تو طاقت کے مراکز میں جیسے بھونچال سا آگیاشہر کے ارب پتی بھاری عطیات کے ساتھ آگے بڑھے تاکہ
سابق گورنر اینڈریوکومو کے لیے عوامی حمایت حاصل کی جا سکے لیکن بات بننے کی بجائے بگڑتی چلی گئی اور ممدانی کا درمیانے طبقے کے مسائل
حل کرنے کا بیانیہ حاوی ہوتا چلا گیا ممدانی نے جب کہاکہ شہر میں دفاتر اور گھروں کے کرائے منجمد کردوں گا شہریوں کو مفت سفری سہولتیں
دینے کے ساتھ چائلڈ کیئر کے دائرہ کارکو بھی وسعت دی جائے گی توممدانی کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی مگر سابق گورنراینڈریوکومواور ریپبلکن
امیدوار کرٹس سلوانے ایساکوئی وعدہ نہ کیاوہ اپنی تصوراتی دنیا میں گم رہے یہ لاعلمی تھی ، لاپرواہی یازہنی پس ماندگی؟شکست کا ایک زوردار
تھپٹر کی صورت بنی۔
صدرٹرمپ نے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے محصولات بڑھائے اور نئی منڈیاں حاصل کیںلیکن محصولات سے ملک میں
مہنگائی کے عفریت کو نئی طاقت ملی اِس عفریت سے آجکل ہر امریکی پریشان ہے ایک ایسا شہر جہاں غیر ملکیوں کی بڑی تعدادہے جو رہائش
اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل سے دوچار ہیں انھوں نے تبدیلی لانے اور ممدانی کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے کیونکہ ممدانی نے عوام کی نبض
پر ہاتھ رکھا امیر طبقے پرٹیکس بڑھانے اور غریب اور متوسط طبقات کے لیے مراعات کا اعلان کیا توعام شہری متوجہ ہوتے گئے شہر کے امراو
روسا کی رقوم ایشیائی نسل کے امیدوارکی کامیابی روک نہ سکیں اقلیتی النسل کی حمایت سے نہ صرف 1969 کے بعد انتخابات میں سب سے
زیادہ ٹرن آئوٹ رہابلکہ نیویارک جسے تارکینِ وطن کا شہر کہا جاتا ہے سے صدرٹرمپ اور ایلون مسک کی مخالفت بھی بے اثر رہی۔
زہران ممدانی کی جیت نے امریکہ میں نئی تاریخ رقم کی ہے بلاشبہ اِس جیت سے ٹرمپ کا سر نیچا ہوا ہے ممدانی نے نیویارک کے پہلے
مسلم میئر کا اعزازحاصل کیا ہے اِس 34سالہ شخص نے عزم و ہمت اور جہد مسلسل سے ناممکن کو ممکن بناد یا ہے لندن کے میئر محمد صادق سے
ناخوش ٹرمپ کو اپنے ہی ملک کے سب سے بڑے شہر نے وہ صدمہ دیا ہے جس سے نہ صرف دائیں اور بائیں بازوکی کشاکش میں اضافہ
ہوسکتا ہے بلکہ ڈیموکریٹس کی مقبولیت میں اضافہ میں اضافہ ہوگایہ ایک ایسا غیرمعمولی واقعہ ہے کہ دنیا کے دوبڑے شہروں نے مسلمانوں
کے امن ،محبت ،رواداری اور بھائی چارے پر اعتمادکیا ہے اب میئر لندن کی طرح میئر نیویارک کوبھی شاید صدرٹرمپ ہدفِ تنقید بناتے
پھریں لیکن سرمایہ ،اہمیت اور عالمی شہرت کے حامل شہر سے کامیابی حاصل کرنا، ایلون مسک کے سوشل میڈیااورتبصروں کو ناکام بنانا ممدانی کا
وہ کارنامہ ہے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا ایشیائی نژاد غیر پیدائشی امریکی شہری 34سالہ ممدانی نے نیوریارک شہر میںوہ کامیابی حاصل کی ہے جسے صرف پبلکن ہی نہیں روسا بھی کبھی بھول نہ پائیں گے یہ عوامی طاقت کی دولت اور اختیار دونوں کوشکست ہے۔
تاریخی اور عوامی کامیابی کے بعد کیا زہران ممدانی اپنے اقتدار کی مدت سکون اور کامیابی سے گزارپائیں گے ؟اِس حوالے سے ہاں میں
جواب دیناغلط ہوگابلکہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ قدم قدم پر چیلنجز کا سامنا کرناپڑے گا کیونکہ اُن کے مخالفین سیاسی قوت کے ساتھ انتہائی
دولت مند ہیں جدید زرائع ابلاغ کے مالک ہیں صدر ٹرمپ پہلے ہی وفاقی حکومت سے نیویارک کوملنے والی اربوں ڈالرز کی فنڈنگ روکنے
کاعندیہ دے چکے فی الوقت ممدانی کوکامیاب ہونے سے روکا نہیں جاسکا صدرٹرمپ نے پالیسی یوٹرن لیتے ہوئے نئے میئر کے ساتھ
تعاون کا اعلان کیا ہے لیکن لیکن اِس کامیابی کووہ آسانی سے قبول کرنے پر وہ آمادہ نظر نہیں آتے کیونکہ نیویارک کی ایک اپنی اہمیت ہے
اِس شہر میں امریکہ کی سب سے بڑی پولیس نفری ہے اِس کاسالانہ بجٹ 115ارب ڈالر ہے اسی شہر میں اقوامِ متحدہ کاہیڈ کوارٹر ہے یہ شہر
اسٹاک مارکیٹ سمیت دولت کے ارتکاز کا عالمی مرکزہے اِس لیے ڈیموکریٹس کی دیگر کامیابیوں سے زیادہ اہم میئر کی یہ کامیابی ہے۔
ایسے حالات میں جب دنیا میں دائیں بازوکے نظریات رکھنے والی شخصیات اور جماعتیں تقویت پکڑرہی ہیں نیویارک جیسے عالمی اہمیت
کے شہر سے ایک متوسط طبقے کے روشن خیال امیدوار کا اقلیتی ووٹروں کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرناخاصا غیر معمولی ہے اُن کی حمایت
میں سیاہ فام ،ہسپانوی اور ایشیائی ووٹریکجادکھائی دیے جس سے اینڈریوکومواور کرٹس سلوا کی حمایت محدودہوئی ماہرین کے خیال میں یہ نتیجہ
نیویارک کی بدلتی سیاسی اورسماجی ساخت کا عکاس اور نسلی بنیادپر ووٹروں کے رجحانات کی بے چینی کوظاہر کرتی ہے نیویارک کے انتخابات
میں سفید فام اکثریت نے آزاد امیدوار اینڈریوکومو کوترجیح دی لیکن رپبلکن امیدوار کرٹس سلوا کو تمام نسلوں سے حمایت کمزورہوناٹرمپ کی
پالیسیوں پر عدمِ اعتماد ہے زہران ممدانی نے ایک منفرد تاریخ رقم توکردی ہے لیکن شہرکے امیروں کی اکثریت ممدانی کی کامیابی کے بعد بھی اُن کے سوشلسٹ خیالات سے کتنی خائف ہے؟ یہ جاننے کے لیے کچھ انتظارکرنامناسب ہوگا۔
٭٭٭