پاکستان اور چین کا نیا سنگِ میل ، خلائی تعاون میں تاریخی پیش رفت
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان دوستی کا نیا باب رقم ہوگیا ہے۔ چین نے باضابطہ اعلان کیا ہے کہ پاکستانی خلا باز اب چینی خلائی مشن میں پے لوڈ ماہر کے طور پر حصہ لیں گے۔ یہ فیصلہ دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے سائنسی و خلائی تعاون کی تاریخی علامت قرار دیا جا رہا ہے، جو پاکستان کی خلائی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا۔
چینی سرکاری میڈیا کے مطابق پاکستانی خلاباز چینی خلابازوں کے ساتھ مشترکہ تربیت حاصل کریں گے اور چین کے خلائی اسٹیشن پروگرام کے درمیانی مدتی منصوبے کا حصہ ہوں گے۔ اس اقدام سے پاکستان کی تکنیکی استعداد میں اضافہ اور دونوں ممالک کے سائنسی روابط مزید مضبوط ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کا کوئی خلا باز کسی دوسرے ملک کے سرکاری خلائی مشن میں عملی طور پر شامل ہوگا، جس سے سُپارکو (خلائی و بالائی فضائی تحقیقاتی کمیشن) کی بین الاقوامی ساکھ میں نمایاں بہتری متوقع ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان خلائی تعاون کئی برسوں سے جاری ہے، تاہم خلا باز کی براہِ راست شمولیت اس تعلق کو ایک نئی بلندی پر لے جائے گی۔ بیجنگ کے مطابق یہ اشتراک مستقبل میں خلائی ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ اعدادوشمار کے تبادلے اور خلائی سلامتی جیسے شعبوں میں بھی نئے مواقع پیدا کرے گا۔ چینی ماہرین کے بقول، پاکستانی خلا باز کی شمولیت اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ چین اپنے دوست ممالک کو سائنسی ترقی میں برابر کا شریک دیکھنا چاہتا ہے۔
مزید برآں گذشتہ چند برسوں میں، ٹیکنالوجی اور خلائی تحقیق نے عالمی سطح پر ترقی کی ایک نئی راہ پر قدم رکھا ہے۔ مصنوعی سیارچے، زمین کی سطح کے نگرانی نظام، ماحولیاتی تبدیلیوں کا تجزیہ، زرعی پیداوار کی پیش گوئی، شہری ترقی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی سب اجزاء اس نئی راہ کے حصہ ہیں۔ ایسے موقع پر پاکستان نے اپنی خلائی تحقیقاتی صلاحیتوں میں ایک سنگِ میل عبور کیا ہے جب خلائی و بالائی فضائی تحقیقاتی کمیشن (سُپارکو) نے اپنے پہلے کثیر طیفی سیٹلائٹ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کو کام یابی سے چین کے خلائی مرکز سے مدار میں بھیج دیا ہے۔
یہ صرف ٹیکنالوجی کا حصول نہیں، بلکہ ملک کی معیشت، ماحول، شہری ترقی، خارجہ و داخلہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں بھی متعدد نئے راستے کھولنے والا اقدام ہے۔
پہلے یہ سمجھنا اہم ہے کہ کثیر طیفی (ہائپر اسپیکٹرل) ٹیکنالوجی کیا ہے اور کس طرح یہ روایتی سیٹلائٹ کیمرے سے مختلف ہے۔ ہائپر اسپیکٹرل تصویربندی کا مطلب یہ ہے کہ سیارچہ سطحِ زمین سے واپس آنے والی روشنی کو سینکڑوں باریک طیفی خطوں میں تقسیم کر کے تسلیم کرتا ہے۔ ایسی باریک تبدیلیاں جنہیں انسانی آنکھ یا محدود طیفی خطوں والی روایتی کثیر رنگی سیٹلائٹس نہیں دیکھ سکتیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کسی فصل کی صحت، مٹی کی نمی، پانی کی مقدار، زمین کی ساخت، شہری علاقے یا ماحولیاتی تبدیلیوں کی تشخیص پہلے سے کہیں زیادہ درست اور تفصیل کے ساتھ ممکن ہوجائے گی۔
ایچ ایس۔1 کا حفاظتی اور ترقیاتی پس منظر بھی مختصر نہیں۔ پاکستان نے اپنی خلائی مہم کو مرحلہ وار آگے بڑھایا ہے، مثلاً ’’پی آر ایس ایس۔1‘‘ (جولائی 2018ء ) کے بعد، حال ہی میں ’’ای۔او۔1‘‘ (جنوری 2025ء ) اور ’’کے۔ایس۔1‘‘ (جولائی 2025ء ) جیسے مشن روانہ کیے گئے تھے۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ اس تسلسل کا ایک نیا باب ہے، جو پاکستان کو روایتی مشاہداتی مرحلے سے کثیر طیفی نقطۂ نظر تک لے جاتا ہے، اور یہ تبدیلی محض تیکنیکی نہیں بلکہ حکمتِ عملی اور نظریاتی سطح پر بھی معنی خیز ہے۔
قومی اور عالمی منظرنامہ
آج جب دنیا موسمیاتی بحران، غذائی تحفظ کے مسائل، شہری بکھراؤ، پانی کی قلت، گلیشیئر کے پگھلنے، ماحولیاتی آلودگی اور قدرتی آفات جیسے چیلنجز سے دوچار ہے، ٹیکنالوجی نے ان مسائل کے حل کے لیے اہم کردار ادا کرنا شروع کیا ہے۔ کثیر طیفی تصویربندی اسی ارتقاء کی علامت ہے۔ ایسے میں ’’ایچ ایس۔1‘‘ کا لانچ نہ صرف قومی سطح پر اہم ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی موجودگی کو مضبوط بناتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ ٹیکنالوجی ملکی سطح پر زرعی پیداوار، ماحول، شہری منصوبہ بندی اور ترقیاتی منصوبوں جیسے چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کی نگرانی کے لیے اہم سمت فراہم کر سکتی ہے۔
مکمل اثرات کا جائزہ
1۔ زرعی شعبہ و غذائی تحفظ: پاکستان کی معیشت میں زراعت ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ہزارہ، ہاڑ، سندھ، پنجاب، خیبرپختونخواہ سمیت مختلف علاقوں میں فصلوں، مٹی، آبپاشی، بارش و موسم کی تبدیلیاں مستقل چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کے ذریعے حاصل کی جانے والی تصویریں فصلوں کی صحت، مٹی کی نمی، آبپاشی کے نمونے، پانی کے ذخائر اور حتیٰ کہ پودوں کی تغذیہ کی کمی کا جلد پتہ دے سکتی ہیں۔ سُپارکو کا بیان ہے کہ اس سے پیداوار کے تخمینے میں 15 تا 20 فیصد تک بہتری ممکن ہے۔ یہ معنی خیز ہے کیوںکہ پیداوار میں بہتری، غذائی خود کفالت، برآمدی صلاحیت اور دیہی معیشت کی مضبوطی کے لیے یہ ٹیکنالوجی ایک نیا آئینہ مہیا کرتی ہے۔
2۔ ماحولیاتی نگرانی اور آفات کا مقابلہ: پاکستان شمالی علاقہ جات، برفانی خطوں، سیلابی علاقوں اور زمین سرکنے کے خدشات سے دوچار ہے۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کی کثیرطیفی تصویربندی سے گلیشیئر پگھلنے کی شرح، جنگلات کی کٹائی، زمین کے کھسکنے کے خطرات، سیلاب کے بعد نقصان، آلودگی و دھند کی تفصیلات اور پانی کی معیار جیسے اشاریے پہلے سے بہتر انداز میں نگرانی کے قابل ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ردِعملی اقدامات کی بجائے پہلے سے تیاری ممکن ہوگی یعنی خطرات میں کمی کا مرحلہ مضبوط ہوگا۔
3۔ شہری منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کا جائزہ: شہری نشوونما، بے ترتیبی، زمین کے غلط استعمال، پانی اور ماحولیاتی وسائل کی کمی جیسے مسائل کا سامنا پاکستان کے بڑے شہروں کو ہے۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کی تصویریں شہری علاقوں کی نقشہ بندی، نئی عمارتوں کی نگرانی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، زمینی استعمال میں تبدیلیوں اور شہری وسائل کی تقسیم کے تجزیے میں مددگار ہوں گی۔ یہ ٹیکنالوجی چین۔ پاکستان اقتصادی راہ داری کے تحت ترقیاتی راستوں، شاہراہوں، گوادر بندرگاہ سے منسلک بنیادی ڈھانچے کی نگرانی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
4۔ معاشی اور معاشرتی پہلو: اگرچہ خلائی مشن کی کام یابی بذاتِ خود براہِ راست مالی منافع نہیں لاتی، لیکن یہ ایک علمی سرمایہ کاری ہے۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ سے حاصل شدہ اعدادوشمار فصلوں کی حالت، ماحولیاتی حالات، شہری منصوبہ بندی اور خطرے کی نشان دہی کے لیے نجی شعبے، تحقیقاتی اداروں اور سرکاری منصوبوں کے لیے موزوں ہوسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو صرف سیٹلائٹ کے اجرا پر نہیں بلکہ اعدادوشمار کے تجزیے، انجنیئرنگ اور اطلاق پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس کے لیے تحقیقی اہلکار، جامعات، نجی کمپنیوں، اعدادوشمار کے ماہرین اور حکومتی ادارے مل کر کام کریں گے۔ بصورتِ دیگر یہ تصویریں صرف شاندار مظاہرہ ہی رہ جائیں گی۔
5۔ سفارتی اور تزویراتی جہت: ’’ایچ ایس۔1‘‘ کی لانچ میں چین کے تعاون نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان ٹیکنالوجی، تحقیق اور خلائی شعبے میں چین کے ساتھ شراکت داری کو مضبوط کر رہا ہے۔ یہ نہ صرف ٹیکنالوجی کی منتقلی کا معاملہ ہے بلکہ ایک تزویراتی علامت بھی ہے کہ پاکستان ترقی یافتہ خلائی ٹیکنالوجی کی جانب قدم بڑھا رہا ہے۔ یہ دوسرے ممالک کو بھی یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان جدید سائنسی اطلاقات کے لحاظ سے سرگرم ملک ہے۔
چیلینجز اور انتباہات
ہر اہم ٹیکنالوجی کے حصول کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کے معاملے میں یہ چند نکات قابلِ ذکر ہیں:
سب سے اہم مسئلہ اعدادوشمار کا مؤثر استعمال ہے۔ تصویریں اور طیفی خط حاصل کرنا پہلا مرحلہ ہے، لیکن اس ڈیٹا کو عملی پالیسی، پروگرام اور نجی شعبے کی سمت میں بدلنا اگلا اور زیادہ اہم مرحلہ ہے۔ اگر یہ مؤثر نہ ہوا تو یہ سیٹلائٹ صرف ایک علامتی کام یابی رہے گی۔
مسلسل سرمایہ کاری، دیکھ بھال اور درجہ افزونی کا نظام قائم رکھنا ضروری ہے۔ صرف سیٹلائٹ بھیج دینا کافی نہیں، اسے جاری رکھنا اور آئندہ نسلوں کے لیے نئی سیارچے تیار کرنا لازمی ہوگا۔ پاکستان کو اپنے خلائی پروگرام کی پائیداری کے لیے حکمتِ عملی مرتب کرنی ہوگی۔
ماہر افرادی قوت کی تربیت بھی لازمی ہے۔ کثیر طیفی تصویربندی، اعدادوشمار کے تجزیے، تحقیق اور اطلاق میں مضبوطی لانا ہوگی۔ تعلیمی ادارے، نجی تحقیقی مراکز اور حکومتی معلوماتی نظام آپس میں مربوط کیے جائیں۔
خارجہ و داخلی پالیسی کی ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔ ٹیکنالوجی اور اعدادوشمار کو صرف سائنسی حدود میں محدود نہ رکھا جائے بلکہ انہیں قومی منصوبہ بندی، ماحولیاتی پالیسی، زرعی اصلاحات، شہری ترقی اور آفات سے نمٹنے کی حکمتِ عملیوں میں شامل کیا جائے۔
مستقبل کے امکانات و تجاویز
آئندہ کے خدوخال میں ’’ایچ ایس۔1‘‘ کے اثرات مندرجہ ذیل سمتوں میں بڑھ سکتے ہیں:
1۔ اعدادوشمار فراہم کرنے کے بعد انہیں کھلی رسائی کی بنیاد پر حکومتی و نجی شعبے کے لیے دست یاب کیا جائے تاکہ چھوٹے کاشتکار، جامعات، نجی کاروبار اور تحقیقی ادارے اس سے استفادہ کر سکیں۔ اس سے ٹیکنالوجی کا معاشرتی اثر بڑھے گا۔
2۔ بین الاقوامی تعاون: پاکستان ’’ایچ ایس۔1‘‘ کے اعدادوشمار اور ماڈلز کو خطے کے دیگر ممالک مثلاً وسطی ایشیا، افریقہ اور مسلم ممالک کے ساتھ بانٹ سکتا ہے۔ اس سے علاقائی سطح پر تعاون بڑھے گا اور پاکستان علمِ فضائی میں نمایاں مقام حاصل کرے گا۔
3۔ نجی شعبہ اور نئی اختراعات: کثیر طیفی اعدادوشمار کی بنیاد پر زرعی منصوبے، ماحول دوست ٹیکنالوجی کمپنیاں، شہری منصوبہ بندی کے اطلاقات، آفات سے آگاہی خدمات وغیرہ فروغ پائیں گی، جس سے معیشت کو نئی تحریک ملے گی۔
4۔ پالیسی اور حکمتِ عملی: حکومت کو چاہیے کہ ’’ایچ ایس۔1‘‘ کے اعدادوشمار کو قومی زرعی منصوبہ بندی، موسمیاتی تبدیلی، شہری پھیلاؤ، پانی کے وسائل کی نگرانی اور قدرتی آفات کی تیاری کے لیے مربوط بنائے۔ مثلاً اقتصادی راہداری کے راستے، گوادر بندرگاہ، شمالی شاہراہوں اور برفانی خطوں کی نگرانی اس ڈیٹا کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے۔
5۔ تعلیمی نصاب اور تحقیق: جامعات اور تحقیقی ادارے کثیرطیفی تصویربندی، اعداد و شمار کے تجزیے، ارضی معلوماتی نظام (جی۔آئی۔ایس) اور ویب سائٹ کی تیاری کے شعبوں میں خود کو مربوط کریں، تاکہ آئندہ نسلیں تیار ہوں اور ملک کی تحقیقی بنیاد مستحکم ہو۔
آخرکار، ’’ایچ ایس۔1‘‘ کا اجرا پاکستان کے خلائی سفر میں ایک قابلِ ذکر پیش رفت ہے نہ صرف بطور تکنیکی کامیابی بلکہ بطور حکمتِ عملی، معاشی، ماحولیاتی اور معاشرتی تبدیلی کے محرک کے طور پر بھی۔ یہ قوم کو ٹیکنالوجی، تحقیق، معلومات اور عمل کے سنگم کی جانب لے جا سکتا ہے۔ مگر یہ کام یابی تب تک مکمل نہیں ہوگی جب تک یہ ’’تصویر‘‘ سے ’’عمل‘‘ کی طرف نہ بڑھے، جب تک یہ معلومات صرف محفوظ نہ رہیں بلکہ استعمال بھی ہوں، جب تک تعلیمی، نجی اور سرکاری شعبے مل کر اس ٹیکنالوجی کو عملی جامہ نہ پہنائیں۔
پاکستان کے مستقبل کے نقشے میں ’’ایچ ایس۔1‘‘ ایک روشن نکتہ ہے، مگر اسے منظم، مربوط اور مستقل سمت دینے کی ذمہ داری بھی اُسی اعتبار سے اہم ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان نہ صرف اپنے زمینی وسائل، زرعی پیداوار، ماحولیاتی پالیسی، شہری منصوبہ بندی اور آفات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی کو بہتر بنا سکے گا بلکہ خطے میں خلائی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے خود کو مؤثر اور نمایاں مقام پر کھڑا کر سکے گا۔ یہی وہ منظر عام ہے جو اس اقدام سے جنم لے سکتا ہے، اور یہی وہ چیلینجز ہیں جن کا سدِباب ابھی باقی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شہری منصوبہ بندی اور کا مطلب یہ ہے کہ طیفی تصویربندی اعدادوشمار کے ہے کہ پاکستان پاکستان کی کی نگرانی کثیر طیفی کے تجزیے ایچ ایس 1 کام یابی ا فات سے خلا باز کے ساتھ چین کے کیا ہے کے لیے
پڑھیں:
پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار کی قدیم روایت کو زندہ رکھنے والا قہوہ خانہ
پشاور میں واقع تاریخی قصہ خوانی بازار جو قدیم زمانے میں وسط ایشیائی تاجروں کے اہم پڑاؤ کے طور پر مشہور تھا، اپنی کہانیوں اور قصوں کی روایت کے باعث ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اگرچہ اب وہاں قصہ گوئی کی محفلیں ماضی کی طرح منعقد نہیں ہوتیں، لیکن بازار میں اب بھی کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں اُس عہد کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
انہی میں ایک قدیمی قہوہ خانہ شامل ہے جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ یہ قہوہ خانہ اپنے روایتی قہوے کی خوشبو اور ذائقے کی بدولت نہ صرف مقامی شہریوں بلکہ ملک بھر سے آنے والے سیاحوں میں بھی مقبول ہے۔ یہاں آنے والے لوگ تاریخی قصہ خوانی بازار کے دلکش مناظر کے ساتھ گرم قہوے کے ذائقے کا لطف اٹھاتے ہیں اور ماضی کی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔
مزید تفصیلات اس ویڈیو رپورٹ میں ۔۔۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں