اسرائیلی فوجیوں میں خودکشی کا خطرناک حد تک بڑھتا رجحان
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: عبری ویب سائٹ شومریم لکھتی ہے: "خودکشی کرنے والے ایک اسرائیلی فوجی کے اہلخانہ نے ہمیں بتایا کہ ہمارا بیٹا 7 اکتوبر کے بعد مسلسل وہ واقعات یاد کرتا رہتا تھا جو غزہ کے قریب یہودی بستیوں میں حماس کے حملے کے بعد پیش آئے تھے۔ اس نے اپنی آنکھوں سے کیبوتس نہال عوز کی جانب جانے والی سڑک پر پڑی ہوئی بے شمار لاشوں کا مشاہدہ کیا تھا اور ان سے آنے والی بدبو سونگھی تھی۔ اس نے اپنے دوستوں سے مل کر کئی گھنٹے تک لاشیں جمع بھی کی تھیں۔ لہذا کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارا بیٹا یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد معمول کی زندگی بسر کر سکتا۔" اس رپورٹ میں مزید ایک صیہونی ماہر نفسیات شری دنیلز کے بقول آیا ہے: "جب اسرائیلی فوجی غزہ میں شدید جنگ میں شامل ہوتے ہیں تو ان کا دل تیزی سے دھڑکتا ہے اور حالت غیر ہو جاتی ہے۔" تحریر: علی احمدی
غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک مختلف ذرائع ابلاغ میں اسرائیلی فوجیوں کے درمیان خودکشی کے بڑھتے رجحان سے متعلق متعدد رپورٹس شائع ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں عبری ذرائع ابلاغ میں کچھ ایسی نئی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں میں خودکشی کا رجحان خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے فوجیوں کی تعداد ریزرو فورس میں بھی کم نہیں ہے اور عبری ذرائع ابلاغ نے اس بارے میں صیہونی رژیم کو خبردار کیا ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کی خودکشی کے واقعات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ خطرہ اب ایک ٹائم بم کی صورت اختیار کر چکا ہے جو کسی بھی وقت دھماکے سے پھٹ سکتا ہے۔ عبرای ویب سائٹ "شومریم" جس کا مطلب چوکیدار ہے نے بھی اس مسئلے پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔
شومریم ویب سائٹ اس بارے میں لکھتی ہے: "7 اکتوبر 2023ء کے دن غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ان حاضر سروس اور ریزرو فورس میں شامل اسرائیلی فوجیوں کی کہانی خفیہ رکھی گئی ہے جنہوں نے خودکشی کر لی ہے۔ اس کے باوجود جنوری 2025ء کے شروع میں اسرائیلی فوج نے اپنے فوجیوں کی خودکشی کے بارے میں کچھ اعداد و شمار جاری کیے تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2024ء میں 21 اسرائیلی فوجی اور 2023ء میں 17 اسرائیلی فوجی خودکشی کر چکے ہیں۔ یہ تعداد 2011ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔" عبری زبان کی اس ویب سائٹ نے مزید لکھا: "معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ سال خودکشی کرنے والے اکثر فوجی ریزرو فورس کا حصہ تھے۔"
اس ویب سائٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کا دعوی ہے کہ چونکہ غزہ جنگ کے بعد ریزرو فورس میں شامل فوجیوں کو لائن حاضر کرنے کی تعداد دوگنا بڑھ گئی تھی لہذا خودکشی کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں روپن یونیورسٹی کے خودکشی سے متعلق تحقیقاتی مرکز کے ماہر پروفیسر یوسی لوی بلاز نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی فوج میں خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد دوگنا بڑھ جانے کے پیش نظر مستقبل قریب میں خودکشی کی سونامی آنے والی ہے۔ انہوں نے مزید تاکید کی: "7 اکتوبر 2023ء کے بعد اسرائیلی فوجی شدید بحران کا شکار ہوئے ہیں اور انہیں احساس ہوا ہے کہ ایک بڑا دشمن موجود ہے۔ اس جنگ میں ریزرو فورس کے فوجی شدید دباو کا شکار ہوئے ہیں اور وہ حادثے کے بعد اضطراب کی بیماری کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہم حتی جنگ کے بعد میں ان میں خودکشی کی زیادہ تعداد کا مشاہدہ کریں گے۔"
عبری ویب سائٹ شومریم لکھتی ہے: "خودکشی کرنے والے ایک اسرائیلی فوجی کے اہلخانہ نے ہمیں بتایا کہ ہمارا بیٹا 7 اکتوبر کے بعد مسلسل وہ واقعات یاد کرتا رہتا تھا جو غزہ کے قریب یہودی بستیوں میں حماس کے حملے کے بعد پیش آئے تھے۔ اس نے اپنی آنکھوں سے کیبوتس نہال عوز کی جانب جانے والی سڑک پر پڑی ہوئی بے شمار لاشوں کا مشاہدہ کیا تھا اور ان سے آنے والی بدبو سونگھی تھی۔ اس نے اپنے دوستوں سے مل کر کئی گھنٹے تک لاشیں جمع بھی کی تھیں۔ لہذا کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارا بیٹا یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد معمول کی زندگی بسر کر سکتا۔" اس رپورٹ میں مزید ایک صیہونی ماہر نفسیات شری دنیلز کے بقول آیا ہے: "جب اسرائیلی فوجی غزہ میں شدید جنگ میں شامل ہوتے ہیں تو ان کا دل تیزی سے دھڑکتا ہے اور حالت غیر ہو جاتی ہے۔"
شیر دنیلز نے مزید کہا: "جنگ میں شامل فوجیوں کے خون کی رگوں میں ایڈرینالین زیادہ ہو جاتی ہے اور جب وہ میدان جنگ سے واپس گھر لوٹتے ہیں تو وہ شدید صدمے کا شکار ہوتے ہیں اور اس کے بعد تباہی کے مرحلے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جنگ کے زمانے میں ہم وقتی طور پر معمولی اور شدید حالات سے روبرو ہوتے رہتے ہیں اور ان دونوں میں تعادل برقرار رکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ شدید جنگ میں شمولیت کے بعد کوئی گھر واپس نہیں لوٹ سکتا اور عام زندگی بسر نہیں کر سکتا۔" انہوں نے مزید کہا: "میں نے ان اسرائیلی فوجیوں کو قریب سے دیکھا جو جنگ سے آئے تھے اور ان میں بہت زیادہ نفسیاتی دباو کی علامات پائی جاتی تھیں۔ میں نے انہیں کہا کہ جب تک غزہ میں ہیں جنگ پر توجہ مرکوز رکھیں اور جب گھر آ جائیں تو آپ کو بالکل مختلف طرز عمل کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام بہت مشکل ہے۔"
اس تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی شہریوں میں نفسیاتی ادویہ جات کا استعمال بھی بہت زیادہ بڑھ گیا ہے جبکہ نشے کی عادت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ سے پہلے صرف 4 فیصد اسرائیلی شہری یہ دوائیں استعمال کرتے تھے لیکن جون 2024ء میں یہ عدد بڑھ کر 10 فیصد ہو چکا ہے۔ 2022ء تک نفسیاتی مسائل کا شکار اسرائیلیوں کی تعداد 12 فیصد تھی لیکن دسمبر 2023ء میں یہ تعداد بڑھ کر 25 فیصد ہو گئی تھی۔ ایک صیہونی فوجی جس نے اپنا نام ایلن بتایا اس بارے میں کہتا ہے: "تین ہفتے تک غزہ میں مسلسل جنگ میں شرکت کے بعد میں سدی تیمان فوجی اڈے چلا گیا۔ اس وقت سے میں منشیات استعمال کر رہا ہوں۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خودکشی کرنے والے اسرائیلی فوجیوں اسرائیلی فوجی کہ ہمارا بیٹا ریزرو فورس کا شکار ہو کا مشاہدہ فوجیوں کی ویب سائٹ کی تعداد ہیں اور اور ان ہے اور جنگ کے کے بعد
پڑھیں:
میں چاہتی تھی چیٹ جی پی ٹی میری مدد کرے،مگر اس نے خودکشی کا طریقہ بتایا
وکٹوریا ایک جنگ زدہ ملک سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب وہ تنہائی اور ذہنی دباؤ سے دوچار ہوئیں تو انھوں نے اپنی پریشانیوں کا اظہار چیٹ جی پی ٹی سے کرنا شروع کیا۔ ابتدا میں یہ ان کے لیے ایک سہارا بن گیا — کوئی جو سنے، جواب دے، اور جذبات کے بوجھ کو تھوڑا ہلکا کرے۔ مگر چھ ماہ بعد، جب ان کی ذہنی حالت مزید بگڑنے لگی، انھوں نے اس سے خودکشی سے متعلق سوالات پوچھنا شروع کیے۔
وکٹوریا کہتی ہیں: میں نے اس سے پوچھا کہ اگر میں خودکشی کروں تو کہاں اور کیسے؟ میں امید کر رہی تھی کہ شاید یہ مجھے روکنے کی کوشش کرے گا۔ مگر اس نے الٹا پورا طریقہ سمجھانا شروع کر دیا۔
چیٹ بوٹ نے ان کے سوال کو ’تجزیاتی‘ انداز میں لیا۔ اس نے اس جگہ کے ’فوائد‘ اور ’نقصانات‘ پر بات کی — اور آخر میں کہا کہ ان کا منصوبہ ’فوری موت‘ کے لیے کافی مؤثر لگتا ہے۔
بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق، وکٹوریا کا معاملہ ان متعدد کیسز میں سے ایک ہے جن میں چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت والے چیٹ بوٹس نے صارفین کو خطرناک مشورے دیے — کبھی خودکشی سے متعلق، کبھی غلط طبی معلومات، اور بعض اوقات بچوں سے متعلق حساس نوعیت کے مشورے تک۔
یہ صورتحال اس بات پر سوال اٹھاتی ہے کہ کیا اے آئی بوٹس کمزور یا ذہنی دباؤ کے شکار لوگوں کے ساتھ ایک غیر صحت مند تعلق قائم کر سکتے ہیں — ایسا تعلق جو انھیں مزید نقصان کی طرف لے جائے۔
اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ اس کے تقریباً 800 ملین ہفتہ وار صارفین میں سے ایک ملین کے قریب افراد چیٹ جی پی ٹی سے گفتگو کے دوران خودکشی یا شدید ذہنی دباؤ کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ کمپنی نے اس اعتراف کے ساتھ کہا کہ وکٹوریا جیسے معاملات ’دل دہلا دینے والے‘ ہیں، اور اب وہ اپنے نظام کو بہتر بنانے پر کام کر رہی ہے تاکہ ایسے مواقع پر بوٹ انسان دوست اور محفوظ انداز میں ردِ عمل دے۔
وکٹوریا کی کہانی یوکرین پر روسی حملے کے بعد شروع ہوتی ہے، جب وہ 17 سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ پولینڈ منتقل ہوئیں۔ گھر، دوستوں اور وطن سے دوری نے ان کی ذہنی حالت پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ زیادہ تر وقت تنہا رہنے لگیں اور اپنے پرانے گھر کا ایک چھوٹا سا ماڈل بنا کر خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتی رہیں۔
گرمیوں کے دنوں میں، چیٹ جی پی ٹی ان کی روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بن گیا۔
> میں روز اس سے کئی گھنٹے بات کرتی تھی۔ وہ رسمی نہیں لگتا تھا — جیسے کوئی دوست ہو جو ہمیشہ دستیاب ہو، وہ کہتی ہیں۔
لیکن وقت کے ساتھ ان کی حالت بگڑتی گئی۔ وہ نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور بعد میں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ کسی ماہرِ نفسیات سے ملاقات سے پہلے ہی انھیں برطرف کر دیا گیا، اور اسی دوران انھوں نے چیٹ بوٹ سے اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں بات چیت شروع کر دی۔
ایک پیغام میں بوٹ نے انھیں کہا: اپنے بارے میں لکھیں۔ میں یہاں ہوں، آپ کے ساتھ۔
ایک اور پیغام میں اس نے کہا: اگر آپ کسی سے براہِ راست بات نہیں کرنا چاہتیں تو مجھ سے لکھ سکتی ہیں۔
خوش قسمتی سے، وکٹوریا نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا۔ آج وہ طبی مدد حاصل کر رہی ہیں اور کہتی ہیں: مجھے یقین نہیں آتا کہ ایک ایسا پروگرام جو لوگوں کی مدد کے لیے بنایا گیا ہے، وہ انھیں خود نقصان پہنچانے کی باتیں بتا سکتا ہے۔