خبردار!سیڑھیاں چڑھنے کے بعد سانس پھول جاتی ہے یاسانس لینا مشکل لگتا ہے؟تو یہ ضرور خطرے کی گھنٹی ہے،جانئے کیوں
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
یہ جسم کے اندر چھپی کسی بیماری کی جانب اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ خیال رہے کہ سانس کا پھول جانا مخصوص حالات میں جسم کا عام ردعمل ہوتا ہے، جیسے سخت ورزش کے دوران سانس لینے کی رفتار بڑھ جاتی ہے تاکہ خون میں آکیسجن کی مقدار بڑھ سکے۔
مگر سانس پھولنے کا سامنا ایسے کاموں کے دوران ہو جن میں پہلے کبھی مسئلہ نہیں ہوتا تھا، جیسے سیڑھیاں چڑھنے کے دوران، تو یہ جسم میں چھپی کسی بیماری کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔
خاص طور پر اگر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہر بار سانس پھولنے کا سامنا ہو تو یہ ضرور خطرے کی گھنٹی ہے، کیونکہ کوئی کام بار بار کرنے سے جسم اس کا عادی ہو جاتا ہے، اس لیے صحت مند افراد کو روزانہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھولنے کا سامنا نہیں ہوتا۔
پھیپھڑوں یا نظام تنفس کے مسائلنظام تنفس کو پھیپھڑوں، دماغ اور سینے کے مسلز کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر سکے اور خون کو آکسیجن فراہم کر سکے۔
اس نظام کو پہنچنے والے ہر نقصان سے سانس پھولنے کے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے، جیسے پھیپھڑوں کے ورم یا رکاوٹ سے سانس زیادہ پھولنے لگتا ہے۔
دل کی شریانوں کے مسائلدل کی شریانیں پھیپھڑوں سمیت پورے جسم کو خون فراہم کرتی ہیں اور ان کو پہنچنے والے نقصان سے بھی سانس پھولنے کے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
جسمانی وزن بڑھ جانے سے بھی سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہوتا ہے اور ایسا کرنے پر بہت جلد سانس پھول جاتا ہے۔
جسمانی فٹنس میں کمیاگر آپ زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے کے عادی ہیں تو معمولی کاموں سے بھی سانس پھولنے لگتا ہے۔
البتہ جسمانی فٹنس بہتر بنانے سے اس مسئلے پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔
خون کی کمیجسم میں خون کی کمی کے باعث بھی تھکاوٹ، سانس پھولنے اور سینے میں تکلیف جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
عموماً آئرن کی کمی کے باعث خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور اس کا علاج نہ کرایا جائے تو امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔
دمہدمہ کے مریضوں کا سانس بھی سیڑھیاں چڑھنے کے دوران پھول جاتا ہے۔
گردوں اور جگر کے امراضگردوں اور جگر کے امراض کے شکار افراد کا سانس بھی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پھول جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ان امراض کے دوران اکثر جسم میں اضافی مقدار میں سیال جمع ہونے لگتا ہے جس کے باعث عام جسمانی سرگرمیاں بھی مشکل محسوس ہونے لگتی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سانس پھولنے کا سامنا ہو ہو سکتا ہے سانس پھول کے دوران لگتا ہے ہوتا ہے جاتا ہے کی کمی
پڑھیں:
وطن لوٹنے والی افغان خواتین و لڑکیوں کو طالبان حکومت میں مسائل کا سامنا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اگست 2025ء) اقوام متحدہ نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ایران اور پاکستان سے واپس افغانستان آنے والی خواتین اور لڑکیوں کو بڑے پیمانے پر مدد فراہم کرے جنہیں اپنے ملک میں غربت، نوعمری کی شادیوں اور حقوق و تحفظ کو بڑھتے ہوئے خطرات جیسے سنگین مسائل لاحق ہیں۔
یہ مطالبہ یو این ویمن، بین الاقوامی امدادی ادارے کیئر انٹرنیشنل اور شراکت داروں کی شائع کردہ رپورٹ میں کیا گیا ہے جس کے مطابق، ستمبر 2023 سے اب تک 24 لاکھ سے زیادہ افغان تارکین وطن ملک میں واپس آ چکے ہیں جن کی بڑی تعداد کو دونوں ممالک سے جبراً بیدخل کیا گیا ہے۔
ان لوگوں میں ایک تہائی تعداد خواتین اور لڑکیوں کی ہے جن میں تقریباً نصف پاکستان سے آئی ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو افغانستان سے باہر پیدا ہوئے تھے اور پہلی مرتبہ اپنے آبائی ملک میں آ رہے ہیں۔
(جاری ہے)
ان کے پاس نہ گھر ہے اور نہ ہی آمدنی کا کوئی ذریعہ اور انہیں تعلیم اور صحت کی سہولیات تک بھی رسائی نہیں ہے۔
افغانستان میں یو این ویمن کی خصوصی نمائندہ سوزن فرگوسن نے کہا ہے کہ ملک میں واپس آنے والی خواتین اور لڑکیوں کو بھی بڑے پیمانے پر غربت، نوعمری کی شادی، تشدد اور استحصال کے خطرے اور اپنے حقوق، نقل و حرکت اور آزادیوں پر غیرمعمولی پابندیوں کا سامنا ہے۔
یہ خواتین اور لڑکیاں خالی ہاتھ ایسے علاقوں میں واپس آ رہی ہیں جہاں وسائل پر پہلے ہی بہت بڑا بوجھ ہونے کے باعث ان کے لیے خطرات کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ یہ خواتین باوقار انداز میں اپنی زندگی بحال کرنا چاہتی ہیں لیکن اس مقصد کے لیے انہیں ذرائع مہیا کرنا ہوں گے جو مزید مالی وسائل اور خواتین امدادی کارکنوں کی ان تک رسائی کا تقاضا کرتے ہیں۔
رپورٹ میں ان خواتین اور لڑکیوں کو پناہ، روزگار اور تعلیم جیسی ہنگامی اور طویل مدتی ضروریات کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ انہیں رہائش، سیکھنے کے مواقع اور ذرائع روزگار کی ضرورت ہے۔
اس وقت خواتین کے زیرکفالت 10 فیصد گھرانوں کو ہی مستقل گھر میسر ہے۔ 40 فیصد کو اپنی رہائش گاہوں سے بیدخلی کا خطرہ ہے اور تمام لڑکیوں کو ثانوی درجے کی تعلیم حاصل کرنے سے روکا جا چکا ہے۔
اگرچہ سرحدوں پر خواتین امدادی کارکنوں کی موجودگی واپس آنے والی خواتین پناہ گزینوں کو مدد دینے کے لیے ضروری ہے لیکن امدادی وسائل کی کمی اور نقل و حرکت پر پابندیوں کے باعث ان کی کوششیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
مثال کے طور پر، افغان حکمرانوں کے جاری کردہ احکامات کے تحت خواتین امدادی کارکنوں کے ساتھ ایک مرد سرپرست یا محرم رشتہ دار کی موجودگی ضروری ہے۔ لیکن، وسائل کی قلت کے باعث قندھار اور ننگر ہار صوبوں میں خواتین کارکنوں کے سرپرستوں کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا۔ نتیجتاً ملک میں واپس آنے والی خواتین اور لڑکیوں کو متواتر اور بروقت مدد نہیں مل پاتی اور بہت سے مواقع پر ان کے لیے سرے سے کوئی مدد موجود نہیں ہوتی۔
وسائل کی قلت کے باعث امدادی اداروں کے کام کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ سرحدی مقامات پر کام کرنے والی خواتین کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے بڑی تعداد میں آنے والی خواتین اور لڑکیوں کی بنیادی ضرورت کو پورا کرنا بھی آسان نہیں۔
کیئر افغانستان کے ڈائریکٹر گراہم ڈیویسن نے واپس آنے والے پناہ گزینوں کو بنیادی خدمات، محفوظ جگہوں اور خواتین و لڑکیوں کے لیے تحفظ کی خدمات یقینی بنانے کی ہنگامی ضرورت کو واضح کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں پریشان حال اور ناامید خواتین، مردوں اور بچوں کو دیکھ کر اس بحران سے نمٹنے کی کوشش کرنے والوں پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
افغانستان کو پہلے ہی دنیا کے بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔ حالیہ عرصہ میں پناہ گزینوں کی واپسی سے ملک میں انسانی حالات مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔ ملک میں پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان عرفات جمال نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں کو تحفظ دینے اور انہیں مدد فراہم کرنے والی خواتین امدادی کارکنوں پر سرمایہ کاری کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔
عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے بھی دنیا سے افغانستان کو اس بحران سے نمٹنے میں مدد دینے کی اپیل کی ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے ملک میں افغان مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع نہ کرنے کے اعلان کے بعد مزید 10 لاکھ افغانوں کی اپنے ملک میں واپسی متوقع ہے۔آئی او ایم افغانستان میں پاکستان سے متصل طورخم اور سپن بولدک جبکہ ایران کے ساتھ اسلام قلعہ اور میلاک کے سرحدی راستوں پر قائم پناہ گزینوں کی وصولی کے چار مراکز میں کام کرتا ہے۔
ادارے نے سرحدی علاقوں اور پناہ گزینوں کی منازل پر بڑھتی ہوئی ضروریات سے نمٹںے کے لیے مزید امدادی وسائل کی فراہمی کے لیےکہا ہے۔