امریکا جنگ میں نہ کودتا تو ایران کے ہاتھوں اسرائیل کا وجود زمین سے مٹ چکا ہوتا، خامنہ ای
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایرانی رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران کے ہاتھوں اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹتا دیکھ کر امریکا جنگ میں کود پڑا، تاہم ایران کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
ایران میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں فتح پر جشن منایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جاری اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اگر امریکا درمیان میں نہ آتا تو اسرائیل کا وجود زمین سے مٹ چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کو خدشہ لاحق ہوا کہ ایران کی پیش قدمی اتنی تیز ہے کہ اسرائیل اس کے سامنے مکمل طور پر پاش پاش ہو جائے گا، اسی لیے امریکا کو میدان میں کودنا پڑا۔
علی خامنہ ای نے ایرانی قوم کو اسرائیل کے خلاف فتح پر مبارکباد دی اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی کارروائیاں اتنی مؤثر ثابت ہوئیں کہ صہیونی ریاست کو جھکنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسرائیل کے دفاعی نظام، فوجی مراکز اور نفسیاتی برتری کو اتنی شدت سے نشانہ بنایا گیا کہ وہ اب صرف نام کی ریاست بن کر رہ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران نہ صرف اسرائیل کو دباؤ میں لایا بلکہ امریکا کو بھی اس تنازع میں کھینچ لایا۔ امریکا نے اسرائیل کو بچانے کی کوشش میں براہ راست مداخلت کی، مگر اس سے بھی صورتحال کا رخ نہیں بدلا۔ ایرانی رہنما کے مطابق امریکا کی جانب سے جنگ میں کودنا، اس کی بے بسی کی علامت ہے اور اس کا مقصد صرف ایک کمزور ہوتی ہوئی اتحادی ریاست کو بچانا تھا۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ایران نے امریکی مداخلت کا بھی بھرپور جواب دیا اور قطر میں موجود العدید ایئر بیس پر حملہ کر کے یہ پیغام دیا کہ ایران نہ صرف اسرائیل بلکہ خطے میں موجود امریکی مفادات کو بھی نشانے پر رکھتا ہے۔ خامنہ ای نے اس حملے کو امریکا کے منہ پر زوردار طمانچہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ جب چاہے، کسی بھی وقت خطے میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے مزید خبردار کیا کہ اگر آئندہ بھی کسی قسم کی جارحیت کی گئی تو ایران کی جانب سے جواب نہ صرف سخت ہوگا بلکہ اس کی قیمت دشمن کو بھاری چکانی پڑے گی۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ میں حالات مسلسل کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور امریکا کی طرف سے جنگی بحری بیڑے اور فوجی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
خامنہ ای کے ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ ایران اس وقت خود کو ایک غالب علاقائی طاقت کے طور پر دیکھ رہا ہے، جو نہ صرف اسرائیل کو فوجی سطح پر چیلنج کرنے کی اہلیت رکھتا ہے بلکہ امریکا جیسے عالمی طاقت کے خلاف بھی کھل کر موقف اختیار کر سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خامنہ ای نے اسرائیل کو کہ ایران
پڑھیں:
ایرانی سپریم لیڈر کا روسی صدر کو خط: امریکا و اسرائیل کیخلاف عملی مدد کی اپیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران:ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملوں اور اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ کے تناظر میں روس سے کھلی اور فعال حمایت کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر نے ایک تحریری پیغام روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو روانہ کیا ہے جو ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ذریعے ماسکو پہنچایا گیا۔
ذرائع کے مطابق اس پیغام میں ایران پر امریکا اور اسرائیل کی کھلی جارحیت کو “ریاستی دہشت گردی” قرار دیا گیا ہے اور روس سے کہا گیا ہے کہ وہ ایران کے دفاع میں “فعال اور غیر مبہم کردار” ادا کرے۔
علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے کھلے حملوں اور ہماری قیادت کو نشانہ بنانے کی کوششیں عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، ایران اس وقت عالمی اتحاد اور خصوصی طور پر روس جیسے شراکت دار کی عملی حمایت کا مستحق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تہران کو اب تک روس کی جانب سے دی گئی حمایت پر مایوسی ہوئی ہے اور ایرانی قیادت سمجھتی ہے کہ ماسکو کو موجودہ صورتِ حال میں زیادہ واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔
خیال رہےکہ روسی حکام نے اسرائیلی حملوں کی عمومی مذمت کی ہے، وہیں امریکی حملوں پر تاحال روسی صدر نے کوئی براہ راست بیان جاری نہیں کیا۔
واضح رہےکہ ایران اور روس کے درمیان 20 سالہ تزویراتی معاہدہ نافذ العمل ہے،روس ایران کے بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ کے مزید دو ری ایکٹرز کی تعمیر میں تعاون کر رہا ہے،روس نے ایران سے یوکرین جنگ کے لیے ہتھیاروں کی خریداری بھی کی ہے، بالخصوص ڈرونز اور میزائل کی۔
????یاد رہےکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس، چین اور پاکستان نے مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ کو روکنے کے لیے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی قرارداد پیش کی ہے، روسی سفیر واسیلی نیبینزیا نے اجلاس میں امریکا کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ “2003 میں جھوٹے دعووں کے تحت عراق پر حملہ کیا گیا، آج بھی وہی پرانی کہانی دہرائی جا رہی ہے، دنیا سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک بار پھر امریکی ‘افسانوں’ پر یقین کرے۔