2030 تک 60 فیصد بجلی قابل تجدید ذرائع سے پیدا کی جائے گی، وفاقی وزیر توانائی
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے تمام رکن ممالک کے ساتھ مل کر توانائی کے شعبہ میں عملی اور نتیجہ خیز اقدامات کے لیے تیار ہیں، 2030 تک 60 فیصد بجلی قابل تجدید ذرائع سے پیدا کی جائے گی اور 30 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کو سڑکوں پر لانے کا ہدف حاصل کریں گے۔
اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق "توانائی کے مستقبل کے لیے جدت کو اپنانا” کے موضوع پر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے توانائی کے اجلاس سے ورچوئل خطاب کے دوران وفاقی وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری نے کہا کہ دنیا بھر کو توانائی کے بڑھتے ہوئے تقاضوں، ماحولیاتی تبدیلیوں اور پرانے نظاموں جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، جن سے نمٹنے کے لیے صرف قومی نہیں بلکہ اجتماعی علاقائی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر نے پاکستان میں جاری توانائی اصلاحات کے حوالے سے بتایا کہ حکومت نے نظام کو بہتر بنانے کے لیے متعدد نئے ادارے قائم کیے ہیں اور یہ ادارے بجلی کی ترسیل کے نظام کو شفاف، جدید اور موثر بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اویس لغاری نے پاکستان کے قابل تجدید توانائی کے اہداف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2030 تک 60 فیصد بجلی قابل تجدید ذرائع سے پیدا کی جائے گی اور 30 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کو سڑکوں پر لانے کا ہدف حاصل کریں گے۔
انہوں نے اس ضمن میں اسمارٹ میٹرز کی تنصیب، ڈیٹا پر مبنی مؤثر نظام اور ایک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سیکریٹریٹ کے قیام کی منصوبہ بندی کی تفصیلات بھی بیان کیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارا ملک وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور خلیجی ممالک کو جوڑنے والا قدرتی توانائی راہداری کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
انہوں نے خطے میں بجلی کی تجارت کو فروغ دینے، مشترکہ بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری اور توانائی کے نظاموں کے لیے مشترکہ سکیورٹی فریم ورک تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
وفاقی وزیر نے کاسا 1000 منصوبے کی جلد تکمیل کی اہمیت کو اجاگر کیا اور افغانستان کی مکمل شمولیت پر زور دیا تاکہ منصوبے کی کامیابی اور علاقائی انضمام کو یقینی بنایا جا سکے۔
ایس سی او کے تحت توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے لیے سردار اویس لغاری نے پانچ تجاویز پیش کیں جن میں مشترکہ ریسرچ اور انوویشن سیکریٹریٹ، نوجوان محققین کے لیے فیلوشپ پروگرام، جوائنٹ ڈیمانسٹریشن سائٹس، انٹیگریٹڈ انرجی کوآپریشن ڈیش بورڈ اور پراجیکٹ پرائرٹائزیشن کمیٹی شامل ہے۔
اجلاس میں وفاقی وزیر توانائی نے جلد شروع ہونے والے توانائی سرمایہ کاری پروگرام کا اعلان کیا جس میں عالمی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے قابل منافع منصوبے، شفاف پالیسیاں اور منافع کی ضمانت دی جائے گی۔
انہوں نے خاص طور پر اسمارٹ میٹرنگ (اے ایم آئی) سسٹم کی ملک بھر میں تنصیب کے لیے تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی دعوت دی جس سے 3 کروڑ صارفین مستفید ہوں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان صرف سرمایہ کاری کا خواہاں نہیں بلکہ ایسا شراکت دار بننا چاہتا ہے جو اعتماد، جدت اور پائیدار ترقی پر مبنی عملی تعاون کو فروغ دے، ہم شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام رکن ممالک کے ساتھ مل کر توانائی کے شعبے میں عملی اور نتیجہ خیز اقدامات کے لیے تیار ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وفاقی وزیر توانائی وفاقی وزیر نے سرمایہ کاری توانائی کے جائے گی نے کہا کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
27ویں ترمیم پر سو فیصد اتفاق رائے تک مشاورت جاری رہے گی، اعظم نذیر تارڑ
وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ 60 فیصد شقوں پر بحث مکمل ہوئی ہے، دو تین سوالات اٹھے ہیں۔ جب تک 100 فیصد اتفاق رائے نہیں ہو گا، اس وقت تک مشاورت جاری رہے گی۔
27ویں ترمیم سے متعلق مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کل دن گیارہ بجے کمیٹی کی دوبارہ میٹنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی ہے، بائیکاٹ کرنا جمہوری حق ہے، 60 فیصد شقوں پر بحث مکمل ہوئی ہے، دو تین سوالات اٹھے ہیں۔
وزیر مملکت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ 27 ویں کے بعد 28 ویں آئینی ترمیم بھی آسکتی ہے۔
وزیر قانون نے مزید کہا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے اعجاز الحق نے اجلاس میں شرکت کی، ہم نے ایک مرتبہ انہیں قائل کرلیا تھا، عالیہ کامران نے کہا پارٹی پالیسی ہے اجلاس میں نہیں بیٹھنا۔
اُن کا کہنا تھا کہ آج سارے ممبرز نے سنجیدگی سے معاملہ دیکھا ہے، ممبر کی طرف سے کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں، جب تک 100 فیصد اتفاق رائے نہیں ہو گا، اس وقت تک مشاورت جاری رہے گی۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے یہ بھی کہا کہ مسودہ اپوزیشن کو دیا ہوا ہے، وہ ایوان میں رائے دیں گے، آج بھی حزب اختلاف سے کہا تھا بات کریں، میں نہ مانوں کی بات ہوگی تو یہ نامناسب ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ میثاق جمہوریت کے حوالے سے دیرینہ ایجنڈا تھا، 18ویں ترمیم کے وقت اس ایجنڈے پر کام نہ ہوسکا، مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا اتنی بڑی تبدیلی نہ کریں آئینی بینچز بنا کر دیکھیں۔
وزیر قانون نے کہا کہ بنچز میں یہ مسئلہ آیا وہی ججز مقدمات سنتے تھے جو آئینی بنچز میں بھی بیٹھتے تھے، تنقید تھی کہ عدالت کے اندر عدالت بن گئی ہے، دوسرا مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ اپنے زیر التوا مقدمات تیزی سے سنے۔