لاہور:

ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان نے حکومت سندھ سے اپیل کی ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے ساحلی علاقوں میں مزید میرین پروٹیکٹڈ ایریاز (ایم پی ایز) یعنی سمندری محفوظ علاقے قائم کرے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ پٹیانی اور ڈبّو کریک جیسے علاقوں کو ایم پی اے قرار دینے سے سندھ کے ساحلی علاقوں کی حیاتیاتی تنوع اور مینگرووز کے قیمتی جنگلات کو بچایا جا سکتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے یہ مطالبہ یکم اگست کو منائے جانے والے ورلڈ میرین پروٹیکٹڈ ایریاز ڈے کے موقع پر کیا۔

ادارے کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں تین سمندری محفوظ علاقے قائم کیے جا چکے ہیں، جن میں بلوچستان کے علاقے ’’میانی ہور‘‘ کو حال ہی میں 29 جولائی 2025 کو ایم پی اے قرار دیا گیا ہے، جبکہ اس سے پہلے چُرنا آئی لینڈ (2024) اور آستو لا آئی لینڈ (2017) کو ایم پی ایز کا درجہ دیا جا چکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت پاکستان کی جانب سے عالمی سطح پر کیے گئے حیاتیاتی تحفظ کے وعدوں کی تکمیل کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ پاکستان حیاتیاتی تنوع سے متعلق عالمی کنونشن کا رکن ہے اور کُن منگ-مونٹریال گلوبل بایوڈائیورسٹی فریم ورک کے تحت ہر ملک پر لازم ہے کہ وہ 2030 تک اپنے 30 فیصد سمندری رقبے کو محفوظ علاقہ قرار دے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان نے ایم پی ایز کے قیام میں حکومت، ماہرین اور مقامی ماہی گیر برادری کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی ہدف کو حاصل کیا جا سکے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں حیاتیاتی تنوع کو حد سے زیادہ مچھلی کے شکار، خطرناک جالوں کے استعمال، آلودہ پانی کے اخراج، پلاسٹک و دیگر کوڑا کرکٹ، رہائش گاہوں کی تباہی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ان کے بقول، ’’ایم پی ایز کا قیام ان مسائل کا واحد مؤثر حل ہو سکتا ہے۔‘‘

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ ایم پی ایز کے قیام سے سمندری وسائل کا پائیدار استعمال ممکن ہوگا اور ساحلی کمیونٹیز کو ایکو ٹورازم کے ذریعے متبادل روزگار میسر آ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میانی ہور میں ڈبلیو ڈبلیو ایف نے دو دہائیاں قبل ڈولفن دیکھنے، ریت کے ٹیلوں کی سیر، پرندوں کی نگرانی اور کھیلوں کے لیے ماہی گیری جیسی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا جو اب مقامی برادری کے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ بن چکی ہیں۔

مزید برآں، 22 جولائی 2025 کو پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر بائیوڈائیورسٹی بیونڈ نیشنل جیو رسڈکشن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں، جو اقوام متحدہ کے قانون برائے سمندری حدود کا حصہ ہے۔ یہ معاہدہ سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار استعمال کے لیے ایک عالمی قانونی فریم ورک مہیا کرتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اقتصادی زون سے باہر بھی ایک آف شور ایم پی اے کے قیام پر غور کرے تاکہ غیر منظم ماہی گیری سے متاثرہ سمندری وسائل کا تحفظ کیا جا سکے۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان حیاتیاتی تنوع پاکستان نے ایم پی ایز کا کہنا کے لیے

پڑھیں:

سندھ میں زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کا منصوبہ تیارہے‘سردارمحمد بخش مہر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-08-11
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور صوبے کے زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کے لیے جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ صوبائی وزیر زراعت سردار محمد بخش مہر نے کہا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ صوبے میں غذائی تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ان کا کہنا تھا کہ محکمہ زراعت سندھ نے “کلائمٹ اسمارٹ ایگریکلچر منصوبہ” کے تحت سندھ واٹر اینڈ ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن (SWAT) پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت کسانوں کو جدید زرعی طریقے سکھائے جا رہے ہیں جن میں فی ایکڑ پیداوار بڑھانے، کیڑوں کے خاتمے اور کم پانی میں کاشت جیسے عملی طریقے شامل ہیں۔ یہ منصوبہ 5 سالہ ہے جو 2028 تک جاری رہے گا۔ اس دوران 180 فیلڈ اسکول قائم کیے جائیں گے اور 4500 کسانوں کو تربیت فراہم کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں رواں سال 750 کسانوں کو جدید زرعی تکنیکوں کی تربیت دی جا رہی ہے۔وزیر زراعت نے بتایا کہ ابتدائی طور پر سکھر، میرپور خاص اور بدین میں 30 ڈیمو پلاٹس اور فیلڈ اسکولز قائم کیے گئے ہیں جہاں لیزر لینڈ لیولنگ، گندم کی قطاروں میں کاشت اور متوازن کھاد کے استعمال جیسے طریقوں کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے۔ بدین کے کھورواہ مائنر میں زیرو ٹلج تکنیک کے تحت دھان کے بعد زمین میں بچی ہوئی نمی پر گندم اگائی گئی، جس سے اخراجات، پانی اور محنت میں نمایاں بچت ہوئی۔سردار محمد بخش مہر نے کہا کہ تربیت مکمل کرنے والے کسانوں کو سبسڈی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنی زمینوں پر یہ جدید طریقے اپنا سکیں اور دوسروں کے لیے مثال قائم کریں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے جس کے باعث فصلیں متاثر ہو رہی ہیں اور کسان نقصان اٹھا رہے ہیں، اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت نے یہ عملی اقدامات شروع کیے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلزپارٹی کا پنجاب میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور عالمی برادری سے مدد لینے کا مطالبہ
  • پاکستان بزنس فورم کا حکومت سے زرعی ریلیف پیکیج کی منظوری کا مطالبہ
  • لاڑکانہ: دریائے سندھ کے کنارے ناظم کلہوڑو گاؤں کے کچے کے علاقے میں سیلاب متاثرین نے عارضی جھونپڑیاں قائم کر لی ہیں
  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • سندھ میں زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کا منصوبہ تیارہے‘سردارمحمد بخش مہر
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • سندھ:موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کیلئے جامع منصوبہ تیار
  • سندھ حکومت سرمایہ کاروں کو ہر ممکن تعاون فراہم کررہی ہے، گورنر سندھ
  • آئی سی سی نے پاکستان کا مطالبہ مسترد کرکے بورڈ کو آگاہ کردیا، پی سی بی ایونٹ سے دستبرداری کے مؤقف پر قائم
  • گورنر سندھ کی چینی سرمایہ کاروں کو کراچی میں صنعتیں قائم کرنے کی دعوت