UrduPoint:
2025-09-18@17:22:28 GMT

پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, September 2025 GMT

پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی کس کس طرح مدد کر سکیں گے؟ مثلاﹰ پاکستان کی بھارت کے ساتھ پرانی رقابت ہے، تو کیا بھارت کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب بھی اپنی افواج کو پاکستان بھیجے گا؟ اس کے علاوہ، کیا یہ معاہدہ خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کے تناطر میں کیا گیا ہے؟

پس منظر سے متعلق بڑھتی غیر یقینی صورتحال

خلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔

ایک جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کیا ہے۔

لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں، ''امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی، قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔

‘‘

ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد سبھی ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔ معاہدے میں پاکستان کا کردار اور افادیت

تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں اس معاہدے کے تحت زیادہ نمایاں کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ سعودی عرب جنگ لڑنے کی ویسی صلاحیت نہیں رکھتا جیسی پاکستان کے پاس ہے۔

جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے اگر کوئی جنگ لڑنا پڑے، تو وہ پاکستان کو ہی لڑنا پڑے گی کیونکہ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خلیجی ممالک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

کاشف مرزا کے بقول، ''پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی خدمات لی ہیں۔

‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی بہرحال اس سے کافی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا معاہدہ مالی تعاون کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یقیناﹰ سعودی عرب پاکستان میں دفاع اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ''اب ان امکانات سے کیسے مستفید ہونا ہے، اس کا انحصار پاکستان پر ہو گا۔‘‘ ماضی میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کیا؟

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔

سعودی افواج کے سینکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کے مطابق ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہی ہیں۔ لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔

لیکن بالخصوص اس وقت تو کوئی بھی ''خود کو اسرائیل سے محفوظ‘‘ نہیں سمجھ رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔

‘‘

میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کہتے ہیں، ''یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘

پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلات

عالمی امور کے ماہر سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکہ اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔

کاشف مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''معاہدے کی زبان امریکہ میں تفکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں کا حصہ بننے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ممکنہ اسرائیلی کارروائیوں کی روک تھام اس معاہدے کے تحت غیر واضح ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اسرائیل کی بات کرتے ہیں، تو اس میں امریکہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اس معاہدے کے پاکستان اور میں پاکستان کا کہنا تھا پاکستان کے کہتے ہیں کے مطابق سکتا ہے کے بعد کر دیا کے لیے ہیں کہ اور اس

پڑھیں:

سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں ہیں.سعودی وزیر دفاع

ریاض(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 ستمبر ۔2025 )سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودیہ اور پاکستان، جارح کے مقابل ایک ہی صف میں، ہمیشہ اور ابد تک۔

(جاری ہے)

سعودی وزیر دفاع نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدے کی خبر اردو زبان میں بھی پوسٹ کی، جس میں انہوں نے لکھا کہ سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں، ہمیشہ اور ابد تک .

برطانوی نشریاتی ادارے نے رپورٹ میں کہا کہ سعودی عرب اور ایٹمی طاقت رکھنے والے پاکستان نے ایک باضابطہ باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس سے عشروں پر محیط سلامتی شراکت داری کو نمایاں طور پر مزید مضبوطی ملی ہے یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب خطے میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے. ایک سینئر سعودی اہلکار نے نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے معاہدے کے وقت سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ معاہدہ کئی برسوں کی بات چیت کا نتیجہ ہے، یہ کسی خاص ملک یا کسی مخصوص واقعے کے ردِعمل میں نہیں بلکہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور گہرے تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کا عمل ہے .

انہوں نے دونوں ممالک کے دفاعی معاہدہ کو جامع دفاعی معاہدہ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا دفاعی معاہدہ تمام فوجی وسائل کا احاطہ کرتا ہے. رپورٹ کے مطابق یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب حماس کی سیاسی قیادت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جنگ بندی کی تجویز پر بات چیت کر رہی تھی، تو اسرائیل کی جانب سے حماس قیادت پر فضائی حملے کی کوشش نے عرب ممالک کو شدید برانگیختہ کر دیا عالمی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ایک پیچیدہ خطے میں سٹریٹجک حساب کتاب کو بدل سکتا ہے، اس سے قبل واشنگٹن کے اتحادی خلیجی ممالک اپنی دیرینہ سلامتی کے خدشات دور کرنے کے لئے ایران اور اسرائیل دونوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں .

غزہ کی جنگ نے خطے کی صورتِ حال کو تہ و بالا کر دیا ہے اور خلیجی ریاست قطر ایک ہی سال میں 2 مرتبہ براہِ راست حملوں کا نشانہ بنی ہے، ایک بار ایران کی جانب سے اور دوسری بار اسرائیل کی طرف سے سینئر سعودی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس معاہدے کے تحت پاکستان سعودی عرب کو جوہری تحفظ(نیوکلیئر امبریلا ) فراہم کرنے کا پابند ہوگا تو اہلکار نے کہا کہ یہ ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جو تمام فوجی شعبوں کو شامل کرتا ہے.

پاکستانی سرکاری ٹیلی وژن نے یہ منظر دکھایا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، جو مملکت کے عملی حکمران سمجھے جاتے ہیں، معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی موجود تھے. 

متعلقہ مضامین

  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ، لڑائیوں کا خیال بھی شاید اب نہ آئے
  • سعودی، پاکستانی سٹریٹجک معاہدے کی اہمیت، عرب صحافت کی نظر میں
  • سعودیہ سے معاہدے کی تیاری و تکمیل میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار ہے
  • سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں ہیں.سعودی وزیر دفاع
  • سعودی عرب اور پاکستان میں دفاعی معاہدہ، بھارت کا ردعمل
  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ کسی مخصوص واقعہ کا ردعمل نہیں، سعودی اعلیٰ عہدیدار
  • سعودی عرب اور پاکستان کا دفاعی معاہدہ کسی مخصوص واقعے کا ردِعمل نہیں، اعلیٰ سعودی عہدیدار
  • پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی دفاعی معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار