پاکستان میں ٹیلی کام نگرانی کا نظام قانونی اور عالمی معیار کے مطابق ہے، پی ٹی اے
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے واضح کیا ہے کہ ملک میں ٹیلی کام اور انٹرنیٹ نگرانی کا عمل نہ تو کوئی استثنائی ہے اور نہ ہی غیر قانونی، بلکہ یہ عالمی سطح پر رائج اور تسلیم شدہ قانونی روایت کا حصہ ہے۔
پی ٹی اے کے مطابق جدید نگرانی کے نظام جیسے LIMS اور WMS 2.0 دنیا بھر میں استعمال کیے جاتے ہیں اور یہ ریاستی سلامتی، جرائم کی روک تھام اور انسدادِ دہشتگردی کے لیے ایک معمول کا قانونی طریقہ کار ہے۔
پاکستان میں بھی اس حوالے سے مناسب قوانین اور قواعد و ضوابط موجود ہیں جو اس عمل کو من مانے یا غیر شفاف ہونے سے روکتے ہیں۔ پی ٹی اے نے بتایا کہ پاکستان میں نگرانی کے لیے قانونی بنیادیں واضح ہیں:
مزید پڑھیں: پی ٹی اے نے مبینہ ڈیٹا لیک کی خبروں کو بے بنیاد قرار دے دیا
ٹیلی کام پالیسی 2015 کے تحت پی ٹی اے کو غیر قانونی مواد، کمیونیکیشن اینالسز، ویب اینالسز اور گرے ٹریفک مانیٹرنگ کے لیے ٹیکنالوجی نصب کرنے کا اختیار ہے۔
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016، سیکشن 37 کے مطابق غیر قانونی مواد کو ہٹایا یا بلاک کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996، سیکشن 54(3) وفاقی حکومت کو انٹرنیٹ خدمات معطل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
اسٹَیچیوٹری ریگولیٹری آرڈر (SRO) 1005 (I)/2024، وزارتِ آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن کے 8 جولائی 2024 کے نوٹیفکیشن کے مطابق، وفاقی حکومت کالز اور پیغامات انٹرسیپٹ کرنے اور ان کا سراغ لگانے کی مجاز ہے۔
مزید پڑھیں: سیکریٹری پی ٹی اے کو عدالتی کارروائی کی وارننگ
عالمی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے پی ٹی اے نے کہا کہ بھارت میں ٹیلی کام ایکٹ 2023، آئی ٹی ایکٹ 2000، اور CMS و LIM سسٹمز فعال ہیں جبکہ امریکا میں FISA سیکشن 702، برطانیہ میں Investigatory Powers Act 2016 اور چین میں گریٹ فائر وال اور ڈیجیٹل آئی ڈی قانون نگرانی کو ادارہ جاتی شکل دیتے ہیں۔
پی ٹی اے نے مؤقف اپنایا کہ بعض سیاسی حلقے، خصوصاً تحریک انصاف، عوامی لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر نگرانی کے قانونی اور عالمی معمول کو استثنائی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا نگرانی کا نظام مکمل طور پر قانونی، ریگولیٹڈ اور عالمی معیار کے مطابق ہے۔
ا
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پی ٹی اے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پی ٹی اے ٹیلی کمیونیکیشن پی ٹی اے نے ٹیلی کام کے مطابق
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کمیشن کو معیشت کے تمام شعبوں میں انکوائری اور کارروائی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
عدالت کے فیصلے نے ٹیلی کام انڈسٹری کے اس طویل مقدمے کا اختتام کر دیا جو گزشتہ ایک دہائی سے زیرِ سماعت تھا۔
تفصیلات کے مطابق جاز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب سمیت 7 بڑی کمپنیوں نے کمپٹیشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ کمپنیوں کا مؤقف تھا کہ ٹیلی کام سیکٹر پہلے ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے ضابطوں کے تحت کام کرتا ہے، اس لیے کمپٹیشن کمیشن کو مداخلت کا اختیار حاصل نہیں۔
عدالت نے واضح فیصلے میں کہا کہ کمپٹیشن کمیشن کا دائرہ کار معیشت کے تمام شعبوں پر محیط ہے، بشمول ٹیلی کام سیکٹر کے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کی موجودگی کمیشن کے اختیارات کو محدود نہیں کرتی، بلکہ قانون کے مطابق کمیشن کو مارکیٹ میں شفاف مقابلے، منصفانہ پالیسیوں اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کارروائی کا مکمل حق حاصل ہے۔
یہ مقدمہ اس وقت شروع ہوا تھا جب کمپٹیشن کمیشن نے مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کو گمراہ کن مارکیٹنگ کے الزام میں شوکاز نوٹسز جاری کیے تھے۔ ان نوٹسز میں کمپنیوں سے وضاحت طلب کی گئی تھی کہ وہ ’’ان لِمٹڈ انٹرنیٹ‘‘ جیسے دعووں کے باوجود صارفین کو محدود سروس فراہم کیوں کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پری پیڈ کارڈز پر ’’سروس مینٹیننس فیس‘‘ کے اضافی چارجز کو بھی غیر منصفانہ قرار دیا گیا تھا۔
ٹیلی کام کمپنیوں نے 2014ء میں ان شوکاز نوٹسز پر اسٹے آرڈر حاصل کر رکھا تھا، جس کے باعث کئی سال تک کمیشن کی کارروائی معطل رہی، تاہم اب عدالت نے یہ واضح کرتے ہوئے کہ کمپٹیشن کمیشن کو تمام اقتصادی شعبوں میں انکوائری کا اختیار حاصل ہے، ساتوں منسلک درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی ہیں۔