بھارت میں مودی حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسیوں نے ایک بار پھر مسلم ثقافت اور ورثے پر حملے کو نمایاں کر دیا ہے۔

اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے لکھیم پور کھیری کے علاقے مصطفیٰ آباد کا نام تبدیل کرکے کبیر دھام رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بقول، یہ فیصلہ مقامی ہندوؤں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

دی ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں نے ایودھیا کا نام فیض آباد، پریاگ راج کا الہٰ آباد اور کبیر دھام کا مصطفیٰ آباد رکھا تھا، اب مودی حکومت ان تاریخی مقامات کو ہندو مذہب سے منسوب کرنے کی مہم جاری رکھے گی۔

رپورٹ کے مطابق، ریاستی فنڈز اب قبرستانوں کی چاردیواری کی تعمیر کے بجائے ہندو عقائد اور ورثے کی ترقی پر خرچ کیے جائیں گے۔ مبصرین کے مطابق بی جے پی کی یہ مہم محض ناموں کی تبدیلی نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخ، شناخت اور تہذیب کو مٹانے کی منظم سازش ہے۔

مودی حکومت کا نعرہ “سب کا ساتھ، سب کا وکاس” اب عملی طور پر “سب کو مٹاؤ، ایک کا راج” کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو ریاستی سطح پر نفرت، انتقام اور فرقہ وارانہ تقسیم کا سب سے زیادہ سامنا ہے، جس سے بھارت کا سیکولر تشخص خطرے میں پڑ گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

مودی نے ٹرمپ سے بچنے کے لیے آسیان سمٹ نہ جانے کا فیصلہ کیا، بلومبرگ کا بڑا دعویٰ

کوالالمپور: امریکی جریدے بلومبرگ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ملائیشیا میں ہونے والی آسیان سربراہی کانفرنس میں شرکت سے اس لیے گریز کیا تاکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور پاکستان سے متعلق ممکنہ گفتگو سے بچا جا سکے۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی حکام کو خدشہ تھا کہ صدر ٹرمپ ایک بار پھر یہ دعویٰ دہرا سکتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا، جس سے بھارت کے لیے سفارتی طور پر شرمندگی پیدا ہو سکتی تھی۔

بلومبرگ نے بتایا کہ مئی میں پاک-بھارت کشیدگی کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ پایا جا رہا ہے، خاص طور پر اس وقت سے جب ٹرمپ نے بھارتی برآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق یہ اقدام جزوی طور پر بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری کے باعث کیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق مودی کی ٹیم نے یہ فیصلہ کیا کہ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات بھارت کے لیے کسی واضح فائدے کا باعث نہیں بنے گی۔ گزشتہ ہفتے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی فون کال بھی نئی دہلی کی توقعات پر پوری نہیں اتری۔

بلومبرگ نے لکھا کہ مودی کی آسیان سمٹ سے غیرحاضری غیر معمولی ہے، کیونکہ 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انہوں نے سوائے 2022 کے، تمام اجلاسوں میں شرکت کی ہے۔ 2020 اور 2021 کے اجلاس کورونا کے باعث ورچوئل طور پر منعقد ہوئے تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی اس بار اجلاس میں شریک نہ ہو کر ٹرمپ کے غیر متوقع بیانات سے بچنا چاہتے تھے، جو ماضی میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور جنوبی افریقا کے سیرل راما فوسا جیسے رہنماؤں کے لیے شرمندگی کا باعث بن چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مودی نے اجلاس سے ورچوئل خطاب کیا، جبکہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کی اور دوطرفہ تعلقات پر گفتگو کی۔

بلومبرگ کے مطابق مودی اگلے ماہ جوہانسبرگ میں ہونے والے جی-20 اجلاس میں شرکت کریں گے، جہاں ان کی دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقات متوقع ہے، اور اگر تجارتی مذاکرات میں پیش رفت ہوئی تو آنے والے مہینوں میں مودی اور ٹرمپ کی براہ راست ملاقات بھی ممکن ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بینک بھارت کا مگر وائی فائی کا نام ’پاکستان زندہ باد‘؛ مودی سرکار میں کھلبلی مچ گئی
  • مودی حکومت کا مسلمانوں کے ثقافتی ورثے پر حملہ، بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی خطرناک مہم تیز
  • مودی سرکار کے بلڈوزر تلے اقلیتوں کے حقوق
  • مودی نے ٹرمپ سے بچنے کے لیے آسیان سمٹ نہ جانے کا فیصلہ کیا، بلومبرگ کا دعویٰ
  • مودی نے ٹرمپ سے بچنے کے لیے آسیان سمٹ نہ جانے کا فیصلہ کیا، بلومبرگ کا بڑا دعویٰ
  • بی جے پی لیڈر نے کسان کو جیپ سے کچل کر مار ڈالا، بھارت میں ظلم کی انتہا
  • بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی اور مسلم دشمنی میں خطرناک حد تک اضافہ
  • مودی حکومت کی سفارتی لاپرواہی
  • فضائی آلودگی کم دکھانے کیلیے مودی سرکار کے ہتھکنڈے بے نقاب