اسلام آباد(صغیر چوہدری )استنبول مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہونے کے اعلان نے عالمی میڈیا میں دوبارہ توجہ حاصل کرلی ۔برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی اردو مزاکراتی عمل دوبارہ شروع ہونے کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان کے سرکاری میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات دوبارہ شروع ہونے پر اتفاق ہوگیا ہے۔بی بی سی نے پی ٹی وی نیوز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سرکاری میڈیا کے مطابق، مذاکرات میں توسیع کا فیصلہ میزبان ملک ترکی کی درخواست پر کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد جس نے آج استنبول سے روانہ ہونا تھا، اب وہیں ٹھہرے گا اور مذاکرات میں حصہ لے گا۔بی بی سی کے مطابق پاکستان کا مذاکراتی عمل کو بحال کرنے کا مقصد امن کو ایک اور موقع دینا اور خطے میں اعتماد کی فضا بحال کرنا ہے۔
گذشتہ روز طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ اور قطر میں افغانستان کے سفیر سہیل شاہین نے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا ایک اور دور ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر اس طرح کے مذاکرات میں ایک ہی بیٹھک یا ایک ہی دور میں حتمی معاہدے نہیں ہوتے ہیں۔
اس سے قبل منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک طویل بیان میں پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے مذاکرات کی جناکامی کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ رواں ماہ پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیر پا امن کے قیام کے لیے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین استبول میں 25 اکتوبر سے مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہوا تھا۔
خیال رہے کہ رواں ماہ پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیر پا امن کے قیام کے لیے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔
تاہم استنبول میں چار روزہ مذاکرات کے بعد منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک طویل بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ امن کو ایک موقع دینے کی کوشش میں، قطر اور ترکی کی درخواست پر، پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ پہلے دوحہ اور پھر استنبول میں مذاکرات کیے۔
انھوں نے مذکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

افغان طالبان کی حکومت سے مذاکرات کی ’ناکامی‘ کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اگر چاہے تو اپنی پوری طاقت استعمال کیے بغیر بھی افغان طالبان کی حکومت ختم کر سکتا ہے

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے پاکستان اور افغان دوبارہ شروع ہونے دونوں ممالک نے ہے کہ پاکستان افغان طالبان استنبول میں مذاکرات کا کا اعلان کیا تھا کے بعد

پڑھیں:

پاکستان کا استنبول مذاکرات میں افغان طالبان کے غیر سنجیدہ رویے پر شدید تحفظات کا اظہار، دہشتگردی کے خلاف ہر ممکن اقدام کا اعلان

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)وزیر اطلاعات و نشریات نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول اور دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کا واحد ایجنڈا سرحد پار دہشتگردی روکنا تھا، تاہم افغان فریق کی غیر ذمہ دارانہ رویے اور کابل سے موصولہ ہدایات کی وجہ سے کوئی قابلِ عمل نتیجہ حاصل نہیں ہو سکا۔

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ اکتوبر 2025 میں استنبول میں ہونے والی بات چیت میں افغان طالبان وفد متعدد موقعوں پر پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبات تسلیم کرتا دکھائی دیا، اور میزبان ممالک—قطر اور ترکیہ—نے مخلصانہ ثالثی کی کوششیں کیں، مگر بعد ازاں کابل سے آنے والی ہدایات کے باعث وفد کا موقف تبدیل ہوتا رہا۔ پاکستانی طرف نے مذاکرات میں واضح شواہد اور ٹھوس ثبوت بھی پیش کیے جنہیں میزبانوں اور افغان وفد نے تسلیم تو کیا مگر کوئی عملی یقین دہانی نہ دی گئی۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان نے بارہا افغان طالبان کے سامنے فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہند (بی ایل اے) جیسے گروپوں کی افغان سرزمین پر موجودگی اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کے خلاف احتجاج درج کروایا؛ سفارتی سطح پر اقدامات اور کثیرالجہتی رابطے کیے گئے، مگر افغان فریق نے ان نقصانات سے بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کو جنگ کا شوق نہیں مگر صبر کی حد ختم ہو رہی ہے اور قوم کی سلامتی اس کی اولین ترجیح ہے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان نے امن کے لیے متعدد مواقع دیے، اور قطر و ترکیہ کی درخواست پر ایک اور موقع دیا گیا، مگر مذاکرات کا نتیجہ غیر تسلی بخش رہا۔ انہوں نے زور دیا کہ مذاکرات کے دوران افغان وفد نے بعض اوقات پاکستان کے منطقی مطالبات تسلیم کیے، مگر پھر الزام تراشی، ٹال مٹول اور ہٹ دھرمی نے پیش رفت کو روک دیا۔ اس باعث مذاکرات کسی قابلِ عمل معاہدے تک نہیں پہنچ سکے اور باہمی اعتماد کی تعمیر میں مطلوبہ پیش رفت ممکن نہ ہوئی۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان نے افغان مسئلے پر مسلسل سفارتی اور عسکری دباؤ کے ذریعے حل کے متعدد راستے آزمائے؛ قطر، ترکیہ اور دیگر دوست ممالک کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا جاتا ہے، تاہم اگر افغان سرزمین سے دہشتگردی کے اجراء اور سہولت کاری کا سلسلہ برقرار رہا تو حکومت اپنے عوام کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اور موثر اقدامات کرنے میں کوئی مکروہ نظر نہیں آئے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت دہشتگردوں، ان کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

وزیر اطلاعات نے عوام کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خودمختاری اور شہریوں کی حفاظت کا حق ہر صورت محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزید بات چیت کے حامی افراد کو مذاکرات کے قواعد و ضوابط طے کرنے کی ضرورت کا احساس کرنا چاہیے ورنہ یکطرفہ اور غیر واضح طرز عمل مفید ثابت نہیں ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ نے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا
  • ترکیہ کی درخواست: پاکستان نے افغانستان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کردی
  • ترکیہ کی درخواست پر پاکستان نے افغانستان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کردی
  • پاکستان میزبانوں کی درخواست پر افغان طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند
  • استنبول مذاکرات ناکام‘ پاکستان کا افغان دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان
  • پاکستان کا استنبول مذاکرات میں افغان طالبان کے غیر سنجیدہ رویے پر شدید تحفظات کا اظہار، دہشتگردی کے خلاف ہر ممکن اقدام کا اعلان
  • صیہونی رجیم کا غزہ پر دوبارہ حملوں کا آغاز
  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز
  • استنبول مذاکرات میں تعطل، پاکستان کے منطقی مؤقف کو عالمی سطح پر پذیرائی