Jasarat News:
2025-10-30@08:18:11 GMT

پاکستان افغانستان تعلقات میں بداعتمادی

اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری میں مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ میں ختم ہوگیا ہے اور ان مذاکرات میں ترکیہ اور قطر نہ صرف میزبانی کا حق ادا کر رہے تھے بلکہ ان کی کوشش تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا کوئی درمیانی راستہ نکل سکے۔ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے راؤنڈ میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑی ثالثی سامنے آ سکے گی اور حالات جنگ یا کشیدگی کے بجائے بہتری کی طرف آگے بڑھیں گے۔ لیکن دوسرے راؤنڈ میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں بداعتمادی کے کئی پہلو دیکھنے کو ملے جو مذاکرات کی کامیابی میں مشکلات کا سبب بنے اور عملاً مذاکرات ناکام ہوگئے۔ پاکستان نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ جب تک افغان حکومت ہمیں تحریری طور پر اس بات کی یقین دہانی نہیں کرائے گی کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ جبکہ مذاکرات کے دوسرے حصے میں افغان حکومت مسلسل تحریری طور پر کسی بھی طرز کی ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ افغان حکومت کے بقول ہم داخلی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پاکستان کو تحریری ضمانت دے سکیں۔ البتہ ہم پاکستان کے تحفظات پر یقین رکھتے ہیں اور کوشش کریں گے کہ پاکستان کے تحفظات کو مذاکرات کے نتیجے میں دور کیا جا سکے۔ قطر اور ترکیہ کی کوشش کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے افغان حکومت کسی بڑی سیاسی کمٹمنٹ کے لیے تیار نہیں تھی۔ پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ افغان حکومت یا افغان طالبان کسی اور کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھے اور اس ایجنڈے کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے بجائے دہشت گردوں کی سرپرستی کرنا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول افغان حکومت نے پاکستان کے تحفظات پر کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی اور نہ عملی اقدامات کی یقین دہانی کرائی ایسی صورت میں مذاکرات ناکام ہی ہونے تھے۔ اب ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنے دفاع کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ پاکستان کا یہ بھی الزام تھا کہ ان مذاکرات کی ناکامی یا اس میں بڑی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ بھارت کا طرز عمل بنا ہے۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان پاکستان کے خلاف جو باہمی گٹھ جوڑ ہے اس کی بنیاد پاکستان مخالفت پر قائم ہے۔ طالبان کی حکومت پاکستان کے تحفظات سے زیادہ ان تمام تر معاملات میں بھارت کے مفادات کو زیادہ تقویت دے رہی ہے جس سے حالات بہتر ہونے کے بجائے اور زیادہ خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ان مذاکرات کا بڑا نتیجہ نہ آنے کی وجہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کا با اختیار نہ ہونا تھا اور ان کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کابل میں اپنی حکومت سے رابطہ کرنا پڑتا تھا۔ یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان افغانستان کے حالات میں ایک بہت بڑا سیاسی خلا بھی ہے اور سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے محاذ پر دونوں ملکوں کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ افغان حکومت براہ راست پاکستان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور ان معاملات میں ٹال مٹول اختیار کی جا رہی ہے جس سے پاکستان میں ان مذاکرات کے تناظر میں مایوسی پائی جاتی تھی۔ اگرچہ طالبان حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کے تحفظات اپنی جگہ درست ہیں لیکن انہیں کابل کی حکومت کے معاملات کو بھی سمجھنا ہوگا اور خاص طور پر یہ سمجھنا کہ تمام تر معاملات کا حل ہماری حکومت کے پاس ہے، ایسا نہیں ہے۔ ان کے بقول افغانستان کے بعض علاقوں میں ٹی ٹی پی کے بارے میں ہمدردی بھی پائی جاتی ہے اور جب بھی ان کے خلاف کوئی بڑے آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو وہاں سے افغان حکومت کو سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا عمل کامیاب نہیں ہوا اور قطر یا ترکیہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑا تصفیہ کرانے میں کامیاب نہیں ہوئے تو پھر صرف جنگ کا راستہ بچے گا جو دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں۔ خاص طور پر پاکستان جو پہلے ہی دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے دو صوبے خیبر پختون خوا اور بلوچستان حالت جنگ میں ہیں۔ ایسے میں ایک طرف بھارت سے خطرہ ہے تو دوسری طرف افغان بارڈر بھی پاکستان کے لیے محفوظ نہیں رہا۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے کافی تشویشناک ہے اور ہمیں ہر صورت میں افغانستان سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول وہ واحد شخص ہے جو پاکستان افغانستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر امریکی صدر کیوں خاموش ہیں اور کیوں بڑا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ امریکا نے افغانستان سے بگرام کا فوجی اڈا مانگا ہے اور تاحال افغانستان نے اس پر رضا مندی ظاہر نہیں کی ہے۔ امریکا اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کو درمیانی راستہ نکالتا ہے تو اس میں اس کا اپنا مفاد زیادہ ہے اور وہ افغانستان میں بیٹھ کے چین کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ چین کو کنٹرول کرنے کے لیے افغانستان میں اس کی موجودگی ضروری ہے اور یہ کام وہ طالبان کی حکومت سے کروانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر نہ ہوں بلکہ اس میں اور زیادہ بداعتمادی بڑھے تاکہ اس کا براہ راست فائدہ بھارت کو ہو تو پاکستان کو مستقل بنیادوں پر دبائو میں رکھا جا سکے۔ ایسے لگتا ہے پاکستان کی سول اور فوجی اداروں نے یہ طے کر لیا ہے افغانستان کے بارے میں اب ہمیں کسی تضاد میں نہیں رہنا اور جو بھی فیصلہ کرنا ہے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر افغانستان کے حوالے سے سخت گیر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ طالبان حکومت کس حد تک قطر اور ترکیہ کی بات کو تسلیم کرتی ہے یا ان کے دبائو کا سامنا کرتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ دونوں بڑے ممالک بڑا کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے یا ان کی سفارت کاری ناکام ہوئی ہے تو اس صورت میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات ایک بڑی جنگ کی طرف ہی جا سکتے ہیں۔ پاکستان نے کوشش کی تھی کہ حالات کو اس نہج پہ نہ لے کے جایا جائے جہاں جنگ کے سوا کوئی اور آپشن موجود نہ ہو۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا تھا جب افغان حکومت بھی اپنے طرز عمل میں نہ صرف لچک کا مظاہرہ کرتی بلکہ عملی طور پر کچھ ایسے اقدامات کرتی جو پاکستان کو ٹی ٹی پی کے تناظر میں مطمئن کر سکے۔ لیکن اگر افغان حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہ کی اور اس پر پاکستان کو اعتماد میں نہ لیا تو پھر حالات کی درستی کا مستقبل کافی مخدوش نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے پاکستان سے تعلقات کے تناظر میں افغان حکومت دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک دھڑا سمجھتا ہے کہ پاکستان کا موقف درست ہے اور ہمیں اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے جبکہ دوسرا دھڑا حالات کی خرابی کی ساری ذمے داری پاکستان پہ ڈال کر خود کو بچانا چاہتا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا عمل کامیاب نہیں ہوا تو اس کی ایک وجہ بھی افغانستان میں ان فیصلوں پر داخلی تقسیم بھی ہے۔

اداریہ سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان پاکستان کے تحفظات کے درمیان مذاکرات کے لیے تیار نہیں کامیاب نہیں افغان حکومت مذاکرات کا ان مذاکرات مذاکرات کے پاکستان کو کہ پاکستان کے بقول کے خلاف کی کوشش ہے اور

پڑھیں:

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز WhatsAppFacebookTwitter 0 28 October, 2025 سب نیوز

استنبول: (آئی پی ایس) پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ترکیہ کی میزبانی میں استنبول مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے۔

ذرائع کے مطابق استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں، مذاکرات کا یہ دور مصالحت کاروں کی درخواست پر دوبارہ شروع ہوا ہے، مذاکرات کے پہلے تین ادوار کابل انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تین روز سے مذاکرات جاری تھے، تیسرے دن مذاکرات 18 گھنٹے تک جاری رہے، 18 گھنٹوں کے دوران افغان طالبان کے وفد نے متعدد بار پاکستان کے خوارج ٹی ٹی پی اور دہشت گردی کے خلاف مصدقہ اور یقینی کارروائی کے منطقی اور جائز مطالبے سے اتفاق کیا۔

ذرائع کے مطابق میزبانوں کی موجودگی میں بھی افغان وفد نے اس مرکزی مسئلہ کو تسلیم کیا، تاہم ہر مرتبہ کابل سے ملنے والی ہدایات کے باعث افغان طالبان کے وفد کا مؤقف بدل جاتا، مذاکرات کے دوران کابل سے ملنے والے غیر منطقی اور نا جائز مشورے ہی بات چیت کے بے نتیجہ رہنے کے ذمہ دار ہیں۔

ذرائع نے زور دیا کہ پاکستان اور میزبان انتہائی مدبرانہ اور سنجیدہ طریقے سے اب بھی ان پیچیدہ معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں، اب بھی ایک آخری کوشش جاری ہے کہ طالبان کی ہٹ دھرمی کے باوجود کسی طرح اس معاملے کو منطق اور بات چیت سے حل کر لیا جائے اور مذاکرات ایک آخری دور کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

قبل ازیں ذرائع نے بتایا تھا کہ مذاکرات میں پاکستان اپنے پیش کردہ منطقی مطالبات پر قائم رہا تاہم افغان طالبان کا وفد پاکستانی مطالبات کو پوری طرح تسلیم کرنےکو تیار نہیں، پاکستانی وفد کا مؤقف بدستور منطقی، مضبوط اور امن کے لیے ناگزیر ہے، میزبان ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے یہ مطالبات معقول اور جائز ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان طالبان کا وفد خود بھی سمجھتا ہے کہ ان مطالبات کو ماننا درست ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان کے وفد کو کابل سے کنٹرول کیا جا رہا ہے، افغان طالبان کا وفد بار بار کابل انتظامیہ سے رابطہ کر کے انہی کے احکامات کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے تاہم کابل انتظامیہ سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آ رہا جس سے تعطل پیدا ہو رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ کابل میں کچھ عناصر کسی اور ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد نے بارہا یہ نکتہ واضح کیا ہےکہ ان مطالبات کو تسلیم کرنا سب کے مفاد میں ہے جبکہ میزبان ممالک نے بھی افغان وفد کو یہ بات سمجھائی ہے۔

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر پر اتفاق کیا گیا تھا، مذاکرات کا دوسرا دور چند روزقبل استنبول میں ہوا تھا جس میں پہلے دور میں طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان نے افغان حکام کو دہشت گردی کی روک تھام کا جامع پلان دیا تھا جبکہ اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ نے کہا تھا کہ افغان طالبان کے پاس دو ہی آپشن ہیں یا تو امن کے ساتھ رہیں یا پھر ہماری ان کے ساتھ کھلی جنگ ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعوامی حقوق کا تحفظ ترجیح،گرانفروشی کی کسی کو اجازت نہیں، شفقت محمود پاکستان کو سیلاب سے بھاری نقصان پہنچا، مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے: عالمی بینک پاکستان اور افغان طالبان کے استنبول میں تین روز سے جاری مذاکرات بے نتیجہ ختم رواں سال کا طاقتور ترین طوفان کیریبین جزائر پر اثر انداز ہونا شروع، اب تک 3 افراد ہلاک “ہیپی برتھ ڈے‘‘ مریم نواز نے زندگی کی 52 بہاریں دیکھ لیں استنبول مذاکرات تاحال بے نتیجہ ، افغان وفد کا پاکستان کے جائز مطالبات ماننے سے انکار شہبازشریف اور سعودی ولی عہد کی ملاقات، توانائی، تجارت اور نئے منصوبوں پر گفتگو TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • افغانستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے، رائٹرز
  • افغانستان کے ساتھ مذاکرات ناکام، پاکستان کا دہشتگردوں اور انکے حامیوں کو ختم کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان
  • استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات ناکام ہو گئے
  • افغان طالبان 3 حصوں میں تقسیم، یہ ٹی ٹی پی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے: میجر جنرل (ر) انعام الحق
  • افغان وفد کا بدلتا موقف: کابل کے ناجائز مشورے مذاکرات کی بے یقینی کا باعث: طالبان کا پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں، خواجہ آصف
  • پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ناکام ہوگئے، طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے، عطاء تارڑ
  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز
  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی آخری کوشش، ذرائع
  • پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور شروع