کیا پاک افغان سرحد پر جنگ بندی پائیدار ہ سکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اکتوبر 2025ء) افغانستان میں اسپن بولدک حالیہ جھڑپوں کا ایک مرکز رہا ہے، جہاں اے ایف پی کے ایک صحافی نے دکانیں دوبارہ کھولتے ہوئے اور ان رہائشیوں کو اپنے گھروں کو لوٹتے ہوئے دیکھا، جو لڑائی کے دوران فرار ہو گئے تھے۔
پاکستان کے مطابق، 48 گھنٹے کی جنگ بندی کا مقصد "تعمیری بات چیت کے ذریعے۔
۔۔۔ مثبت حل تلاش کرنے کے لیے" وقت دینا ہے۔ تاہم اس کے نفاذ کے فوراً بعد اسلام آباد کے وقت کے مطابق بدھ کی شام کو چھ بجے افغانستان میں اے ایف پی کے صحافیوں نے مختصر طور پر سرحد پر فائرنگ کی آواز سنی تھی۔ اقوام متحدہ کی فریقین سے اپیلاقوام متحدہ کے حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے جنگ بندی کا خیرمقدم کیا اور دونوں فریقوں سے اپیل کی کہ وہ شہریوں کو مزید نقصان پہنچنے سے روکیں اور دیرپا جنگ بندی کا عہد کریں۔
(جاری ہے)
گزشتہ روز افغانستان کی طالبان کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے دباؤ اور درخواست کے بعد عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا۔ تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق یہ جنگ بندی افغان طالبان کی درخواست پر طے پائی۔ البتہ تازہ اطلاعات ملنے تک جنگ بندی برقرار ہے۔
پائیدار جنگ بندی پر سوالجنگ بندی کے سبب فی الوقت لڑائی رکی ہوئی ہے، تاہم مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ بغیر تعمیری مذاکرات اور فریم ورک یا تیسرے فریق کی نگرانی کے طریقہ کار کے بغیر یہ جنگ بندی عارضی ثابت ہو سکتی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی جنگ بندی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ افغان طالبان اب "دہلی کی پراکسی" بن چکے ہیں۔
بدھ کی رات جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ افغان طالبان بھارت کی جانب سے "پراکسی وار" لڑ رہے ہیں اور کہا کہ وہ نئی دہلی کی "کٹھ پتلی" بن چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "مجھے اس بات پر شکوک و شبہات ہیں کہ جنگ بندی برقرار رہے گی، کیونکہ (افغان) طالبان کو دہلی کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس وقت، کابل دہلی کے لیے پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔"
پاکستان کے وزیر دفاع نے کابل کی جانب سے مزید جارحیت کا سامنا کرنے کے لیے اپنے ملک کے دفاع کی تیاری اور صلاحیت کا اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا، "ہمارے پاس صلاحیت ہے اور ہم ان پر حملہ کریں گے، انشاء اللہ، اگر انہوں نے اس جنگ کے دائرے کو بڑھا یا وسعت دی۔
"انہوں نے کہا، "افغانستان میں شدید حملے ہوئے ہیں اور دوست ممالک کی مداخلت کے بعد جنگ بندی پر اتفاق ہوا، لیکن یہ نازک معاملہ ہے، مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ زیادہ دیر چلے گا۔"
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں، پاکستان کسی بھی تعمیری بات چیت کا مثبت جواب دے گا لیکن جنگ بندی کی خلاف ورزی یا اپنی سرزمین پر حملوں کو برداشت نہیں کرے گا۔
کابل میں زور دار دھماکوں کا معمہ؟گزشتہ ہفتے کابل اور جنوب مشرقی افغانستان میں ہونے والے دھماکوں کے ساتھ ہی تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ طالبان حکومت نے اس کا الزام اسلام آباد پر عائد کیا اور پھر طالبان حکام نے سرحد پر حملہ شروع کیا۔ جواباً اسلام آباد نے بھی اپنے طور پر اس پر سخت ردعمل کا عزم کیا تھا۔
کابل میں بدھ کے روز زوردار دھماکے ہوئے، تاہم سرکاری طور پر طالبان حکام نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی بجائے ایک آئل ٹینکر اور جنریٹر کے پھٹنے پر لگایا اور کہا کہ اس واقعے کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی۔
لیکن ایک سینیئر طالبان اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد نے یہ دوسرا دھماکہ کیا تھا اور وہ "شہریوں کو نشانہ بنانا" چاہتا تھا۔
ادھر پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ فوج نے کابل میں ایک مسلح گروپ کو "صحیح حملوں" کے ساتھ نشانہ بنایا اور ساتھ ہی جنوبی صوبہ قندھار میں افغان طالبان کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا۔
شہر میں ہسپتال چلانے والی ایک اطالوی این جی او نے بتایا کہ کابل میں بدھ کے روز ہونے والے دھماکوں میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 35 زخمی ہوئے۔
افغانستان میں ایمرجنسی کے کنٹری ڈائریکٹر دیجان پینک نے ایک بیان میں کہا، "ہمیں زخمی لوگوں سے بھری ایمبولینسیں موصول ہونے لگیں، اور ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ہسپتال سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر دھماکے ہوئے ہیں۔
"این جی او نے بتایا کہ ہلاک شدگان کو چھروں کے زخم، بلنٹ فورس ٹروما اور جھلسنے کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے 10 کی حالت تشویشناک ہے۔
شہر میں اے ایف پی کے صحافیوں نے بتایا کہ کابل کے کچھ علاقوں میں رات بھر اور جمعرات کی صبح تک بلیک آؤٹ رہا، جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ دھماکوں کے سبب بجلی کی تاروں کو نقصان پہنچا تھا۔
اس ماہ یہ مہلک تشدد دو طرفہ تعلقات، خاص طور پر سکیورٹی کے معاملات پر کشیدہ ہونے کے بعد ہوا ہے۔
اسلام آباد کو اپنی سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا سامنا ہے اور وہ افغانستان پر پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کی قیادت میں عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے، جس کی کابل تردید کرتا ہے۔کابل کے مطابق ہفتے کے روز سے فائرنگ کے تبادلے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جبکہ بدھ کے روز سے تشدد کے نئے واقعات میں بھی عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان میں افغان طالبان نے بتایا کہ پاکستان کے اسلام آباد اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کابل میں کے روز کہا کہ
پڑھیں:
افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر فائربندی برقرار، اسپن بولدک میں حالات معمول پر آنے لگے
اسپن بولدک میں حالات معمول پر آنے لگے جنگ بندی دیرپا ثابت نہیں ہو گی، پاکستانی وزیر دفاعافغانستان سے فائربندی دیرپا نہیں ہوگی، خطرہ بدستور موجود، خواجہ آصف
پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ حالیہ فائربندی محض وقتی ہے اور اس کے دیرپا ہونے کے امکانات کم ہیں۔
ان کے مطابق سرحد پار سے حملوں کا خطرہ اب بھی برقرار ہے اور پاکستان اپنی سرحدی سلامتی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔پاکستانی نشریاتی ادارے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے الزام عائد کیا کہ افغانستان اس وقت بھارت کی ایک پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ افغان طالبان کے ’جھنڈے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے، تاہم وہ اس وقت بھارت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں‘۔
خواجہ محمد آصف نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کے ساتھ فائربندی خوش آئند ضرور ہے مگر پائیدار امن کے لیے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ کابل میں طالبان حکومت کو افغان سرزمین کے پاکستان مخالف گروہوں کے ذریعے استعمال کو روکنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اگر دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا تو ’’جوابی کارروائی ناگزیر ہو جائے گی۔
‘‘پاکستانی وزیر دفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب اسپن بولدک اور چمن کے درمیان فائر بندی کے بعد حالات کچھ حد تک معمول پر آئے ہیں۔ دونوں ممالک نے 48 گھنٹوں کے لیے فائربندی پر اتفاق کیا ہے تاکہ مذاکرات کے ذریعے کشیدگی میں کمی لائی جا سکے۔
خواجہ محمد آصف کے اس تازہ بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسلام آباد کو افغانستان میں طالبان حکومت کی نیت پر مکمل اعتماد نہیں اور حکومت آئندہ کسی بھی پیش رفت سے متعلق محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر فائربندی برقرارپاکستان اور افغانستان دونوں نے ہی تصدیق کی ہے کہ رات بھر کسی نئی جھڑپ کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ افغانستان کے سرحدی علاقے اسپن بولدک میں معمولات زندگی بحال ہونے لگے ہیں۔ یہ وہی سرحدی علاقہ ہے، جو حالیہ دنوں میں شدید لڑائی کا مرکز رہا۔
مقامی میڈیا نے بتایا کہ اس علاقے میں دکانیں دوبارہ کھل گئی ہیں جبکہ وہ شہری واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، جو جھڑپوں کے دوران وہاں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے تھے۔
اسلام آباد کے مطابق اڑتالیس گھنٹوں کی اس فائربندی کا مقصد ’’تعمیری مذاکرات کے ذریعے ایک مثبت حل تلاش کرنے کی کوشش ہے۔‘‘
پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر ایک بار پھر شدت پسندانہ حملوں کا سامنا ہے، جن کی قیادت پاکستانی طالبان اور ان کے اتحادی گروہ کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کا الزام ہے کہ کابل میں طالبان حکومت ان جنگجوؤں کو افغان سرزمین پر پناہ دے رہی ہے، تاہم کابل اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر فولکر ترک نے اس فائربندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے دونوں فریقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ’’شہریوں کو مزید نقصان سے بچائیں اور ایک پائیدار امن کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔‘‘