ورلڈ بینک کا بڑا انکشاف: طالبان نے آدھا بجٹ سیکیورٹی کے نام پر اڑا دیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
کابل سے جاری ہونے والی تازہ ورلڈ بینک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان نے مالی سال 2025 کے پہلے سات ماہ میں قومی بجٹ کا تقریباً نصف حصہ سیکیورٹی کے شعبے پر خرچ کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس مدت میں مجموعی طور پر 75.6 ارب افغانی سیکیورٹی کے نام پر استعمال کیے گئے جو کل اخراجات کا 49 فیصد بنتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2025 میں افغانستان میں حکومتی اخراجات 24.
ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ طالبان کے سیکیورٹی اخراجات میں غیر معمولی اضافہ جاری ہے جس پر عالمی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے نام پر وسائل کا بڑا حصہ ایسے عناصر پر خرچ کیا جا رہا ہے جن کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔
پاکستان سمیت عالمی برادری پہلے ہی افغانستان سے پیدا ہونے والے سیکورٹی خدشات پر متعدد بار تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیکیورٹی کے
پڑھیں:
بھارت افغانستان میں سرمایہ کاری کرے،طالبان کی پیشکش
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251126-01-23
کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان کی عبوری حکومت نے بھارتی کمپنیوں کو مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کرتے ہوئے خصوصی مراعات دینے کا اعلان کر دیا، اس اعلان کے بعد خطے میں نئے معاشی اور سیاسی مباحثے جنم لے رہے ہیں۔ افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت الحاج نورالدین عزیزی نے بیان میں کہا ہے کہ بھارت کو سرمایہ کاری کے لیے ٹیرف سپورٹ کے ساتھ زمین بھی فراہم کی جائے گی جبکہ نئی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو پانچ سال تک ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔ وزیر کے مطابق ملک کے قدرتی وسائل، توانائی، بنیادی ڈھانچے اور صنعت کے شعبوں میں بھارتی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ دوسری جانب افغانستان کی جانب سے بھارتی کمپنیوں کو ٹیکس چھوٹ اور مراعات دینے کے اعلان نے بعض حلقوں میں تشویش پیدا کی ہے، شدید معاشی دباؤ، بے روزگاری اور مہنگائی کے شکار ملک میں ٹیکس فری مراعات ملکی آمدن پر براہِ راست اثر ڈال سکتی ہیں جس سے معاشی کمزوری مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ خطے کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اور بھارت کے نئے معاشی روابط کو سیاسی تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کیونکہ یہ پیشکش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب افغانستان اندرونی معاشی مشکلات اور انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ افغان ریاست کے محدود وسائل کو بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے کھولنے کا فیصلہ عوامی فلاح کے تناظر میں مزید بحث کا متقاضی ہے۔