Islam Times:
2025-11-27@14:59:47 GMT

طالبان خطے اور دنیا کیلئے مسئلہ بن رہے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT

طالبان خطے اور دنیا کیلئے مسئلہ بن رہے ہیں

اسلام ٹائمز: یورپی یونین کے تمام ممالک، خطے کے تمام ممالک اور اب امریکہ بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کو نکالنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں جلد "کے پی کے" سے بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کی واپسی شروع ہو جائے گی، جن کو سنبھالنا اور روزگار فراہم کرنا طالبان حکومت کے لیے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ افغان طالبان کو دوست بڑھانے چاہیں، مگر افسوس انہوں نے اپنے واحد دوست ملک پاکستان کو دشمن بناکر ٹی ٹی پی کو چنا اور انڈیا سے دوستی کی پینگیں ڈالنا شروع کی ہیں۔ ویسے طالبان قیادت کو ارشد مدنی کا بیان ضرور سنوانا چاہیئے، جس میں وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ یہاں مسلمان چانسلر تک نہیں لگ سکتا۔ ہم بنئے کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں، جب وہ ڈز لگائے گا تو تم گھر کا راستہ بھول جاو گے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان سمیت خطے کے ممالک کے لیے بڑی خوشی کی خبر تھی کہ امریکہ خطے سے نکل رہا ہے۔ قارئین کرام یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی بھی ملک یہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا کی کوئی بھی سپر پاور اس کے بارڈر پر بیٹھی ہو۔ امریکہ کا معاملہ اس حوالے سے اور بھی خطرناک ہے کہ وہ اپنا نام نہاد ورلڈ آورڈر رکھتا ہے اور اسے لالچ، دھونس، حقوق اور جب کوئی نہ مانے تو پابندیوں اور جبر یہاں تک کہ حملوں کے ذریعے منوانا چاہتا ہے۔ اس لیے جب امریکہ افغانستان پر حملے کے لیے پر تول رہا تھا تو افغانستان میں اس وقت کی طالبان حکومت کو بہت سمجھایا گیا کہ حکمت سے کام لیں، کچھ لوگوں کے لیے پورے ملک اور خطے کو آگ میں نہ جھونکیں۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو لے کر امریکی رائے عامہ مکمل طور پر تیار کر لی گئی تھی کہ جہاں مرضی حملہ کر لیا جائے، کوئی مقامی مخالفت نہیں ہوگی اور بیرونی مخالفت کی امریکیوں کو پرواہ نہیں تھی۔

عام فہم الفاظ میں یہ طالبان کی اس وقت کی حکومت کی سادگی تھی کہ امریکہ کو خطے میں آنے کا موقع فراہم کیا اور مسلسل بیس سال خطہ جنگ کی آگ میں جھلستا رہا۔ خطے نے تاریخی مزاحمت کی اور امریکہ کو بے آبرو ہو کر خطے سے نکلنا پڑا۔ امریکی افواج کے جانے پر ہر آزادی پسند نے خوشیاں منائیں کہ جان چھوٹ گئی، اب خطے میں امن آئے گا اور جنگ و جدال کے بجائے روابط قائم ہوں گے۔ روس تک سارا خطہ باہم منسلک ہو جائے گا اور اقبال نے جس افغانستان کو ایشیا کا دل کہا تھا، اب وہ وقت آگیا ہے کہ دل درست انداز میں کام کرے اور ایشیاء یورپ و امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کرے۔ آج بھی پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا ٹویٹ ریکارڈ کا حصہ ہے، جس میں انہوں نے امریکہ کے نکلنے پر لکھا تھا: "طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے۔" یہ اس  بات کا اعلان تھا کہ پاکستان خطے میں امریکی موجودگی کو پسند نہیں کرتا تھا اور اب دنیا کی سپر پاور کے دعویدار کو جانا پڑ رہا ہے تو اس بات کی علامت ہے کہ اصل طاقت خدا والوں کی ہے۔

خیر جیسے ہی افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی، پاکستان میں شدت پسند حملے بڑھ گئے، شروع شروع میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ بھی بارڈر پر چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ پاکستان میں فیصلہ سازوں کا خیال رہا ہے کہ انڈیا ہمیں افغانستان میں الجھانا چاہتا ہے، اس لیے ہم نے ہر صورت میں افغانستان میں اپنی دوست حکومت کو سپورٹ کرنا ہے۔ پوری دنیا پاکستان کو طالبان کا سپورٹر کہہ کر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتی تھی، مگر پاکستان اسی خیال سے ڈٹا رہا کہ ہم نے افغانستان میں امریکہ کے لیے زمین گرم کرنی ہے اور وہاں طالبان کی صورت ایک دوست حکومت قائم کرنی ہے۔ ایک بنیادی بات یہ بھی تھی کہ افغان طالبان کا نعرہ وطنیت کی بجائے مذہب تھا، پاکستان کا ریاستی بیانیہ بھی مذہبی ہے، اس لیے خیال یہ تھا کہ ایک مذہبی ریاست کو دوسری مذہبی ریاست سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ مگر ساری امیدیں ٹوٹ گئیں اور سہانے خوابوں پر پانی پھر گیا، جب  حملوں کی تعداد دن بدن بڑھنے لگے۔

پھر اچانک ایسا ہوا کہ افغانستان سے ایک آدھ حملہ آور کی بجائے پچاس پچاس، سو سو افراد کی تشکیلیں آنے لگیں۔ حالات تباہی کی طرف جانے لگے۔ پاکستان میں موجود ایسے علمائے کرام جو طالبان کے ہمدرد تھے، انہیں بھجوایا گیا، مگر مسئلہ جوں کا توں رہا، بلکہ آئے دن بڑھتا رہا۔ اب صورتحال یہ ہوگئی کہ پاکستان پر افغانستان کے بڑے عہدیداروں کے قریبی عزیز حملوں میں مارے جانے لگے۔ پاکستانی فیصلہ ساز ادارے اس نتیجے پر پہنچے کہ افغانستان نئے انداز میں پاکستان پر حملہ کرچکا ہے، اس لیے پاکستان نے اس کا جواب دینا شروع کیا، جس سے باقاعدہ جنگ کی صورتحال پیدا ہوگئی، جس میں قطر اور ترکی نے اپنا کردار ادا کیا اور جنگ رک گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وہی خواجہ آصف جو کل تک اس کامیابی کو خدا کی طاقت سے تعبیر کر رہے تھے، اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کابل سے کوئی امید نہیں رہی اور جس انداز میں افغان طالبان نے انڈیا کے دورے کیے ہیں اور ہر طرح سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں، جسے نظر انداز کر دیا جائے۔

اب پاک افغان تعلقات کو ریورس گئر لگ چکا ہے، اب تمام تجارتی راستے پاکستان نے یہ کہہ کر بند کر دیئے ہیں کہ خون اور تجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس کے ساتھ لینڈ لاک ممالک کے لیے جس راہ داری کے خواب دیکھے جا رہے تھے، وہ اپنی موت آپ مرتی نظر آرہی ہے۔ افغانستان کا پاکستان پر انحصار ہے اور پاکستان ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرکے بھی افغانستان کو ٹرانزٹ کی سہولت فراہم کر رہا تھا، مگر اب لگتا ہے کہ یہاں بھی کچھ فیصلے دو جمع دو چار کی طرح لے لیے گئے ہیں۔ پاکستان کی ریاست کی پالیسی سافٹ سے ہارڈ سٹیٹ کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، ہر طرح کی مخالفت کرنے والے اور ریاست کو بلیک میل کرکے مطالبات منوانے والوں کے دن جا چکے ہیں۔ افغان طالبان کے آنے سے افغانستانیوں کو جن اچھے دنوں کی امید لگی تھی، اب لگتا ہے کہ طالبان کے دشمن ساز رویئے سے دور جا چکے ہیں۔ پاکستان کی ریاست اور ریاستی ادارے بڑے طاقتور ہیں۔ پاکستان کے لیے افغان بارڈر پر ایک لاکھ مزید فوج تعینات کرنا مشکل ضرور ہے، مگر کر گزریں گے اور فوج میں اتنے اہلکاروں کا اضافہ جلد کر دیا جائے گا۔ ٹیکنالوجی بالخصوص ڈرون ٹیکنالوجی معاملات کو کافی آسان کر رہی ہے۔

دنیا افغان طالبان کے مقابل پاکستان کی پالیسی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس پر حملے کے بعد تمام افغانوں کے لیے جاری امیگریشن پالیسی بند کر دی ہے۔ لاکھوں وہاں پہنچ جانے والے اور ہزاروں یہاں مقیم اس سے متاثر ہوں گے۔ یورپی یونین کے تمام ممالک، خطے کے تمام ممالک اور اب امریکہ بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کو نکالنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں جلد کے پی کے سے بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کی واپسی شروع ہو جائے گی، جن کو سنبھالنا اور روزگار فراہم کرنا طالبان حکومت کے لیے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ افغان طالبان کو دوست بڑھانے چاہیں، مگر افسوس انہوں نے اپنے واحد دوست ملک پاکستان کو دشمن بناکر ٹی ٹی پی کو چنا اور انڈیا سے دوستی کی پینگیں ڈالنا شروع کی ہیں۔ ویسے طالبان قیادت کو ارشد مدنی کا بیان ضرور سنوانا چاہیئے، جس میں وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ یہاں مسلمان چانسلر تک نہیں لگ سکتا۔ ہم بنئے کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں، جب وہ ڈز لگائے گا تو تم گھر کا راستہ بھول جاو گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: افغانستان میں کے تمام ممالک افغان طالبان طالبان حکومت پاکستان میں پاکستان کو طالبان کے کہ افغان رہے ہیں جائے گا تھی کہ اس لیے ہیں کہ رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ اور بڑھتا ہوا استعمال!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251125-03-7
منشیات کے استعمال کی تاریخ بھی انسانی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔ انسان اس کا استعمال شاید ازل سے ہی کرتا آرہا ہے۔ دنیا کے تمام خطوں میں ایسی قدرتی اور خودرو جڑی بوٹیاں موجود ہیں کہ جن کے استعمال سے نشہ ہوتا ہے۔ قدیم مذاہب اور تہذیبوں میں اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی البتہ اسلام نے ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیکر مسلمانوںکو اس سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے لیکن آج دنیا کے دیگر ممالک کی مانند اسلامی ممالک میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔ جبکہ افغانستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں دنیا کی سب سے زیادہ مقدار میں منشیات کی پیدوار ہوتی ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقے منشیات کی اسمگلنگ کے لیے مشہور ہیں۔ اس کا استعمال بھی خیبر سے کراچی تک ہے اس لیے اس کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ نشے کے عادی افراد کے بوجھ نے پاکستان میں صحت عامہ کے نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ چھے لاکھ سے زائد پاکستانی نشہ کرنے والوں کو منشیات نہ ملے تو اس وجہ سے ان کی موت بھی ہوسکتی ہے۔

اے این ایف نے صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کا عزم مصمم کر رکھا ہے۔ سال 2024-2025 کے دوران اب تک صوبے بھر میں 100سے زائد مختلف نوعیت کی آگاہی سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا جبکہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے خلاف آگاہی اجاگر کرنے کے لیے تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ اس وقت 90 فی صد منشیات افغانستان میں پیدا ہو رہی ہے۔ جس میں سے 40 فی صد

منشیات پاکستان اسمگل کر دی جاتی ہیں اور پھر پاکستان سے آگے مختلف ممالک کو اسمگل ہوتی ہیں اور باقی 50 فی صد منشیات افغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک براستہ بندر عباس ایران اور مختلف دوسرے راستوں سے آگے اسمگل کر دی جاتی ہیں۔ ویسے تو طالبان کی حکومت نے افغانستان میں پوست پر پابندی کو بڑی کامیابی بنا کر پیش کیا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پوست کی کاشت واقعی رکی ہے تو پھر میتھ ایمفیٹامین (آئس) کی یلغار کے سامنے حکومت خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہے؟ 2025 کے تازہ ترین یو این او ڈی سی اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں پوست کی کاشت 20 فی صد گھٹ کر 10,200 ہیکٹر رہ گئی ہے جبکہ فصل 32 فی صد کم ہو کر 296 ٹن پر آ گئی۔ حیران کن طور پر خشک افیون کی قیمت بھی 27 فی صد گر کر تقریباً 570 ڈالر فی کلو ہوگئی ہے یہ رجحان صاف بتاتا ہے کہ منڈی افیون سے ہٹ کر آئس جیسے سنتھیٹک نشوں کی طرف منتقل ہو رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب طالبان حکومت نے پوست پر پابندی لگا رکھی ہے تو آئس کی لیبارٹریاں ان کی ناک کے نیچے کیوں پنپ رہی ہیں؟ کیا حکومت واقعی بے بس ہے؟ یا یہ کاروبار سیاسی و معاشی سرپرستی میں پروان چڑھ رہا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر پریکر سر کیمیکلز کی آزادانہ نقل و حرکت، سرحدوں سے آئس کی ترسیل اور اندرونِ ملک نیٹ ورکس کی توسیع کس کی ناکامی ہے؟

افغانستان اب ایک ایسے دہانے پر کھڑا ہے جہاں منشیات، سیاست اور طاقت کی بھوک نے ایک نیا عفریت جنم دے دیا ہے۔ پوست کے کھیت مٹ چکے ہیں مگر زہر اب لیبارٹریوں میں پک رہا ہے۔ آئس کی معیشت نے سرحدوں، قانون اور اخلاق سب کو پامال کر دیا ہے۔ یہ صرف ایک منشیات کا بحران نہیں، یہ ریاست کی رگوں میں بہتا زہر ہے جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اگر طالبان حکومت اور عالمی قوتیں اب بھی خاموش رہیں تو یہ زہر صرف افغانستان نہیں، بلکہ پورے خطے کے مستقبل کو مفلوج کر دے گا۔ چار دہائیوں پر مبنی افغان بدامنی نے جہاں پاکستان کی معیشت پر بے پناہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں وہاں معاشرے کے نوجوان طبقے میں بگاڑ پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں بیس کروڑ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں۔ منشیات کا استعمال سب سے زیادہ براعظم امریکا میں کیا جاتا ہے۔ ہیروئن کے استعمال میں تعداد کے حوالے سے ایشیا سرفہرست ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں منشیات کی سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے۔ جہاں تقریباً 75 فی صد لوگ ذہنی دبائو اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے کے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں 2 ملین کے قریب لوگ صرف ہیروئن کے نشے کے عادی ہیں۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تعلیمی اداروں میں 43 فی صد نوجوان الکوحل اور دیگر نشہ آور اشیا استعمال کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے عالمی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ بنیادوں پر اوسطاً چار کروڑ سے افراد منشیات کے استعمال کی جانب رجوع کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں تمباکو کے استعمال سے ہر سال 80 لاکھ سے زیادہ لوگ مرتے ہیں جن میں سے 12 لاکھ اموات صرف غیر فعال تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں منشیات کے استعمال پر قابونہ پایا گیا تو صورتحال کس طرف جاسکتی ہے تاہم مسئلے کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے موثر پالیسی اور جامع منصوبہ بندی کے تحت ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کا فقدان ہے۔ اب تک نہ ہی الگ سے کوئی فورس تشکیل دی گئی ہے جو پتا چلا سکے کہ تعلیمی اداروں میں نشہ آور اشیا کیسے پہنچتی ہیں اور کیسے بکتی ہیں اور اس سلسلے کا تدارک کیونکر ممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں اس مسئلے کے حل کی کوششوں کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں، اس پر تحقیق کریں اور تمام تر توانائیوں اور وسائل کے استعمال سے نوجوان نسل کو اس لعنت سے نجات دلانے اور اس کا مستقبل محفوظ بنانے کی سعی کریں۔

ضیا الحق سرحدی سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • وائٹ ہاوس پر فائرنگ، افغان طالبان رجیم پوری دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئی
  • وائٹ ہاؤس پر فائرنگ کا واقعہ؛ افغان طالبان رجیم  پوری دنیا کے امن کےلیے سنگین خطرہ
  • افغانستان میں کارروائی سے متعلق خواجہ آصف کا مؤقف سامنے آ گیا
  • شکست خوردہ امریکہ کو پیچھے چھوڑتی دنیا
  • افغانستان میں فضائی حملوں سے ہلاکتیں،طالبان نے پاکستان پر الزام عائد کردیا
  • افغانستان، فضائی حملوں میں ہلاکتیں؛ پاکستان پر الزام عائد کردیا
  • پاکستان کے افغانستان میں فضائی حملوں میں ہلاکتیں؛ طالبان کا بے بنیاد الزام
  • مسئلہ ریاستِ افغانستان سے ہے، عوام سے نہیں؛ دہشتگردوں کا آخری دم تک پیچھا کریں گے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ اور بڑھتا ہوا استعمال!