پاکستان میں پھیلی کرپشن کے چشم کشا حقائق موجود، وسل بلور بل منظور کیا جائے: آئی ایم ایف
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
اسلام آباد (عترت جعفری) آئی ایم ایف کی تشخیصی رپورٹ کی مزید تفصیلات کے مطابق ملک کے اندر پھیلی کرپشن کے حوالے سے چشم کشا حقائق موجود ہیں اور آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپریل میں پیش کیے جانے والے وسل بلور کے بل کو فوری طور پر منظور کیا جائے۔ وسل بلور پروٹیکشن اینڈ ویجیلنس کمیشن بنایا جائے۔ احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی میرٹ پر کی جائے اور پاکستان بین الاقوامی سطح پر معلومات کے تبادلہ اور شیئرنگ کے شعبہ میں کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی رکنیت حاصل کرے۔ ایف بی آر کے اندر چیئرمین کی نگرانی میں انٹرنل افیئرز کا یونٹ بنایا جائے اور اس یونٹ کو مینڈیٹ دیا جائے کہ وہ ایف بی آر کے افسروں یا سٹاف کی ہر سطح کے مس کنڈکٹ کی تفتیش کرے اور اسے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ رابطہ رکھنے کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔ ادارے کے اندر کرپشن میں ملوث افسروں یا اہلکاروں کے خلاف ہونے والی تحقیقات، ان کے خلاف اقدامات اور کرپشن کے تمام کیسز جو دیگر اداروں کو بھیجے گئے ہیں اس کا تمام ڈیٹا عوام کے سامنے لایا جائے۔ حکومت پاکستان کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اندر ڈپٹی گورنر کی دو خالی اسامیوں کو فوری پر کرے۔ صوبوں میں اینٹی کرپشن کے اداروں کی طرف سے کرپشن کے امور کی تحقیقات کے آغاز کے لیے اعلی سطح سے منظوری لینے کی شرط کو بھی ختم کیا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسیوں پر قبضہ کر کے معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان جو بھی اخراجات کرتا ہے ان اخراجات کی سٹیٹمنٹ سالانہ بنیاد پر سامنے آتی ہے۔ اس سٹیٹمنٹ میں تمام بڑے اخراجات کے حاصل شدہ فوائد کو بھی بتایا جائے۔ ایف بی آر سے کہا گیا ہے کہ ادارے کے اندر انٹرنل افیئرز کا ایک یونٹ بنایا جائے جو براہ راست چیئرمین کو رپورٹ کرے۔ انٹرنل افیئر یونٹ کو مینڈیٹ دیا جائے کہ وہ دیانت داری اور اینٹی کرپشن کی پالیسیز پر عمل درآمد کرائے۔ سٹاف کی ہر سطح پر ہونے والے مس کنڈکٹ کی تفتیش کرے اور ضرورت پڑنے پر انفورسمنٹ کے اداروں کے ساتھ رابطہ بھی کرے۔ ایف بی آر کو ہدایت کی گئی ہے کہ ادارے میں آنے والی شکایتوں جن افسروں یا اہلکاروں کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ہوئی ہو، یہ افراد جن کے خلاف کرپشن کے حوالے سے اقدامات ہوئے ہوں یا کرپشن کے کیسز دوسرے اداروں کو بھیجے گئے ہوں، اس بارے میں تمام ڈیٹا پبلک کیا جائے۔ کیبنٹ ڈویژن اور فنانس ڈویژن سے یہ کہا گیا ہے کہ کہ سال کے دوران بجٹ کے اندر ایڈجسٹمنٹس نہ کرے، اور ایسا کوئی کام کرنا بھی ہو تو پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لی جائے۔ بجٹ میں اس حد تک لچک ضرور رکھی جائے کہ ہنگامی حالات کے لیے ریزرو موجود ہوں۔ پی ایس ڈی پی میں صرف انتہائی ترجیحی منصوبوں کو ہی شامل کیا جائے۔ وزارت خزانہ سے کہا گیا ہے کہ مسابقتی کمشن آف پاکستان، نیب اور ایف آئی اے کے درمیان تفتیش کا رابطہ پیدا کیا جائے۔ نیشنل ٹیرف پالیسی 25 سے 2030 پر عمل کیا جائے۔ کسٹم ایکٹ کی پانچویں شیڈول کی سیکشن 18 اے کو مرحلہ وار ختم کر دیا جائے۔ سیکشن 19 کے تحت ملنے والی ایگزیمپشنز کو محدود کیا جائے۔ نیشنل ٹیرف کمشن کی استعداد کار کو بڑھایا جائے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایکٹ میں تبدیلی کر کے وزارت خزانہ کی سیکرٹری کو اس کے بورڈ آف ڈائریکٹر سے ہٹایا جائے۔ سٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنر یا نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو ہٹانے کی صورت میں اس بارے میں وجوہات کو پبلک کیا جائے۔ فنانس ڈویژن کے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو انسپیکشن کے بارے میں ہدایات دینے کے عمل کو ختم کیا جائے۔ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی سیکشن تھری میں ابہام کو دور کیا جائے تاکہ منی لانڈرنگ کے کیسوں کی پراسیکیوشن وقت پر ہو سکے۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے کہ صوبوں کی اینٹی کرپشن اداروں کی آزادی کو یقینی بنایا جائے اور کرپشن کی تحقیقات کو شروع کرنے کے لیے اعلیٰ حکام کی اجازت کی شرط کو ختم کیا جائے اور ان اداروں میں انٹرنل احتساب کی میکنزم کو بھی ترتیب دیا جائے۔ احتساب عدالتوں کو مستحکم کیا جائے اور ان کی آزادی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ ججز کی تقرری میرٹ پر کی جائے۔ پاکستان معلومات کی شیئرنگ اور معلومات کے تبادلہ کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے جیسے ایگ ماؤنٹ گروپ، اے آر آئی این اور اوپن گورنمنٹ پارٹنرشپ کی رکنیت حاصل کرے۔ اطلاعات تک رسائی کے حق کو زیادہ مؤثر بنایا جائے۔ پاکستان میں وسل بلور پروٹیکشن اینڈ ویجیلنس کمیشن بنایا جائے۔ ایس آئی ایف سی کی جانب سے سالانہ رپورٹ فوری جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔کرپشن کی نذر ہونے والی رقم سے پاکستان میں پیداوار اور ترقی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹیکس سسٹم پیچیدہ، کمزور انتظام اور نگرانی بدعنوانی کا باعث ہے۔ عدالتی نظام کی پیچیدگی اور تاخیر معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرتی ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں کمی بدعنوانی کے خطرات کی علامت ہے جبکہ بجٹ اور اخراجات میں بڑے فرق سے حکومتی مالیاتی شفافیت پر سوالات ہیں۔ گورننس اور کرپشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن پالیسیوں میں تسلسل کی کمی اور غیر جانبداری سے اداروں پر عوام کا اعتماد ختم ہورہا ہے۔ پاکستانیوں کو سروسز کے حصول کی خاطر مسلسل ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں۔ حکومتی اور بیوروکریسی کے زیر اثر اضلاع کو زیادہ ترقیاتی فنڈ ملے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی 2019ء میں چینی برآمد کی اجازت ظاہرکرتی ہے اشرافیہ اپنے مفادکے لیے پالیسوں پر قابض ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری عہدوں پر فائز شوگر ملز مالکان نے مسابقت کی قیمت پر اپنے کام کو منافع بخش رکھا۔ شوگر ملز مالکان اپنے فائدے کے لیے برآمدات اور قیمتوں کے تعین کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوئے۔ وافر ذخیرہ ہونے کے باوجود شوگر مل مالکان نے مصنوعی قلت پیداکرنے اور قیمتوں میں ہیرا پھیری کیلئے ملی بھگت کی۔ تحقیقاتی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ برآمدی دباؤ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ کرپشن کو پاکستان میں عدالتی کارکردگی کو متاثر کرنے اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچانے والے اہم عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری 23 تا دسمبر 24ء نیب کی 5.
ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
پاکستان میں کرپشن مستقل چیلنج، سیاسی و معاشی اشرافیہ جیبیں بھر رہی ہے: آئی ایم ایف
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ پاکستان میں کرپشن مستقل چیلنج ہے اور سیاسی اور معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسوں پرقبضہ کرکے معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔آئی ایم ایف نے پاکستان میں گورننس اور بدعنوانی سے متعلق رپورٹ جاری کردی جس میں پاکستان میں مسلسل بدعنوانی کےخدشات کی نشاندہی کرتے ہوئے آئی ایم ایف کا 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جب کہ اس رپورٹ کا دائرہ صرف وفاقی سطح کی کرپشن اور گورننس تک محدود ہے۔رپورٹ میں اہم سرکاری اداروں کو حکومتی ٹھیکوں میں خصوصی مراعات ختم کرنے، ایس آئی ایف سی کے فیصلوں میں شفافیت بڑھانے، حکومت کے مالیاتی اختیارات پر سخت پارلیمانی نگرانی کی سفارش کی گئی ہے جب کہ انسدادِ بدعنوانی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔آئی ایم ایف نے ایس آئی ایف سی کے اختیارات، استثنا اور شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہوئے ایس آئی ایف سی کی جانب سے سالانہ رپورٹ فوری جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔رپورٹ میں تمام سرکاری خریداری بھی 12 ماہ میں ای گورننس سسٹم پر لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا ہےکہ پالیسی سازی اور عملدرآمد میں زیادہ شفافیت اور جواب دہی ضروری ہے۔آئی ایم ایف کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی اور معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسوں پر قبضہ کرکے معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں، اشرافیہ اپنی جیبیں بھرنےکے لیے معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں، کرپشن کی نذر ہونے والی رقم سے پاکستان میں پیداوار اور ترقی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔گورننس اور کرپشن سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ گورننس بہتر بنانے سے نمایاں معاشی فائدے حاصل ہوں گے، اصلاحات سے پاکستان کی معیشت 5 سے 6.5 فیصد تک بہتر ہوسکتی ہے اور پاکستان 5 سال میں 6.5 فیصد تک جی ڈی پی میں اضافہ کرسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ٹیکس سسٹم پیچیدہ، کمزور انتظام اور نگرانی بدعنوانی کا باعث ہے، عدالتی نظام کی پیچیدگی اور تاخیر معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرتی ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں کمی بدعنوانی کے خطرات کی علامت ہے جب کہ بجٹ اور اخراجات میں بڑے فرق سے حکومتی مالیاتی شفافیت پر سوالات ہیں۔گورننس اور کرپشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن پالیسیوں میں تسلسل کی کمی اور غیر جانبداری سے اداروں پر عوام کا اعتماد ختم ہورہا ہے، پاکستانیوں کو سروسز کے حصولی کی خاطر مسلسل ادائیگیاں کرنا پڑتی ہے، حکومتی اور بیوروکریسی کے زیر اثر اضلاع کو زیادہ ترقیاتی فنڈ ملے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سرکاری عہدوں پر فائز شوگر ملز مالکان نے مسابقت کی قیمت پر اپنے کام کو منافع بخش رکھا، شوگر زمل مالکان اپنے فائدے کے لیے برآمدات اور قیمتوں کے تعین کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوئے، وافر ذخیرہ ہونےکے باوجود شوگرمل مالکان نےمصنوعی قلت پیداکرنے اور قیمتوں میں ہیرا پھیری کےلیے ملی بھگت کی۔آئی ایم ایف رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی2019میں چینی برآمد کی اجازت ظاہرکرتی ہے اشرافیہ اپنے مفادکے لیے پالیسیوں پر قابض ہیں، چینی کی تحقیقاتی رپورٹ میں سیاسی ہیوی ویٹ کو مجرم قرار دیا گیا ہے اور تحقیقاتی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ برآمدی دباؤ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔گورننس اور کرپشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی نظام میں پرانےقوانین، ججوں، عدالتی عملے کی دیانتداری کےمسائل ہیں جس کے باعث قابل اعتماد طریقے سے معاہدوں کونافذ کرنے یاجائیداد کےحقوق کا تحفظ کرنے کےقابل نہیں ہے، کرپشن کو پاکستان میں عدالتی کارکردگی کو متاثر کرنے اور قانون کی حکمرانی کونقصان پہنچانے والےاہم عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق نیشنل کرپشن سروے میں عدلیہ کو پولیس اور پبلک پروکیورمنٹ کے ساتھ سب سے زیادہ کرپٹ شعبوں میں سے ایک کے طور پر دکھایا گا جو کہ عدالتی نظام پر اعتماد کی کمی ظاہر کرتا ہے، پاکستان کےعدالتی نظام کوعدالتی آزادی کے حوالے سے عملی طور پرکافی رکاوٹوں کا سامنا ہے اور 26ویں آئینی ترمیم نےچیف جسٹس کے لیے تقرری کےعمل کو تبدیل کرکے جوڈیشل کمیشن میں ممبران کی تعداد کو بڑھایا ہے۔آئی ایم ایف رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ جنوری23 تا دسمبر 24 نیب کی5.3 ٹریلن روپےکی ریکوری معشیت کو پہنچےنقصان کاکم حصہ ہے۔