عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے اپنی طویل انتظار کی جانے والی گورننس اور کرپشن ڈائگناسٹک اسیسمنٹ (جی سی ڈی اے) میں پاکستان میں بدعنوانی کے مستقل چیلنجز کو اجاگر کیا ہے، جو ریاستی اداروں میں موجود نظام کی کمزوریوں سے پیدا ہوتے ہیں، شفافیت، انصاف اور دیانتداری میں بہتری کے لیے 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوراً شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس رپورٹ کی اشاعت اگلے ماہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے 1.

2 ارب ڈالر کی قسط کی منظوری کے لیے شرط قرار دی گئی ہے، جس کے مطابق پاکستان آئندہ 3 سے 6 ماہ کے اندر گورننس اصلاحات کا پیکج نافذ کرے تو 5 سال میں معاشی ترقی کی شرح میں تقریباً 5 سے 6.5 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔

جی سی ڈی اے میں چند بااثر سرکاری اداروں کو سرکاری ٹھیکوں میں دی جانے والی خصوصی رعایتیں ختم کرنے، اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی ) کے معاملات اور فیصلہ سازی میں شفافیت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مزید برآں، رپورٹ میں حکومت کے مالیاتی اختیارات پر سخت حدود کا تقاضا کیا گیا ہے، جن کے لیے زیادہ پارلیمانی نگرانی ضروری ہے اور اینٹی کرپشن اداروں کی تنظیمِ نو کی سفارش بھی کی گئی ہے، حکومت نے یہ رپورٹ اگست سے روک رکھی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک متحدہ موضوع یہ ہے کہ پالیسی سازی، اس پر عمل درآمد اور نگرانی میں شفافیت اور احتساب میں اضافہ کیا جائے، اس میں معلومات تک بہتر رسائی اور ریاستی و غیر ریاستی اسٹیک ہولڈرز کی صلاحیت بڑھانا شامل ہے تاکہ وہ گورننس اور معاشی فیصلہ سازی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔

رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان، جی سی ڈی اے کی سفارشات کے مطابق گورننس، احتساب اور دیانتداری میں بہتری لاتا ہے تو اسے نمایاں معاشی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، پاکستان 5 سال کے دوران گورننس اصلاحات کا پیکج نافذ کر کے جی ڈی پی میں 5 سے 6.5 فیصد اضافہ کر سکتا ہے۔

اہم شعبوں میں گورننس اور انسداد بدعنوانی، کاروباری ضابطہ کاری اور بیرونی تجارت کی ریگولیشن میں بہتری شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف اور حکومت دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ کرپشن کے خطرات سے نمٹنا پائیدار اصلاحات کے لیے ضروری ہے اور انسدادِ بدعنوانی کی کوششیں تب ہی مؤثر ہوتی ہیں جب گورننس کو مضبوط بنانے اور براہِ راست کرپشن سے نمٹنے کے اقدامات کو یکجا کیا جائے۔

اشاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ کرپشن پر کنٹرول کمزور ہوا ہے، جس سے عوامی اخراجات کی کارکردگی، محصولات کے حصول اور عدالتی نظام پر اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے۔

جی سی ڈی اے نے ریاستی افعال میں نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا اور بتایا کہ پاکستان بجٹ سازی اور مالیاتی معلومات کی رپورٹنگ، سرکاری مالی و غیر مالی وسائل کے انتظام، خصوصاً ترقیاتی اخراجات، سرکاری خریداری اور ریاستی ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کی نگرانی میں موجود خامیوں کی وجہ سے کرپشن کے خطرات سے دوچار ہے۔

اس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان کا ٹیکس نظام حد سے زیادہ پیچیدہ اور غیر شفاف ہے، جسے ایسے ٹیکس اور کسٹم ادارے چلاتے ہیں جن کی صلاحیت، انتظام اور نگرانی ناکافی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ عدالتی شعبہ تنظیمی طور پر پیچیدہ ہے، معاہدوں پر عملدرآمد یا جائیداد کے حقوق کا تحفظ مؤثر طریقے سے نہیں کر سکتا، جس کی وجہ اس کی کارکردگی کے مسائل، فرسودہ قوانین اور ججوں اور عدالتی عملے کی دیانت داری سے متعلق خدشات ہیں۔

آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ تمام سرکاری خریداریوں میں ریاستی اداروں (ایس او ایز) کو دی جانے والی ترجیحات، بشمول براہِ راست ٹھیکے دینے کی خصوصی دفعات ختم کی جائیں، 12 ماہ کے اندر تمام سرکاری لین دین کے لیے ای-گورننس پروکیورمنٹ کا استعمال لازمی بنایا جائے۔

رپورٹ میں ایس آئی ایف سی کی پہلی سالانہ رپورٹ فوراً تیار کرنے اور عوام کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، جس میں اس کے ذریعے کرائی گئی تمام سرمایہ کاریوں، دی گئی مراعات (ٹیکس، پالیسی، ضابطہ جاتی یا قانونی)، تفصیلی جواز اور نتائج شامل ہوں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایس آئی ایف سی کے وسیع اور متنوع اختیارات کے پیش نظر ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں کے لیے واضح طریقۂ کار تیار کرے اور شفافیت بڑھائی جائے تاکہ مؤثر نگرانی اور احتساب ممکن ہو سکے۔

رپورٹ نے ایس آئی ایف سی کے قیام اور اس کے عملے کو فیصلوں میں حاصل استثنیٰ پر بھی سوالات اٹھائے، بتایا گیا کہ کونسل سرمایہ کاری اور نجکاری کی رفتار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری بورڈ (بی او آئی) کے قانون میں ترمیم کے ذریعے قائم کی گئی، لیکن بی او آئی اب بھی موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق بدعنوانی کے خطرات کا مالیاتی کارکردگی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے، دیگر عوامل کے باوجود پاکستان کا ٹیکس-جی ڈی پی تناسب کم اور گرتا ہوا ہے، جس کی اہم وجوہات ٹیکس نظام کی پیچیدگی، قواعد میں بار بار تبدیلی اور حکومت پر کم عوامی اعتماد ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت کے پاس عوامی وسائل کے استعمال میں وسیع صوابدیدی اختیارات موجود ہیں، کیونکہ بجٹ میں منظور شدہ رقوم اور اصل اخراجات میں بڑا فرق ہے، جب کہ بجٹ امور میں عوامی شفافیت اور پارلیمانی شمولیت محدود ہے۔

صوابدیدی رقوم زیادہ تر ان اضلاع کو دی جاتی ہیں، جن کی نمائندگی حکومت یا اعلیٰ بیوروکریسی کرتی ہے، جس سے سیاسی اثر و رسوخ کا امکان بڑھ جاتا ہے، اس کا نتیجہ عوامی سرمایہ کاری پر کم منافع کی صورت میں نکلتا ہے۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ایس ا ئی ایف سی رپورٹ کے مطابق سرمایہ کاری آئی ایم ایف جی سی ڈی اے کا مطالبہ رپورٹ میں کے خطرات کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

رشوت کے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں،اے سی سی اے کی نئی رپورٹ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(کامرس رپورٹر)ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس( اے سی سی اے) کی جانب سے ایک نئی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق، ایشیا پیسیفک بھر کی تنظیمیں ایک مختلف اور تیزی سے بدلتی ہوئی دھوکہ دہی کی صورتِ حال سے نمٹ رہی ہیں، جس میں خریداری کے فراڈ (÷34)، رشوت اور بدعنوانی (÷20) اور کرپٹو فراڈ و ای ایس جی کی غلط بیانی جیسے مسائل شامل ہیں۔ ڈیجیٹل ادائیگیوں اور سپر ایپ پلیٹ فارمز میں تیز جدت نے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے، جبکہ اے آئی پر مبنی فریب کاری خطے میں دھوکہ دہی کی رفتار اور تکنیکی مہارت دونوں کو بڑھا رہی ہے۔ ایشیا پیسیفک کی کئی مارکیٹوں میں دھوکہ دہی سے متعلق کھل کر گفتگو کو بے وفائی سمجھا جاتا ہے، جب کہ روایتی درجہ بندی پر مبنی ماحول میں خفیہ طور پررپورٹنگ کی اب بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس لیے تفتیش کاروں کی آزادی اور انتقامی کارروائی سے بچاؤ کے واضح تحفظات نہایت اہم ہیںخصوصاً جونیئر عملے کے لیے، جنہوں نے سب سے زیادہ تشویش کا اظہار کیا جبکہ ثقافتی عوامل اب بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔دنیا بھر سے 2,000 سے زائد پیشہ ور افراد اور 31 گول میزکانفرنسزکے نتائج پر مبنی یہ مطالعہ جو انٹرنیشنل فراڈ اویئرنیس ویک کے دوران جاری کیا گیااس بات پر زور دیتا ہے کہ رویّہ جاتی خطرات کے جائزے اداروں کے اندر شامل کیے جائیں اور دھوکہ دہی کی روک تھام کو مقامی ثقافتی حقائق کے مطابق مربوط کیا جائے۔ صرف روایتی کنٹرول ایسے ماحول میں کافی نہیں جہاں تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی مالی، تجارتی اور صارفین کے نظام کو تبدیل کر رہی ہو۔علاقائی سروے میں رپورٹنگ کے عمل کی آسانی کا اوسط اسکور 3.82/5رہا، جبکہ جونیئر عملہ بدلے کی کارروائی کے خطرے پر سب سے زیادہ فکرمند نظر آیا، جو طاقت کے عدم توازن اور نیچے سے اوپر رپورٹنگ میں رکاوٹوں کو واضح کرتا ہے۔ جواب دہندگان نے ثقافتی طور پر حساس حکمرانی، عمل کی شفافیت اور قیادت کی سطح پر جوابدہی کی اہمیت پر زور دیا۔ACFE، IIA، CISI، ISC2، Airmic اور ACi کے ساتھ تعاون میں تیار کردہ اس رپورٹ میں ایک نیا Prevalence vs Materiality Matrix پیش کیا گیا ہے جو اداروں کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد دیتا ہے کہ وسائل کو کہاں ترجیحی بنیادوں پر لگایا جائے اس سے پہلے کہ دھوکہ دہی نقصانات کا باعث بنے۔ رپورٹ کا ساتھی حصہ ”Calls to Action” اور ”Thematic Typology” اداروں کو اس بات پر نئی رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ کون سے طریقے مؤثر ہیں، کون سے نہیںاور سب سے بڑھ کر یہ کہ رویّہ جاتی عوامل کے خطرات سے کیسے نمٹا جائے تاکہ دھوکہ دہی کی روک تھام محض کاغذی کارروائی نہ رہے بلکہ عملی حقیقت بن سکے۔اہم علاقائی نتائج میںخریداری میں دھوکہ دہی (÷34) اور رشوت و بدعنوانی (÷20) ایشیا پیسیفک کے بڑے خطرات میں شامل ہیں۔کرپٹو فراڈ اور ای ایس جی کی غلط بیانی تیزی سے ڈیجیٹل ہوتی مارکیٹوں میں نئے ابھرتے ہوئے چیلنجز ہیں۔اے آئی پر مبنی فریب کاری دھوکہ دہی کی رفتار بڑھا رہی ہے اور روایتی کنٹرولز کو چیلنج کر رہی ہے۔رپورٹنگ کی آسانی کا اوسط اسکور 3.82/5ہے، جبکہ جونیئر عملہ بدلے کے خوف کا سب سے زیادہ شکار ہے۔تفتیش کاروں کی آزادی، رپورٹنگ پالیسیوں کی وضاحت اور ثقافتی طور پر حساس فریم ورک اعتماد پر مبنی رپورٹنگ کے اہم عوامل ہیں۔دھوکہ دہی کی روک تھام کے لیے خطے کی درجہ بندی پر مبنی ثقافت، سماجی رویّوں اور بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل ماحول کے مطابق حکمتِ عملی اپنانا ضروری ہے۔ اے سی سی اے کی پالیسی و انسائٹس ٹیم میں رسک مینجمنٹ اور کارپوریٹ گورننس کی سربراہ ریچل جانسن نے کہا” ایشیا پیسیفک میں دھوکہ دہی کے خطرات اتنے ہی ثقافت کی پیداوار ہیں جتنے ٹیکنالوجی کی۔ڈیجیٹل جدت بے پناہ مواقع فراہم کرتی ہے، لیکن یہ غلط معلومات اور فریب کاری کو بھی تیزی سے بڑھاتی ہے۔ اداروں کو سمجھنا ہوگا کہ کس طرح درجہ بندی پر مبنی ماحول اور بدلے کا خوف شفافیت کو محدود کرتا ہے، اور محفوظ، قابلِ اعتماد رپورٹنگ کے راستے میں ثقافتی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔”ڈائریکٹر ایشیا پیسیفک اے سی سی اے پلکت اَبرول نے کہا” اے سی سی اے ایشیا پیسیفک میں دھوکہ دہی سے نمٹنے کے لیے ثقافتی طور پر ہم آہنگ حل درکار ہیں۔تفتیش میں آزادی، رویّہ جاتی خطرات کا جائزہ، اور واضح رپورٹنگ فریم ورک ضروری ہیں تاکہ ادارے تیزی سے بدلتے ہوئے ڈیجیٹل اور عملی خطرات کا مقابلہ کر سکیں۔”رپورٹ اجتماعی سطح پر نئے سرے سے سوچنے کی درخواست کرتی ہے، تاکہ ادارے پیشگی نشاندہی کو مضبوط کریں، جوابدہی کو فروغ دیں اور حکمرانی کے ڈھانچے کو خطے کے رویّہ جاتی حقائق کے مطابق ڈھالیں۔ رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ جدید دور کی دھوکہ دہی کی روک تھام کے لیے کراس-فنکشنل تعاون، ثقافتی طور پر حساس نگرانی، اور دیانت داری کو ڈیجیٹل، تنظیمی اور سپلائی چین کے نظام میں بھرپور طریقے سے شامل کرنا ناگزیر ہے۔

کامرس رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • کرپشن پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وزارت خزانہ نے رپورٹ جاری کردی
  • آئی ایم ایف کو پاکستان میں مسلسل بدعنوانی کے خدشات، گورننس اینڈ کرپشن رپورٹ جاری
  • آئی ایم ایف کی پاکستان میں گورننس اور بدعنوانی سے متعلق رپورٹ جاری
  • کرپشن پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے؛ وزارت خزانہ کی رپورٹ
  • پاکستان 5 برس میں اصلاحات پر عمل کر لے تو جی ڈی پی میں 26 ارب ڈالر اضافہ ہو سکتا ہے: آئی ایم ایف رپورٹ
  • وزیراعظم نے ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچاؤ کے قلیل مدتی منصوبے کی منظوری دیدی،فوری عملدرآمد شروع کرنے کی ہدایت
  • رشوت کے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں،اے سی سی اے کی نئی رپورٹ
  • توانائی کے شعبے کی تنظیمِ نو، سرکاری اداروں کی نجکاری، گورننس میں بہتری پر توجہ ہے، وزیر خزانہ
  • پاکستان کے مستقبل کو خطرات! نئی رپورٹ میں سنگین موسمی بحرانوں کی پیشگوئی