شادی سے پہلے منی اسکرٹ پہنتی تھی، بعد میں برقع بھی پہنا، فریال گوہر
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
کراچی (نیوزڈیسک)ماضی کی مقبول اداکارہ فریال گوہر نے کہا ہے کہ شادی سے قبل وہ مغربی طرز کا لباس اور عام طور پر منی اسکرٹ پہنتی تھیں لیکن شادی کے بعد انہوں نے برقع بھی پہنا۔
فریال گوہر نے حال ہی میں ندا یاسر کے مارننگ شو میں شرکت کی، جہاں انہوں اپنی ذاتی زندگی پر کھل کر گفتگو کی۔
پروگرام کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کی پیدائش حالیہ بھارتی ریاست گجرات میں ہوئی تھی لیکن ان کے آباؤ و اجداد 1910 سے قبل ہی جنوبی افریقہ منتقل ہوگئے تھے اور ان کی والدہ وہیں پلی، بڑھیں، بعد ازاں برطانیہ منتقل ہوئیں۔
ان کے مطابق ان کے والد فوج میں تھے اور قیام پاکستان کے بعد ان کے والد برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات ہوئے، جہاں ان کی ملاقات ان کی والدہ سے ہوئی اور دونوں نے شادی کرلی۔
ان کا کہنا تھا کہ والدہ بھی مغربی ممالک اور تہذیبوں میں رہنے کی وجہ سے بولڈ لباس پہنتی تھیں، اسی وجہ سے وہ بھی کم عمری میں بولڈ، مختصر اور مغربی انداز کا لباس پہنتی تھیں۔
فریال گوہر نے بتایا کہ ان کے والد کو گردوں کی بیماری ہوئی، جس وجہ سے انہوں نے فوج سے ملازمت بھی چھوڑی اور جوانی میں ہی انتقال کر گئے۔
اداکارہ نے بتایا کہ 1965 میں پاک-بھارت جنگ کے دوران پنجاب میں ان کے والد کی ملکیت کو دشمن ملک کی فوج نے جلایا، نقصان پہنچایا، جس کے بعد ان کی والدہ نے محنت کرکے ان کی پرورش کی۔
انہوں نے کہا کہ والد کے انتقال کے بعد بھی لاہور کینٹ میں ان کا 35 کینال کا شاندار گھر تھا اور زمانہ طالب علمی میں جب ان کی عمر 17 برس تھی، تب انہیں پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) میں مختصر کردار کی پیش کش ہوئی اور اسکرین پر صرف ان کا ہاتھ دکھایا گیا۔
اداکارہ کے مطابق بعد ازاں انہیں مزید کام کی پیش کش ہوئی اور ابتدائی طور پر انہوں نے ہاتھوں کی ماڈلنگ کی، بعد ازاں ڈراموں میں بھی کام کرنا شروع کیا اور وہیں ان کی ملاقات اداکار جمال شاہ سے ہوئی، جن سے انہوں نے شادی کرلی۔
ایک سوال کے جواب میں فریال گوہر نے بتایا کہ وہ جمال شاہ کے ڈمپل پر فدا ہوگئی تھیں اور ان سے شادی کر بیٹھی، ان کے عشق میں انہوں نے برقع بھی پہنا۔
فریال گوہر کے مطابق جمال شاہ کا خاندان تنگ نظر تھا، پہلے وہ منی اسکرٹ پہنی تھیں، شادی میں محبت کے بعد برقع بھی پہنا اور شادی کے بعد اداکاری کرنے پر ان کے سسرال والوں نے سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔
انہوں نے سابق شوہر فریال گوہر کی تعریفیں کیں اور کہا کہ وہ نہ صرف خوبصورت آدمی ہیں بلکہ شوقین بھی ہیں۔
انہوں نے طلاق کے اسباب پر مبہم انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ شادی ختم ہونے کا سبب صرف جمال شاہ کا سست ہونا نہیں تھا، بہت ساری اور وجوہات بھی تھیں لیکن انہوں نے وجوہات کا ذکر نہیں کیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
میں نے ہار نہیں مانی
محترمہ شین فرخ گنتی کی ان چند خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی مرضی سے شعبہ صحافت کا انتخاب کیا۔ صحافت کے تمام اتار چڑھاؤ برداشت کیے مگر زندگی کی آخر رمق تک صحافت سے منسلک رہیں۔ ش، فرخ ایک صحافی کے علاوہ ایک ترقی پسند ادیبہ بھی تھیں۔ ش فرخ پنجاب میں پیدا ہوئیں۔
انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے جغرافیہ کے مضمون میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ شین نے پہلے شعبہ تدریس کو اختیار کیا۔ انھیں ساہیوال کے گرلز کالج میں لیکچرار کی ملازمت مل گئی۔ شین فرخ کا تعلق اگرچہ ایک قدامت پرست خاندان سے تھا مگر ان کے والد ایک روشن خیال انسان تھے۔ وہ زندگی میں کچھ کرنا چاہتی تھیں ، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس ملازمت کو خیر آباد کہا اور کراچی چلی آئیں۔
کامرس کے شعبہ میں کمرشل جغرافیہ کے مضمون کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی، یوں انھیں کراچی کے اسلامیہ کالج میں ملازمت مل گئی، مگر وہ جلد ہی اس کام سے اکتا گئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب روزنامہ مشرق کے بانی عنایت اللہ خواتین کا پہلا اخبار ’’ اخبارِ خواتین‘‘ شایع کر رہے تھے۔ اخبارِ خواتین کی پہلی ٹیم میں معروف صحافی فرہاد زیدی، مسرت جبیں اور حسن عابدی بھی شامل تھے۔ فرہاد زیدی اور مسرت جبیں کے کچھ عرصہ بعد عنایت اللہ سے اختلافات پیدا ہوئے اور پھر ترقی پسند ادیب و دانشور حسن عابدی اخبار کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ حسن عابدی کی زندگی کا بیشتر حصہ بائیں بازو کے معروف دانشور ادیب سید سبط حسن اور عظیم شاعر فیض احمد فیض کی صحبت میں گزرا تھا، یوں حسن عابدی نے اخبار خواتین کو صرف خواتین کی سرگرمیوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اخبار خواتین میں حالاتِ حاضرہ، تاریخ، سماجیات، فلم اور فن کے بارے میں خبریں، آرٹیکلز اور کالمز شایع ہوتے تھے۔
شین فرخ نے بھی اخبار خواتین میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس وقت شمیم اختر، معروف ایکٹیوسٹ انیس ہارون ، زاہدہ حنا، راشدہ حسن اور نوشابہ زبیری بھی اس ٹیم کا حصہ تھیں۔ شین فرخ ترقی کرتے کرتے اس اخبار کے ایڈیٹرکے عہدے پر فائز ہوئیں۔ جب پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں نیشنل پریس ٹرسٹ کو ختم کیا گیا تو اخبار خواتین بھی اس صورتحال کا شکار ہوا۔ شین فرخ کو کراچی سے شایع ہونے والے اخبار روزنامہ مشرق میں سٹی ایڈیٹر کی اسامی کی پیش کی گئی۔ شین فرخ ایک ذہین اور محنت خاتون تھیں۔
وہ کام کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور نہیں کرسکتی تھیں، یوں انھوں نے یہ چیلنج قبول کیا۔ وہ ایسے وقت روزنامہ مشرق کی سٹی ایڈیٹر بنیں جب کراچی شہر شدید بدامنی کا شکار تھا۔ خاص طور پر شام کی شفٹ میں کا م کرنے والے صحافیوں کو شدید دباؤ کا سامنا تھا مگر شین نے بہادری سے اسی طرح فرائض انجام دیتی رہیں جس طرح مرد صحافی انجام دیے تھے۔ انھوں نے گلشن اقبال بلاک 4 میں صحافیوں کو ملنے والے پلاٹ پر ایک گھر تعمیر کیا تھا۔ گلشن اقبال سے شاہراہ فیصل آنا اور جانا ایک مشکل ترین کام تھا۔ شین فرخ مشکل کام کرنے کی عادی تھیں، یوں وہ مشرق میں کام کرتی رہیں۔ شین فرخ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں متحرک رہیں۔
وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب کے مختلف عہدوں پر کئی بار منتخب ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں عظیم صحافی منہاج برنا کی قیادت میں پی ایف یو جے میں کام کرنا اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنا تھا، خاص طور پر نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات میں کام کرنے والوں کے لیے حالات زیادہ خطرناک تھے مگر شین فرخ نے کبھی اس پرواہ نہیں کی۔ شین فرخ ایک ترقی پسند سوچ کی مالک تھیں۔ معروف وکیل عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر مبشر حسن، معروف دانشور آئی اے رحمن، ڈاکٹر ہارون، کرامت علی، انیس ہارون اور محمد تحسین کی طرح وہ اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان مستقل رابطوں اور دوستی سے دونوں ممالک میں غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور یہ خطہ ترقی کی کرسکتا ہے۔
اس لیے وہ پاک انڈیا پیپلز فورم کے پلیٹ فارم پر متحرک رہیں۔ فورم کے اکابرین کی کوششوں سے دونوں ممالک کی حکومتوں نے عام آدمی کے لیے ویزے حاصل کرنے کی سہولت بہت آسان کردی۔ شین فرخ ہمیشہ سے خوب صورت افسانہ نگار کی حیثیت سے معروف تھیں۔ انھوں نے پانچ کے قریب کتابیں تحریر کیں۔ عظیم ادیب انتظار حسین نے ان کی خود نوشت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
دراصل یہ خود نوشت ایک آزاد خیال عورت کی المیہ کہانی کے طور پر زیادہ بہتر پڑھی جا سکتی ہے۔ شین کے دکھ اُس وقت شروع ہوتے ہیں جب اُسے یہ احساس ہوتا ہے کہ خاندانی بندھنوں کی زنجیروں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب وہ ان زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔
شین فرخ نے اپنی زندگی میں ہی بذریعہ وصیت اپنے گھر کو شین فرخ ٹرسٹ بنایا۔ شین نے اپنی خود نوشت میں آخری جملہ یہ لکھا تھا ’’ میں نے ہار نہیں مانی‘‘ یہی سچائی ہے۔