نیکسپریا کے معاملے میں نیڈرلینڈز کی حکومت کو اپنا غلط طرز عمل درست کرنا ہوگا، چینی وزیر تجارت
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
نیکسپیریا کے معاملے میں نیڈرلینڈز کی حکومت کو اپنا غلط طرز عمل درست کرنا ہوگا، چینی وزیر تجارت
بیجنگ : چینی وزیر تجارت وانگ ون تھاؤ نے جرمنی کی وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور اور توانائی کیتھرینا ریچ کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کی۔ وانگ ون تھاؤ نے کہا کہ نیکسپیریا کے مسئلے کی بنیادی وجہ نیڈرلینڈز کی حکومت کی جانب سےکاروباری ادارے کے اندرونی معاملات میں غلط مداخلت ہے۔ عالمی سیمی کنڈکٹر سپلائی چین میں افراتفری کی پوری ذمہ داری نیڈرلینڈز پر عائد ہوتی ہے۔
چین نے معیار پر پورا اترنے والی برآمدات کو استثنیٰ دیا اور مختصر مدت میں عالمی سپلائی چینز پر دباؤ کو کم کر دیا ہے۔لیکن عالمی سیمی کنڈکٹر سپلائی چین کے طویل مدتی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ڈچ حکومت کو اپنا غلط طرزعمل درست کرکے متعلقہ اقدامات کو منسوخ کرنے کے لئے جلد از جلد ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ جرمنی مثبت کردار ادا کرے گا۔ کیتھرینا ریچ نے کہا کہ جرمن حکومت چین کے ساتھ باہمی فائدہ مند تعاون کو مزید گہرا کرنے اور دوطرفہ تجارت کو زیادہ متوازن اور پائیدار بنانے کی خواہاں ہے۔ جرمنی نیکسپیریا کے معاملے کو بہت توجہ دیتاہے اور ہالینڈ کے ساتھ رابطے کو مضبوط بنانے کے لیے تیار ہے۔ اسی دن، چین کی وزارت تجارت کے ترجمان نے امریکہ کی جانب سے برآمدی کنٹرول میں پینیٹریشن رولز کو معطل کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکا کی جانب سے کوالالمپور میں چین-امریکہ تجارتی مشاورت میں طے پانے والے اتفاق رائے کو نافذ کرنے کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔ چین امریکہ کے ساتھ بات چیت اور تبادلوں کو مضبوط بنانے، اختلافات کو مناسب طریقے سے سنبھالنے کے لئے تیار ہے تاکہ مشترکہ طور پر دونوں ممالک کے کاروباری اداروں کے درمیان باہمی فائدہ مند تعاون کو فروغ دیا جائے اور عالمی صنعتی اور سپلائی چین کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے سازگار حالات پیدا کئے جائیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سپلائی چین کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
حکومت کا سیمی کنڈکٹر چِپ منصوبہ کیا ہے، یہ کتنا موثر ثابت ہوگا؟
حکومتِ پاکستان کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں تاریخی پیش رفت ہوئی ہے۔ سیمی کنڈکٹر چِپ ڈیزائن اور ریسرچ کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس منصوبہ کو ملک کو عالمی ٹیکنالوجی مارکیٹ میں جگہ دلانے اور معیشت کو ڈیجیٹل بنیادوں پر استوار کرنے کی ایک اہم کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں 7200 افراد کو ٹریننگ دی جائے گی۔
سیمی کنڈکٹر چپ آخر ہے کیا؟سیمی کنڈکٹر چِپ ایک چھوٹی سی الیکٹرانک چپ ہوتی ہے جو بجلی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کا کام کرتی ہے۔ یہ چِپ تقریباً ہر الیکٹرانک آلے جیسے موبائل فون، کمپیوٹر، گاڑی، ٹی وی، یا حتیٰ کہ جدید گھریلو مشینوں کا ’دماغ‘ سمجھی جاتی ہے۔
اس منصوبے کے لیے حکومت نے ابتدائی مرحلے میں تقریباً 4.8 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ اس کا مقصد نوجوانوں کو چِپ ڈیزائن، ویریفکیشن اور سسٹم انجینئرنگ کی تربیت دینا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ملک کی مختلف جامعات میں جدید ’انٹیگریٹڈ سرکٹ لیبارٹریز‘ قائم کی جائیں گی، جہاں ریسرچ اور پروڈکشن کے لیے جدید سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
وزیرِ اطلاعات و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ خواجہ نے ایک تقریب میں کہا کہ پاکستان کو اب سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی میں قدم رکھنا ہوگا کیونکہ مستقبل کی معیشت اسی صنعت پر منحصر ہے۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اس شعبے کی تربیت حاصل کریں تاکہ پاکستان عالمی چِپ سپلائی چین کا حصہ بن سکے۔
یہ منصوبہ کتنے مراحل پر مشتمل ہے؟یہ 3 مراحل پر مشتمل جامع پروگرام ہے، جس کا پہلا مرحلہ ‘انسپائر’ (انیشی ایٹو ٹو نرچر سیمی کنڈکٹر پروفیشنلز فار انڈسٹری، ریسرچ اینڈ ایجوکیشن) ہے، جو انسانی وسائل کی تربیت پر مرکوز ہے اور اسے 4.5 سے 4.8 بلین روپے کی عوامی شعبہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) فنڈنگ سے شروع کیا گیا ہے۔
منصوبے کے مطابق حکومت فی الحال چِپ ڈیزائن اور تحقیق پر توجہ دے رہی ہے، جبکہ آئندہ مرحلے میں اسمبلی، پیکجنگ اور ٹیسٹنگ فیسلٹیز قائم کرنے کا منصوبہ بھی زیرِ غور ہے۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے پائیدار سمجھا جاتا ہے، کیونکہ چِپ مینوفیکچرنگ کی فیکٹریاں (فَبز) اربوں ڈالر کی لاگت اور تکنیکی پیچیدگی کی متقاضی ہوتی ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے قومی سیمی کنڈکٹر ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر نوید شیروانی نے بتایا کہ یہ نقشہ پاکستان کو عالمی سپلائی چین میں شامل کرے گا، جہاں سیمی کنڈکٹرز اسمارٹ فونز سے لے کر سیٹلائٹس اور الیکٹرک وہیکلز تک کی بنیاد ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت 2030 تک 1,000 سیمی کنڈکٹر انجینئرز کی تربیت کا ہدف رکھا گیا ہے، جبکہ مجموعی طور پر 7,200 پروفیشنلز کو فائیو ایئرز میں ڈیزائن، ویریفکیشن، اور ریسرچ میں مہارت دی جائے گی، جو نہ صرف ہزاروں ہائی سکلڈ جابز پیدا کرے گا بلکہ 10 بلین روپے کے نیشنل سیمی کنڈکٹر فنڈ کے ذریعے اسٹارٹ اپس کو گراںٹس اور وینچر کیپیٹل بھی فراہم کرے گا۔
دوسرا مرحلہ آؤٹ سورسڈ اسمبلی اینڈ ٹیسٹنگ (او ایس اے ٹی) پر مرکوز ہے، جو اگلے دہائی کے اندر (2035 تک) شروع ہوگا اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی مدد سے چپس کی پیکیجنگ اور ٹیسٹنگ کی صلاحیت پیدا کرے گا، جس کے لیے گلوبل پارٹنرشپس اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی ضرورت ہوگی، جبکہ خصوصی ٹیکنالوجی زونز (ایس ٹیز) میں ٹیکس چھوٹ اور انفراسٹرکچر سپورٹ دی جائے گی۔
تیسرا اور سب سے اعلیٰ مرحلہ فل فلیجڈ فیبریکیشن ہے، جو مکمل ٹیکنالوجیکل سوورینٹی کی طرف لے جائے گا اور پاکستان کو اپنے سیمی کنڈکٹرز خود تیار کرنے کا موقع دے گا، حالانکہ اس کے لیے بھاری فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ اور انٹرنیشنل کوآپریشنز جیسے انٹیل، این ویڈیا، اور ٹی ایس ایم سی کے ساتھ اشتراک کی ضرورت ہوگی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ مؤثر انداز میں مکمل کیا گیا تو پاکستان نہ صرف الیکٹرانکس، مصنوعی ذہانت (AI) اور ڈیجیٹل سسٹمز میں خود کفیل ہو سکے گا بلکہ ٹیکنالوجی کی برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کر سکے گا۔ اس کے علاوہ، ہزاروں نوجوان انجینئرز اور محققین کو مقامی طور پر روزگار اور ترقی کے مواقع میسر آئیں گے۔
تاہم، چیلنجز بھی کم نہیں۔ ماہرین کے مطابق اس منصوبے کی کامیابی کے لیے طویل المدتی پالیسی، بین الاقوامی تعاون، اور تعلیمی نصاب میں جدت ضروری ہے۔ اگر حکومت اس منصوبے کو تسلسل اور شفافیت کے ساتھ آگے بڑھائے تو پاکستان خطے میں ایک اہم ٹیکنالوجی حب کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
سویڈن میں الیکٹرانکس کے شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے والے طالبِ علم محمد افضل حمید کا کہنا تھا کہ
حکومتِ پاکستان کا سیمی کنڈکٹر چِپ منصوبہ یقیناً ایک تاریخی اور امید افزا قدم ہے جو ملک کو ڈیجیٹل معیشت کی سمت لے جا سکتا ہے، مگر اس کی کامیابی کئی عوامل پر منحصر ہے۔ منصوبے کی سمت درست ضرور ہے، کیونکہ سیمی کنڈکٹرز مستقبل کی عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اس راستے میں مالی، تکنیکی اور انتظامی چیلنجز کم نہیں۔ ابتدائی طور پر 7200 افراد کی تربیت اور 1000 انجینئرز تیار کرنے کا ہدف مثبت ہے، مگر جب تک مقامی صنعت اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے جاتے، یہ تربیت یافتہ افرادی قوت بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہو سکتی ہے۔ اسی طرح، فیبریکیشن پلانٹس کی تعمیر کا ہدف فی الحال ایک طویل المدتی خواب دکھائی دیتا ہے جس کے لیے بین الاقوامی سرمایہ کاری، جدید انفراسٹرکچر اور پالیسی کے تسلسل کی ضرورت ہے۔
فنڈنگ کے اعلان کے باوجود شفافیت، کارکردگی اور تحقیقاتی اداروں کی اصلاحات ناگزیر ہیں، کیونکہ ماضی میں ایسے منصوبے انتظامی کمزوریوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اگر حکومت اس پروگرام کو صرف اعلانات تک محدود رکھنے کے بجائے عملی بنیادوں پر شفاف، پائیدار اور عالمی شراکت داری کے ساتھ آگے بڑھائے، تو پاکستان واقعی خطے میں ایک ابھرتا ہوا ٹیکنالوجی حب بن سکتا ہے اور سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں خود کفالت حاصل کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ منصوبہ حکومت کی اُس وسیع حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت پاکستان کو “ڈیجیٹل معیشت” کی راہ پر گامزن کرنے اور نوجوان نسل کو مستقبل کی عالمی منڈی کے لیے تیار کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں