کرپشن پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وزارت خزانہ نے رپورٹ جاری کردی
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارتِ خزانہ نے ایک تکنیکی رپورٹ جاری کی ہے جس کی تکمیل آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے پہلے پاکستان کے لیے انتہائی ضروری قرار دی گئی تھی۔
گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں پہلی بار جامع اور تفصیلی انداز میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ کرپشن پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی کی سب سے بڑی اور دیرینہ رکاوٹ ہے، جس نے ریاستی نظام کو نہ صرف کمزور کیا بلکہ ملکی معیشت کی سمت کو مسلسل متاثر رکھا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان بار بار آئی ایم ایف پروگرامز میں شامل ہوتا ہے، مگر بنیادی مسائل وہیں کے وہیں موجود رہتے ہیں جن کی جڑیں کمزور گورننس اور غیر مؤثر احتساب میں پیوست ہیں۔
رپورٹ میں ٹیکس نظام، سرکاری اخراجات، عدالتی ڈھانچے اور احتسابی اداروں میں موجود سنگین کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ طاقتور افراد اور سرکاری اداروں سے منسلک گروہ بدعنوانی کی بدترین اور خطرناک ترین شکل ہیں۔ یہ عناصر نہ صرف فیصلہ سازی میں اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ پالیسیوں کو اپنے مفاد میں موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جس کا براہ راست نقصان عوام اور ملکی اداروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کرپشن کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جس کی وجہ سے پاکستان معیارِ زندگی کے اعتبار سے ہمسایہ ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق حکومتی فیصلہ سازی میں شفافیت کا فقدان قومی ترقی کی رفتار گھٹا رہا ہے جبکہ احتساب کے اداروں کی کمزور کارکردگی نے پورے نظام پر عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
رپورٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ نیب سمیت تمام اینٹی کرپشن اداروں کو بااختیار، جدید اور مؤثر بنانے کی فوری ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ صورتحال میں احتساب غیر مستقل اور غیر منصفانہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کمزوری کے باعث کاروباری طبقہ بھی عدم اعتماد کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ 11.
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کرپشن کی وجہ سے سرکاری اخراجات غیر مؤثر ہو جاتے ہیں، ٹیکس نیٹ محدود رہ جاتا ہے اور عدالتی نظام پر اعتماد کمزور پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں جوابدہی کا مؤثر نظام نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ بینکنگ سیکٹر کی نگرانی، مارکیٹ ریگولیشن اور کاروباری قوانین میں ایسی پیچیدگیاں موجود ہیں جو سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نجی شعبہ حکومتی پابندیوں کے باعث اپنی مکمل صلاحیت استعمال نہیں کر پا رہا اور غیر ملکی تجارت کے ضابطے ضرورت سے زیادہ سخت ہو چکے ہیں۔
گورننس کو بہتر بنانے کے لیے رپورٹ میں شفاف، واضح اور جدید قوانین متعارف کروانے کی سفارش کی گئی ہے۔
عوام اور کاروباری طبقے کو آسان معلومات کی فراہمی کے لیے اوپن ڈیٹا سسٹم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پالیسی سازی میں اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت بڑھانا ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کاروباری ریگولیشن کو مکمل طور پر ڈیجیٹل بنانے، غیر ملکی تجارت کے طریقہ کار میں بنیادی اصلاحات لانے، اور نجی شعبے کو زیادہ اختیارات دینے کی سفارش بھی کی گئی ہے تاکہ حکومتی مداخلت کم ہو سکے۔
رپورٹ کے مطابق اگر ان سفارشات پر مؤثر عمل درآمد کیا جائے تو پاکستان اپنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 5 سے 6.5 فیصد تک اضافہ کرسکتا ہے، جس سے نہ صرف سرمایہ کاری بڑھے گی بلکہ کرپشن میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔
یہ رپورٹ آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے پروگرام کا باقاعدہ حصہ ہے، جو حکومتِ پاکستان کی درخواست پر عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے آٹھ ماہ کے دوران تیار کی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ حالیہ حکومتی اقدامات سے معیشت میں مجموعی استحکام، زرمبادلہ ذخائر میں بہتری، مہنگائی میں کمی اور پرائمری سرپلس میں اضافہ سامنے آیا ہے، تاہم کرپشن کے خاتمے اور گورننس میں بہتری ہی وہ بنیاد ہے جو پاکستان کی مستقبل کی معاشی ترقی کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی رپورٹ میں سب سے بڑی کہ کرپشن ہے رپورٹ کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
توانائی کے شعبے کی تنظیمِ نو، سرکاری اداروں کی نجکاری، گورننس میں بہتری پر توجہ ہے، وزیر خزانہ
وفاقی وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت مسابقتی ٹیرف نظام، توانائی کے شعبے کی پائیداری اور نجی شعبے کی زیادہ شمولیت کے لیے پرعزم ہے، ٹیکسیشن، توانائی کے شعبے کی تنظیمِ نو، سرکاری اداروں کی نجکاری، گورننس میں بہتری اور وفاقی اخراجات کومعقول بنانے پرتوجہ دی جاری ہے۔
وزیرخزانہ نے ان خیالات کا اظہار پیٹر تھیل اور آورِن ہافمین کی قائم کردہ عالمی لیڈر شپ پلیٹ فارم ڈائیلاگ کے اعلیٰ سطح کے وفد سے تفصیلی ملاقات میں کیا۔
وفد کی قیادت سفیر علی جہانگیر صدیقی نے کی ،وفد میں بین الاقوامی سطح کی ممتاز شخصیات شامل تھیں جن میں برطانوی دارلامرا کے رکن سائمن اسٹیونز ، آسٹرین پارلیمان کے رکن وائٹ ویلَنٹین ڈینگلر، جیگ سا گوگل کی سی ای او یاسمین گرین ،ایکس باکس مائیکروسافٹ کی وائس پریزیڈنٹ فا طمہ کاردار ،ملٹی فیتھ الائنس کے سی ای اوشیڈی مارٹینی، ایجوکیشنل سپرہائی وے کے سی ای اوایوان مارویل اورناروے کے رکن پارلیمان ہیمانشوگلاٹی شامل تھے۔
وزیر خزانہ نے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ کی مسلسل شمولیت خصوصاً 2024 کے پہلے ڈائیلاگ پاکستان وینٹر کے بعد سے جاری تعاون کو سراہا اورکہاکہ اس سے پاکستان کے اقتصادی منظرنامے اور سرمایہ کاری کی صلاحیت سے متعلق عالمی سطح پر سمجھ کو بہتر بنانے میں مددملی ہے۔
سفیر علی جہانگیر صدیقی نے وفد کا تعارف کروایا، جس کے بعد وزیر خزانہ نے وفد کو جامع بریفنگ دی۔
وزیر خزانہ نے گزشتہ 18 ماہ کے دوران پاکستان میں کلی معیشت کے استحکام پرروشنی ڈالی اورکہا کہ اہم معاشی اشاریوں میں بہتری کی وجہ سے کریڈٹ ریٹنگ کی تین بین الاقوامی ایجنسیوں فچ ، ایس اینڈ پی اورموڈیز نے پاکستان کی درجہ بندی میں اضافہ کیا،
معاشی استحکام کی وجہ سے پاکستان اوربین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت دوسرا جائزہ کامیابی سے مکمل ہواہے اورسٹاک سطح کامعاہدہ ہوچکا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے پروگرام میں بھی پیش رفت ہوئی ہے، اس سے ملکی معیشت پربین الاقوامی اعتماد کی عکاسی ہورہی ہے۔
وزیرخزانہ نے بہتر ہوتے ہوئے جیوپولیٹیکل حالات، امریکا ، چین اور سعودی عرب کے ساتھ مضبوط ہوتے تعلقات، اور سی پیک فیز 2.0 کے آغاز پر روشنی ڈالی اورکہاکہ یہ بزنس ٹو بزنس سرمایہ کاری، برآمدات پر مبنی صنعتی زونز اور مشترکہ منصوبوں پر مرکوز ہے۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ مختلف شعبوں میں ڈھانچہ جاتی پروگرام پرعمل درآمدجاری ہے، ٹیکسیشن، توانائی کے شعبے کی تنظیمِ نو، سرکاری اداروں کی نجکاری، گورننس میں بہتری اور وفاقی اخراجات کومعقول بنانے پرتوجہ دی جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع اور گہرا کرنے، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت پرمبنی نگرانی کے کے نفاذ، کم ضابطے والے شعبوں جیسے رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ہول سیل؍ریٹیل کو ٹیکس نیٹ میں لانے، اور ٹیکس کی تعمیل میں بہتری کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے پنشن اصلاحات میں پاکستان کی پیش رفت، نئے ملازمین کے لیے کنٹریبیوٹری اسکیمز کی جانب منتقلی، اور طویل مدتی مالی ذمہ داریوں کے حل کے لیے آئندہ اقدامات پر بھی روشنی ڈالی۔
توانائی کے شعبے میں اصلاحات کاذکرکرتے ہوئے وزیرخزانہ نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں گورننس میں بہتری، نقصانات میں کمی کی کوششوں، بورڈز میں نجی شعبے کی نمائندگی، اور نجکاری کے ازسرنو فعال کیے گئے منصوبوں کا ذکر کیا۔
انہوں نے مسابقتی ٹیرف نظام، توانائی کے شعبے کی پائیداری اور نجی شعبے کی زیادہ شمولیت کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔
سوال و جواب کے سیشن کے دوران وزیر خزانہ نے پاکستان کی امریکا کے ساتھ ٹیرف مذاکرات ، قرضوں کے رحجان ، بینکاری کے ضابطوں،سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچہ میںسرمایہ کاری اور طویل مدتی ترقی کے باہمی تعلق سے متعلق سوالات کے تفصیلی جوابات دیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان آئندہ برس بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹس میں دوبارہ داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں پانڈا بانڈز کے ممکنہ اجرا اور مقامی مالیاتی منڈیوں کو وسعت دینے کے لیے مختلف اقدامات شامل ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کافائدہ اور ساتھ ہی کان کنی، زراعت، آئی ٹی، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، دواسازی اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں جاری اصلاحات، ملک کو طویل مدتی، نجی شعبے کی قیادت میں ترقی کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کررہی ہے ۔
انہوں نے ڈائیلاگ کے عالمی لیڈر شپ نیٹ ورک کے ساتھ مسلسل رابطے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ بین الاقوامی شراکت داریوں کو مضبوط بنانے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول، اور پاکستان میں اصلاحات کے ایجنڈے کو عالمی سطح پر بااثر حلقوں تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔