انوکھا دھرنا: جب اصولوں کی جدوجہد نے 3600 ارب بچا لیے
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251114-03-4
میر بابر مشتاق
بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں (سورۂ الرعد، آیت: 11) تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی نجات نہ بند کمروں میں ہونے والے فیصلوں سے آتی ہے، نہ عالمی امداد سے۔ حقیقی تبدیلی تب آتی ہے جب اصولی قیادت عوامی شعور کے ساتھ کھڑی ہو۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے پر مسلط استحصالی نظام کے خلاف حالیہ عوامی دھرنا اسی سچائی کی علامت بن کر ابھرا جب ایک مخلص انجینئر، ایک بیدار تحریک، اور ایک اصولی جدوجہد نے مل کر قومی خزانے کو 3600 ارب روپے کے نقصان سے بچا لیا۔ یہ محض احتجاج نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا جو عوام کی محنت کی کمائی کو چند نجی کمپنیوں کے منافع میں تبدیل کر رہا تھا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں مختلف حکومتوں نے تقریباً چالیس نجی بجلی گھروں (IPPs) سے ایسے معاہدے کیے جن کے تحت وہ بجلی پیدا کیے بغیر بھی ’’کیپیسٹی چارجز‘‘ کے نام پر اربوں روپے ماہانہ وصول کرتے رہے۔ یعنی اگر بجلی کی طلب کم بھی ہو، تو عوام کو ان کمپنیوں کو ادائیگی لازمی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گردشی قرضہ 2800 ارب سے تجاوز کر گیا، جبکہ بجلی عوام کے لیے عذاب بن گئی۔ ہر سال تقریباً 800 ارب روپے انہی کمپنیوں کو ادا کیے جاتے رہے، اور حیرت یہ کہ ملک میں ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہونے کے باوجود کئی پلانٹس بند پڑے رہے۔ عوام کو دوہرا نقصان اٹھانا پڑا۔ ایک طرف وہ مہنگی بجلی خریدتے، دوسری طرف ٹیکس کے ذریعے انہی کمپنیوں کی جیبیں بھرتے۔
اسی پس منظر میں انجینئر نعیم الرحمن نے ایک ہفتے پر مشتمل دھرنے کا اعلان کیا۔ یہ دھرنا کسی سیاسی مفاد، اقتدار یا شہرت کے لیے نہیں تھا، بلکہ خالصتاً اصول اور دیانت کی بنیاد پر عوامی استحصال کے خلاف ایک پرامن مزاحمت تھی۔ ان کا نعرہ واضح تھا: ’’بجلی پیدا کیے بغیر پیسہ لینا چوری ہے، چاہے اسے قانونی زبان میں کچھ بھی کہا جائے‘‘۔ یہ دھرنا اپنی نوعیت کا منفرد احتجاج تھا۔ نہ شور، نہ ہنگامہ، نہ بندوق، نہ پتھر۔ صرف عزم، دلیل، اور ایمان۔ عوامی دباؤ اور میڈیا کی توجہ نے بالآخر حکومت کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر دیا۔ وزارتِ توانائی نے ان معاہدوں پر نظرثانی کا وعدہ کیا، اور بالآخر متعدد کمپنیوں کے غیر منصفانہ مالی فوائد منسوخ کر دیے گئے۔ وزارتِ توانائی کی رپورٹ کے مطابق، اس نظرثانی سے 3600 ارب روپے کی بچت ممکن ہوئی۔ جو پاکستان کے سالانہ ترقیاتی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ یہ رقم ملک کے پانچ بڑے ڈیم تعمیر کرنے یا ہزاروں اسکول اور اسپتال بنانے کے لیے کافی ہے۔
یہ دھرنا دراصل جماعت ِ اسلامی کی طویل فکری اور تحریکی جدوجہد کا تسلسل تھا۔ جب دیگر سیاسی جماعتیں ’’نجکاری‘‘ کے نام پر عوامی وسائل بانٹنے میں مصروف تھیں، جماعت ِ اسلامی ہر فورم پر کہہ رہی تھی کہ توانائی کا بحران مصنوعی ہے۔ ان معاہدوں کے پیچھے بدعنوانی، کمیشن اور عالمی دباؤ کا گٹھ جوڑ ہے۔ جماعت ِ اسلامی نے نہ صرف ان معاہدوں کو چیلنج کیا بلکہ متبادل نظام بھی پیش کیا؛ شمسی توانائی، پن بجلی اور مقامی وسائل کے استعمال کا جامع پلان۔ انجینئر نعیم الرحمن اور ان کے ساتھیوں کا دھرنا اسی فکری جدوجہد کا عملی اظہار تھا۔ جب عوامی دباؤ بڑھا تو سیاسی جماعتیں یا تو خاموش ہو گئیں یا طنز و تمسخر پر اُتر آئیں، کیونکہ اس دھرنے نے ان کے مفادات کو بے نقاب کر دیا تھا۔ اس تحریک نے عوام میں شعور پیدا کیا کہ ان کے مسائل کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم لوٹ مار کا شاخسانہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس دھرنے کو زبردست پذیرائی ملی، ماہرین ِ معیشت نے اسے ’’قومی مفاد میں تاریخی کامیابی‘‘ قرار دیا، اور عوام نے پہلی بار محسوس کیا کہ ان کی آواز نظام بدل سکتی ہے۔ یہ کامیابی صرف رقم کی نہیں بلکہ فکر کی فتح تھی۔ یہ ثابت کر گئی کہ اگر قیادت مخلص ہو اور عوام بیدار ہوں تو بدترین نظام بھی بدل سکتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں یہ اصلاحات اگر برقرار رہیں تو بجلی کے نرخوں میں استحکام اور گردشی قرضوں میں نمایاں کمی ممکن ہے۔
اس دھرنے نے یہ سبق دیا کہ انقلاب گولیوں سے نہیں، اصولوں اور ایمان سے آتا ہے۔ ایک شخص کی سچائی اربوں کا نظام بدل سکتی ہے، بشرطیکہ قوم جاگ جائے۔ آج پاکستان کے سامنے دو راستے ہیں یا تو اس جدوجہد کو ایک واقعہ سمجھ کر بھلا دیا جائے، یا اسے تحریک بنا کر دوسرے شعبوں، جیسے صحت، تعلیم اور انصاف، میں بھی ایسی اصلاحات کی بنیاد رکھی جائے۔ جماعت ِ اسلامی نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ اقتدار نہیں، اصول کی سیاست ہی پائیدار ہوتی ہے۔ اس دھرنے نے قوم کو یاد دلایا کہ اگر ایک شخص خلوصِ نیت سے کھڑا ہو جائے تو پورا نظام لرز سکتا ہے۔ یہ 3600 ارب روپے صرف ایک مالی بچت نہیں! یہ ایک نئی فکری بیداری، ایمانداری کی جیت، اور عوامی شعور کی فتح ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب قوم نے جان لیا کہ تبدیلی ممکن ہے، بشرطیکہ ہم سچ کے ساتھ ڈٹے رہیں۔ ’’یہ قوم اب جاگ رہی ہے۔ اب اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کا وقت ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم اصولوں سے سمجھوتا نہ کریں‘‘۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ارب روپے
پڑھیں:
عدلیہ کو زیر کرنے کا پورا بندوبست کیا گیا، کوئی آئین سے بالاتر نہیں: حافظ نعیم
لاہور،ملتان(نوائے وقت رپورٹ+سپیشل رپورٹر) امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ آئین پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کی ہے۔ کوئی بھی آئین سے بالاتر نہیں، 27 ویں ترمیم سے عدلیہ اقلیت اور حکومت اکثریت میں آ گئی ہے۔ عدلیہ کو زیر اور سرنگوں کرنے کا پورا بندوبست کیا گیا ہے۔ یہ لوگ پہلے بھی عدلیہ کو نہیں مانتے تھے اب بے توقیر کرکے خاتمے پر کمر بستہ ہوگئے ہیں۔ کوئی اور بڑا محاسبے سے مستثنیٰ نہیں۔ یہ ترمیم آئین سے متصادم ہے اورکسی صورت بھی قابل قبول نہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملتان بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صدر ڈسٹرکٹ بار ملک امجد علی ڈوگر، سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار ملک عدنان احمد، صدر اسلامک لائیرز موومنٹ اطہر عزیز ایڈووکیٹ اور صدر آئی ایل ایم ملتان رفیع رضا ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جس ملک میں پارٹیاں وراثت پر چلتی ہوں وہاں آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ملک میں آئین اور جمہوریت کے خلاف نظام چل رہا ہے۔ ہم سب کو بحیثیت قوم جمہوریت کو آگے لے کر چلنا ہے۔ پاکستان میں وکیلوں اور جماعت اسلامی کے انتخابات وقت پر ہوتے ہیں۔ جبکہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اپنی پارٹیوں میں بھی انتخابات نہیں کرواتے۔ہم چاہتے ہیں کہ قوم مافیاز کے چنگل سے نکلے اور اسلام کے عدل و انصاف والے نظام کی طرف آئے۔ انہوں نے کہا کہ 21 تا 23 نومبر کو مینار پاکستان لاہور میں ہونے والا جماعت اسلامی کا کل پاکستان اجتماع عام ظلم کے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی تحریک ہے۔ میں جنوبی پنجاب کے وکلاء اور عوام کو اجتماع عام میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں تاکہ ایک موثر اور کامیاب تحریک کے ذریعے اس ظالمانہ نظام سے نجات حاصل کی جا سکے۔