پاکستان میں کرپشن مستقل چیلنج، سیاسی و معاشی اشرافیہ جیبیں بھر رہی ہے: آئی ایم ایف
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ پاکستان میں کرپشن مستقل چیلنج ہے اور سیاسی اور معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسوں پرقبضہ کرکے معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔آئی ایم ایف نے پاکستان میں گورننس اور بدعنوانی سے متعلق رپورٹ جاری کردی جس میں پاکستان میں مسلسل بدعنوانی کےخدشات کی نشاندہی کرتے ہوئے آئی ایم ایف کا 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جب کہ اس رپورٹ کا دائرہ صرف وفاقی سطح کی کرپشن اور گورننس تک محدود ہے۔رپورٹ میں اہم سرکاری اداروں کو حکومتی ٹھیکوں میں خصوصی مراعات ختم کرنے، ایس آئی ایف سی کے فیصلوں میں شفافیت بڑھانے، حکومت کے مالیاتی اختیارات پر سخت پارلیمانی نگرانی کی سفارش کی گئی ہے جب کہ انسدادِ بدعنوانی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔آئی ایم ایف نے ایس آئی ایف سی کے اختیارات، استثنا اور شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہوئے ایس آئی ایف سی کی جانب سے سالانہ رپورٹ فوری جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔رپورٹ میں تمام سرکاری خریداری بھی 12 ماہ میں ای گورننس سسٹم پر لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا ہےکہ پالیسی سازی اور عملدرآمد میں زیادہ شفافیت اور جواب دہی ضروری ہے۔آئی ایم ایف کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی اور معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسوں پر قبضہ کرکے معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں، اشرافیہ اپنی جیبیں بھرنےکے لیے معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں، کرپشن کی نذر ہونے والی رقم سے پاکستان میں پیداوار اور ترقی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔گورننس اور کرپشن سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ گورننس بہتر بنانے سے نمایاں معاشی فائدے حاصل ہوں گے، اصلاحات سے پاکستان کی معیشت 5 سے 6.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: رپورٹ میں کہا گیا ہے کہا گیا ہے کہ عدالتی نظام پاکستان میں آئی ایم ایف گورننس اور کے لیے ہے اور
پڑھیں:
پاکستان بیک وقت معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے، حافظ نعیم
لاہور:(نیوزڈیسک)امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی مینار پاکستان سے ایک ایسی تحریک کا آغاز کرنے جارہی ہے جو ملک کو شفاف حکمرانی کی طرف لے جائے گی۔
مینار پاکستان لاہور میں 21، 22، 23 نومبر کو منعقد ہونے والے تین روزہ کُل پاکستان اجتماع عام سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ موجودہ ملکی حالات میں یہ اجتماع غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ پاکستان بیک وقت معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے اور عوام کو ایسی قیادت کی تلاش ہے جو نظام کی سطح پر حقیقی تبدیلی کی بات کرے نہ کہ محض چہروں کی تبدیلی کو حل سمجھ لے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ملک بھر سے قافلے کل سے لاہور پہنچنا شروع ہو جائیں گے اور اجتماع تین روز جاری رہے گا۔ مینارِ پاکستان سے اتحاد اور یکجہتی کا وہ پیغام دیا جائے گا جو پورے ملک میں پھیلے گا۔ تین روزہ اجتماع کے آخری روز آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
انہوں نے عدلیہ کے بحران پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالتیں پہلے ہی لوگوں کو بروقت انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں اور اب بھی تقریباً 23 لاکھ مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترامیم نے عدالتی ڈھانچے کو مزید کمزور کردیا جس کا نقصان عام شہری کو ہو رہا ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ملک میں مختلف مافیاز اور چند اجارہ دار گروہوں کا اثر و رسوخ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ عام شہری شدید دباؤ میں ہیں۔ جاگیردار ٹیکس سے بچ نکلتے ہیں جبکہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھا دیا جاتا ہے۔ پٹرول اور بجلی سمیت ہر شے پر ٹیکس کا نفاذ عام شہری کی زندگی کو مشکل بنا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مینارِ پاکستان پر انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ خواتین کے لیے الگ اور باوقار رہائش گاہوں کا انتظام کیا گیا ہے جبکہ “میرا برانڈ پاکستان” کے عنوان سے ایک بازار بھی لگایا جا رہا ہے تاکہ مقامی مصنوعات کو فروغ دیا جا سکے۔ بزنس کمیونٹی، طلبہ تنظیمیں اور مختلف شعبوں کی نمائندہ شخصیات بھی اجتماع میں شریک ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ اجتماع میں بیرونِ ملک سے وفود بھی شریک ہوں گے جن میں 42 ممالک کی اسلامی تحریکوں کے سربراہان اور نمائندگان شامل ہیں۔ بنگلہ دیش سے بھی ایک بڑا وفد آرہا ہے، اجتماع میں فلسطینیوں کی نمائندگی بھی ہوگی اور فلسطین کے مقدمے کو بھرپور طریقے سے پیش کیا جائے گا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پاکستان کسی جرنیل، بیوروکریٹ یا سیاسی شخصیت کی ملکیت نہیں بلکہ پوری قوم کا ملک ہے۔ جماعت اسلامی نے عالمی سطح پر حالیہ ووٹ کی بھی مخالفت کی ہے جسے فلسطین کی اصل قیادت نے مسترد کیا تھا۔ اس اجتماع سے جو تحریک اٹھے گی وہ پورے پاکستان کو جوڑنے کا ذریعہ بنے گی اور عدل و انصاف پر مبنی وہ نظام سامنے لائے گی جو عوام کو درپیش مسائل کا حقیقی حل دے سکے۔