Islam Times:
2025-11-14@07:08:46 GMT

کیا مستقبل میں اے آئی ایک عالمِ دین کی جگہ لے لے گی؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT

کیا مستقبل میں اے آئی ایک عالمِ دین کی جگہ لے لے گی؟

اسلام ٹائمز: یاد رکھیئے کہ دینی تعلیم اور دینی تحقیق کا مقصد ایسے انسان پیدا کرنا ہے، جو فکر میں وسیع، جذبے میں خالص اور عمل میں سنجیدہ ہوں۔ علم ِدین اسوقت نور بنتا ہے، جب وہ انسان کو ظاہر سے باطن تک لے جائے اور تعلیم اسوقت تربیت بنتی ہے، جب وہ لفظ سے آگے عمل کا سفر طے کر لے۔ پس آنیوالے عہد میں وہی دینی مسلح یا دینی محقق کارگر ثابت ہوگا، جو اے آئی سے استفادہ کرنے کا ہُنر جانتا ہوگا۔ یوں انسانی مستقبل کی ٹریجڈی یہ نہیں ہوگی کہ مستقبل میں اے آئی ایک عالمِ دین یا ایک دینی محقق کی جگہ لے لے گی بلکہ اگر ہم نے آج سے اے آئی کو سیکھنے کی کوشش نہ کی تو خدانخواستہ یہ ٹریجدی جنم لے گی کہ ایک عالمِ دین اے آئی سیکھنے میں پیچھے رہ جائے گا اور یوں وہ ایک مرتبہ پھر دوسروں کی امامت و رہبری کرنے کے بجائے دوسروں کے پیچھے کھڑا نظر آئے گا۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

اے آئی کا ظہور ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ ایک ایسا عہد جس میں عقلِ انسانی اپنی توسیعِ ذات کو ایک غیر انسانی ذہن میں مجسم دیکھ رہی ہے۔ آج کا دور انسانی ذہن کی توسیع کا عہد بھی ہے اور اس توسیع کی آزمائش کا زمانہ بھی۔ اس کی مثال ایک ایسے آئینے کی سی ہے کہ جو صرف چہروں کو نہیں دکھاتا بلکہ چہروں کے پیچھے پوشیدہ ذہنی نقوش کو بھی منعکس کرتا ہے مگر پھر بھی خود انسان کی آنکھ نہیں بن پاتا۔ اے آئی تحقیق کے عمل کو زیادہ سریع، وسیع اور منظم بنا دیتی ہے۔ یہ مصادر و منابع کو لمحوں میں کھول دیتی ہے، معلومات اور دلائل کے درست راستے شناخت کر لیتی ہے اور پیچیدہ ڈیٹا کو آسانی سے ترتیب دے دیتی ہے، مگر انسانی محقق کی نیّت، اندرونی جستجو، تخلیقی تشنگی اور انسانی ضمیر و وجدان سے اٹھتے ہوئے حقیقی سوالات کا متبادل پیش نہیں کرسکتی۔ اے آئی تحقیق کا سارا سامان تو آمادہ کر لیتی ہے لیکن محقق کا خلا پُر کرنے سے عاری ہے۔

ایک دینی طالب علم اپنی تحقیق صرف معلومات کی جمع آوری کے لیے انجام نہیں دیتا بلکہ اپنی تحقیق کے نتائج کو اپنے وجود کی گہرائیوں میں اتارنے اور اپنے آپ کو عقائد کے قالب میں ڈھالنے کیلئے انجام دیتا ہے۔ جس طرح ایک دینی مصلح انسان کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے، اس طرح اے آئی انسان کے داخلی جہان کی باریکیوں کو چھونے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اے آئی کا اوزار انسانی ہاتھ اور معلومات کی قوت کو ناقابلِ یقین حد تک بڑھاتا ہے، نیز اس سے انسانی ذہن کا کینوس وسیع تر ہو جائے گا۔ انسان اب تک اگر کسی میدان میں اپنی سوچ کا ایک شعبہ کھولتا ہے تو اے آئی سے اس شعبے کے کھلنے کے ہزار در ہزار امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔ اس طرح یہ ذہنی افزائش اور تعلیم و ترقی کی ایک بے مثال قوت بن جائے گی۔

چنانچہ اے آئی ایک دینی طالب علم یا دینی محقق کی جگہ لینے سے قاصر رہے گی، چونکہ ایک دینی محقق کی جگہ وہ لے سکتا ہے، جسے انسانی تجربے اور انسان کے اندرونی و وجدانی تضادات کا ادراک ہو اور جس کے سوالات ضمیر کی بےچینی سے اٹھتے ہوں اور جس کے نتائج اس کے عقیدے کے سفر کا حصہ ہوں۔ اے آئی نہ نیّت رکھتی ہے، نہ عقیدہ، اسے نہ کوئی بےچینی ہے اور نہ کوئی اضطراب اور  نہ ہی اس کے پاس وہ وہم، وسواس اور اندیشے ہیں، جو تخلیقِ تحقیق کا پہلا محرک ہوتے ہیں، جبکہ انسان تو عبارت ہی وہم، وسواس، اضطراب، بے چینی، تڑپ اور نیت و ارادے سے ہے۔ انسان جب سوچتا ہے تو اپنے زمانے، اپنی تاریخ، اپنی ثقافت اور اپنے مسائل و دکھوں کے بوجھ کے ساتھ سوچتا ہے۔ یہی بوجھ علم کو تحقیق کی آنچ دیتا ہے۔ اے آئی تحقیق تو کرسکتی ہے اور کرتی رہے گی، لیکن وہ تحقیق کی وہ حرارت پیدا نہیں کرسکتی، جو ایک دینی محقق یا عالمِ دین پیدا کرتا ہے۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بلاشبہ اے آئی نئے اور جدید محققین کی نئی علمی پیدائش اور ان کے تحقیقی انداز میں جِدّت کا ذریعہ بنے گی۔ یہ جِدّت افکار اب ضروری بھی ہے، چونکہ انسان کا ذہن اب ایک ایسا افق پا چکا ہے کہ جہاں وہ اپنی فکری کمزوریوں اور عقائد کی غلطیوں کو اے آئی کے علم کے سہارے سے ٹھیک سکتا ہے اور اپنی علمی طاقت کو غیر انسانی ذہانت کی مدد سے کئی گنا بڑھا سکتا ہے۔ ایک طالب علم کا اور علم دین کا مستقبل انسانی اور مصنوعی ذہانت کے اسی باہمی تعلق میں پوشیدہ ہے۔ ایک ایسا تعلق جہاں ایک مضطرب انسان سوال اُٹھاتا ہے اور اے آئی اس کیلئے جوابی امکانات کا آسمان کھول دیتی ہے، مگر سوال اور جستجو کا اصل نور اب بھی انسان کی اندرونی دنیا سے پھوٹتا ہے اور شاید ہمیشہ وہیں سے پھوٹتا رہے گا۔

اے آئی اور دینی طالب علم کے باہمی تعلق کو سمجھنے کیلئے دینی تعلیم کے مقصد اور دینی مدارس کے دائرہ کار سے آشنائی بھی لازمی ہے۔ ان کی غرض و غایت ذخیرہ ِالفاظ یا ذہنوں کو پراگندہ مطالب سے بھرنے کے بجائے انسانوں کو عقائد کے قالب میں ڈھال کر انہیں الہیٰ انسان بنانا ہے۔ صرف درست معلومات کو جمع کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، انسان کی اصل ضرورت تو درست عقیدے میں ڈھلنا ہے۔ اس میں ڈھلے بغیر کوئی انسان ایک نظریاتی شخص اور قابلِ اعتماد انسان نہیں بن  سکتا، اسی طرح اگر انسانی تربیت عقیدے سے جنم نہ لے تو انسان نفسانی دباو اور خرافات کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ اس لحاظ سے ایک حقیقی دینی درسگاہ یا دینی مدرسہ وہ تربیتی مرکز ہوتا ہے کہ جہاں انسان اپنی عقل کو ایمان اور عقیدے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور پرکھنے کا تجربہ کرتا ہے۔

عقل اور عقیدے کی ہم آہنگی کے کیلئے زبان یعنی اظہار کی قوت ہی پہلا وسیلہ ہے۔ بلاشبہ اظہار کی قوت ہی فہم کی گہرائی پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ معانی کے در وا کرنے کیلئے دینی طلباء کو جہاں عربی کی بلاغت سکھائی جاتی ہے، وہیں فارسی و اردو کی نزاکتوں کے زاویے بھی اُن پر عیاں کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں پر بین الاقوامی برادری کے ساتھ افہام و تفہیم کی خاطر انگریزی زبان کی وسعتِ بیان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ زبان کا جمال فکر و احساس کو لطیف بناتا ہے اور اس کے بعد علمِ کلام کی مباحث کا اثر دلوں تک پہنچتا ہے۔ خطابت، تحریر اور مکالمے کی مشق طالب علم کو ایسا معلم بناتی ہے کہ جس کی بات کی عقل قدر دانی کرتی ہے اور دل اسے قبول کرتے ہیں۔

ڈیجیٹل عہد اور مصنوعی ذہانت نے دینی مدارس کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ قلم اب سکرین پر چلتا ہے اور مکالمہ مائیک و کیمرے کے سامنے ہوتا ہے۔ اس دور میں دینی طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدید ذرائعِ ابلاغ کے استعمال اور ان کی زبان سے آگاہ ہو۔ گرافک ڈیزائن، ویڈیو اور آڈیو مواد کی تیاری اور سوشل میڈیا پر علمی اظہار وہ راستے ہیں، جن سے دینی طلباء و علمائے دین کے پیغام کو مقبولیتِ عام  ملتی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھی علم جب جدید اسلوب اختیار کرتا ہے تو تبھی وہ زندہ بھی رہتا ہے۔ اب اس پر آجائیے کہ تحقیق علمِ دین کی روح ہے۔ عام مطالعہ نہیں بلکہ تحقیق کی خاطر کیا جانے والا مطالعہ جب سوال میں ڈھلتا ہے تو فہم کی زمین زرخیز ہوتی ہے۔ دینی تعلیم جہاں روایت کا تسلسل ہے، وہیں تجدید کا شعور بھی۔ حوالہ، تجزیہ اور تنقیدی مطالعہ وہ اوزار ہیں، جن سے طالب علم روایت کی گہرائی میں اتر کر اس کے جوہر کو دریافت کرتا ہے۔ یعنی دماغوں کیلئے علم کی تازہ غذا اسی وقت آمادہ ہوتی ہے کہ جب انہیں تحقیق کی آنچ پر رکھ کر حرارت دی جائے۔

دینی درسگاہوں کو اپنے طلباء کے اندر تعلیم کے ذریعے وہ صفات پیدا کرنی ہوتی ہیں کہ جو اجتماعی نظم، مشاورت، دیانت اور خدمت کا شعور دیں۔ المختصر یہ کہ دینی تعلیم کا مقصد یہی ہے کہ علم، عمل اور اخلاق ایک وحدت میں پروئے جائیں۔ اس زاویے سے مالی بصیرت بھی دینی تعلیم کا ناگزیر پہلو ہے۔ اب دینی مدارس اگر فنانشل لٹریسی کے میدان میں پیچھے رہ جائیں تو اس میں اے آئی کا کوئی قصور نہیں۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ خود کفالت ایک عالمِ دین کے وقار کو بڑھاتی ہے۔ اسلامی مالیات، شفافیت اور امانت کے اصول طلباء میں عملی ذمہ داری کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ اے آئی ان اصولوں کو سمجھنے اور اپنانے کیلئے بہترین معاون، مشیر اور رہنماء ہے۔ جس طالب علم کے اندر اے آئی کی وساطت سے معیشت کی سوجھ بوجھ پیدا ہو جائے گی، وہ آنے والے زمانے میں نہ کسی کا محتاج بنے گا اور نہ موقع پرست۔

اس حقیقت کو درک کیجئے کہ جب ذہن مقصدِ وجود پر غور کرتا ہے تو اس میں بصیرت جنم لیتی ہے۔ اے آئی کی تعلیم ایک دینی طالب علم کو یہ سمجھ عطا کرتی ہے کہ اختلاف ِرائے کسی بھی شکل میں ہو، وہ تنوع کی علامت اور نوآوری کی ضرورت ہے۔ اختلاف رائے سے ڈرنے کے بجائے اختلاف کا حل سیکھنا علم ِدین کی روحانی پہچان ہے۔ جو دلوں کے زخم سمجھ لیتا ہے، وہ نفوس کی اصلاح کا اہل ہوتا ہے۔ اختلاف کو تہذیب سے سلجھانے اور دوسروں کے احساس کو سمجھنے کی صلاحیت علم کو اخلاق کا لباس عطا کرتی ہے۔ اس میدان میں ایک دینی طالب علم کیلئے اے آئی ایک بہترین معاون اور رہنماء ہے۔ عملی اور فنی مہارتیں وحی پر مبنی دینی تعلیم کو زمینی حقیقت سے جوڑتی ہیں۔ ترجمہ، تدوین اور تعلیمی مواد کی تیاری وہ ہنر ہیں، جو علم کو عمل میں ڈھالتے ہیں۔ جب دینی طالب علم اپنے علم کو اے آئی کی طاقت سے سماج میں خدمت کا ذریعہ بنائے گا تو یہی معاصر عہد میں علم نافع کی  واضح شکل بھی ہوگی۔

اسی طرح جب ایک دینی طالب علم مختلف تہذیبوں اور ادیان کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ فہمِ غیر دراصل خود فہم کی پہلی شرط ہے۔ دینی تعلیم اسی وقت کامل ہوتی ہے، جب وہ انسان کو اپنے دائرے سے نکل کر عالمِ انسانیت کے وسیع منظر سے روشناس کرائے۔ اے آئی ایسے مطالعے کی ایک وسیع دنیا فراہم کرتی ہے۔ آخر میں یاد رکھیئے کہ دینی تعلیم اور دینی تحقیق کا مقصد ایسے انسان پیدا کرنا ہے، جو فکر میں وسیع، جذبے میں خالص اور عمل میں سنجیدہ ہوں۔ علم ِدین اس وقت نور بنتا ہے، جب وہ انسان کو ظاہر سے باطن تک لے جائے اور تعلیم اس وقت تربیت بنتی ہے، جب وہ لفظ سے آگے عمل کا سفر طے کر لے۔ پس آنے والے عہد میں وہی دینی مسلح یا دینی محقق کارگر ثابت ہوگا، جو اے آئی سے استفادہ کرنے کا ہُنر جانتا ہوگا۔ یوں انسانی مستقبل کی ٹریجڈی یہ نہیں ہوگی کہ مستقبل میں اے آئی ایک عالمِ دین یا ایک دینی محقق کی جگہ لے لے گی بلکہ اگر ہم نے آج سے اے آئی کو سیکھنے کی کوشش نہ کی تو خدانخواستہ یہ ٹریجدی جنم لے گی کہ ایک عالمِ دین اے آئی سیکھنے میں پیچھے رہ جائے گا اور یوں وہ ایک مرتبہ پھر دوسروں کی امامت و رہبری کرنے کے بجائے دوسروں کے پیچھے کھڑا نظر آئے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایک دینی طالب علم دینی محقق کی جگہ ایک دینی محقق دینی تعلیم میں اے آئی اے آئی ایک اور تعلیم ایک عالم اور دینی تحقیق کی تحقیق کا کے بجائے ہوتا ہے کرتا ہے دیتی ہے کو اپنے کرتی ہے علم کے اور ان علم کو ہے اور

پڑھیں:

اسلام آباد میں پہلی روبوٹک سرجری، پاکستان میں میڈیکل کے شعبے میں نئی تاریخ رقم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں میڈیکل کے شعبے میں ایک نئی تاریخ رقم کردی گئی۔

پمز اسپتال میں پہلی مرتبہ انتہائی جدید روبوٹک ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک پیچیدہ سرجری مکمل کی گئی۔ یہ کارنامہ نہ صرف پاکستان کے میڈیکل شعبے کے لیے تاریخی پیش رفت ہے بلکہ مستقبل میں مریضوں کو بہتر، محفوظ اور کم تکلیف دہ علاج کی نئی راہیں بھی فراہم کرے گا۔

تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ پمز میں جدید “ٹو مائی سرجیکل روبوٹ” کا استعمال کرتے ہوئے ایک انتہائی حساس آپریشن انجام دیا گیا جس میں برطانیہ سے آئے بین الاقوامی سرجن بھی شریک رہے۔ اس موقع پر پاکستانی ماہرین پروفیسر شمیم خان، پروفیسر متین شریف اور ڈاکٹر جاوید برکی نے مجموعی سرجری کے دوران رہنمائی کا اہم کردار ادا کیا، جبکہ پمز کے ماہر ڈاکٹر عاطف انعام شامی، ڈاکٹر برہان الحق اور ڈاکٹر خالد سعید بھی ٹیم کا حصہ رہے۔

یہ مشترکہ کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر عالمی معیار کے ساتھ کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پمز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عمران سکندر نے اس کامیاب تجربے کو اسپتال کے لیے سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ روبوٹک سرجری جدید طب کا مستقبل ہے اور کئی ایسے پیچیدہ آپریشن جنہیں روایتی طریقوں سے مکمل کرنا مشکل ہوتا تھا، اب روبوٹ کی مدد سے نہ صرف زیادہ محفوظ بلکہ آسان بھی ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس ٹیکنالوجی سے مریض کو کم تکلیف ہوتی ہے، صحت یابی کا وقت کم ہوجاتا ہے اور نتائج بھی بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ پمز میں مستقبل میں بھی اسی نوعیت کے مزید تجربات کیے جائیں گے تاکہ پاکستان کے عوام کو عالمی معیار کی صحت سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پہلی روبوٹک سرجری کی کامیابی نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ اسلام آباد اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی روبوٹک میڈیسن کی ترقی کا راستہ مزید تیز ہوگا۔ اس کامیابی نے نہ صرف میڈیکل اسٹاف کا حوصلہ بڑھایا ہے بلکہ ملک میں جدید طبی تحقیق اور آلات کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں پہلی روبوٹک سرجری، پاکستان میں میڈیکل کے شعبے میں نئی تاریخ رقم
  • ماسکو میں انسان نما روبوٹ افتتاحی تقریب میں منہ کے بل گر پڑا، ویڈیو وائرل 
  • کون سا کیلا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے؟
  • انسانی دماغ کتنی’’ میموری اسپیس‘‘رکھتا ہے؟
  • خواجہ آصف کا مدارس کے حوالے سے بیان دینی طبقات کی توہین ہے
  • خواجہ آصف کا بیان دینی طبقات کی توہین کے مترادف ہے،اے جی انصاری
  • عرفان صدیقی اعلیٰ شخصیت کے حامل انسان تھے، انہیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا، رانا ثنااللہ
  • کراچی کے مستقبل کیلئے ایم کیو ایم رکن اسمبلی کی اہم تجویز
  • غزہ جنگ بندی کا مستقبل!