گوادر سے عمان تک فیری سروس منظور؛ سرمایہ کاری کیلیے بہترین مواقع
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
حکومت نے گوادر سے عمان تک فیری سروس کی منظوری دے دی ہے، جو اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے بہترین موقع ہے۔
وفاقی وزیر برائے بحری امور محمد جنید انوار چوہدری نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے گوادر سے عمان تک فیری سروس کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے جس کے بعد دونوں ممالک بہت جلد فیری لنک کے قیام کے لیے مفاہمت نامے پر دستخط کریں گے۔
انہوں نے اپنے بیان میں بتایا کہ سروس کے آغاز کے لیے انتظامات کو حتمی شکل دینے کی غرض سے ایک اعلیٰ سطح کا عمانی وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ گوادر عمان فیری سروس کے آغاز سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ ہوگا جب کہ سرمایہ کاری کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ روٹ پاکستانی تارکین وطن کے لیے سفر کو نہ صرف آسان بنائے گا بلکہ سیاحت، ثقافت اور باہمی روابط کو بھی فروغ دے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نئی سمندری راہداریوں کے قیام سے خطے کے دیگر ممالک کو بھی وسط ایشیا کی منڈیوں تک بہتر رسائی ملے گی۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ فیری سروس سے گوادر میں اقتصادی سرگرمیوں کو نئی سمت ملے گی اور بندرگاہ خطے میں تجارتی سرگرمیوں کا نیا مرکز بن کر اُبھرے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ منصوبے کی تکمیل سے پاکستان اور عمان کے درمیان معاشی تعاون مزید مضبوط ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جسٹس اطہر کا بھی چیف جسٹس کو خط،عوامی رائے دبانے کیلیے عدالت عظمیٰ کے استعمال پر اظہار افسوس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251112-08-22
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ کے جج اطہر من اللہ نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ افریدی کو ایک پر زور خط لکھا ہے، جس میں عدلیہ کو لاحق خطرات پر غور کے لیے ایک کانفرنس بلانے کی درخواست کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ عدالت عظمیٰ کو بعض اوقات عوام کی رائے دبانے کے لیے ’غیر منتخب اشرافیہ‘ کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ پیشرفت منگل کو اس وقت سامنے آئی ہے جب حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے اقدامات کر رہی ہے، سینیٹ سے منظور ہونے والا یہ بل عدلیہ اور فوجی قیادت سے متعلق کئی اہم تبدیلیوں پر مشتمل ہے۔ جج اطہر من اللہ نے خط میں لکھا کہ ’یہ خط وہ یہ آئین کے احترام اور ایک سنجیدہ فریضہ کے طور پر لکھ رہے ہیں تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے ریکارڈ رہے کہ ان کی تقدیر کس طرح عدالت عظمیٰ کی سنگ مرمر کی دیواروں کے پیچھے طے کی جا رہی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ خط حالیہ واقعات کے پیش نظر لکھا جا رہا ہے جنہوں نے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ ادارے ایک دن میں نہیں بنائے جاتے، مگر خوف، ہتھیار ڈالنے یا طاقت کے سامنے جھک کر وہ بہت جلد تباہ ہو سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی تاریخ بے داغ یا قابل تعریف نہیں، لیکن اس کی ماضی کی ناکامیاں چاہے کتنی بھی سنگین کیوں نہ ہوں، عدلیہ کو غیر منتخب اشرافیہ کے مفادات کے تابع رکھنے کا جواز نہیں دیتیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے موجودہ جج کے طور پر ان کا فریضہ ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کو لاحق خطرات پر آواز بلند کریں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے آئین کے تحفظ کی قسم اٹھائی تھی لیکن وہ اکثر اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں کیونکہ عوام کو دیے گئے بنیادی حقوق اکثر محض نعروں یا باتوں تک محدود ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے آئین کے دفاع، تحفظ اور بقا کی قسم اٹھائی تھی، لیکن خود کو بے بس محسوس کر رہا ہوں کیونکہ عوام کے لیے جو بنیادی حقوق آئین میں محفوظ کیے گئے ہیں، وہ اکثر محض نعروں یا الفاظ تک محدود رہ گئے ہیں، ہم اس کے برعکس دکھاوا کرسکتے ہیں لیکن اعلیٰ عدالت کے جج اور آئین کے محافظ کے طور میرے لیے حقیقت ناخوشگوار اور شرمناک ہے‘۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حقیقت کو عوام سے بہت عرصے تک چھپایا گیا ہے اور انہیں غلط معلومات دی گئیں تاکہ اشرافیہ کا قبضہ قائم رہ سکے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آزادی کے آغاز سے ہی ریاست کی تاریخ میں کچھ ریاستی اداروں اور مضبوط اشرافیہ کے درمیان ایک غیر اخلاقی اتحاد رہا ہے، جس کی علامت کنٹرول، خصوصی مراعات اور بے قابو ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کو اکثر عوام کی رائے محفوظ رکھنے کے بجائے اسے دبانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ خط میں انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ نے طاقت کے سامنے جھک کر عوام کے حق میں فیصلے دینے میں ناکامی دکھائی ہے، انہوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی اور پھانسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کے اعتماد اور ہمارے حلف کے ساتھ سب سے بڑی اور ناقابل معافی خیانت تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو ’غیر منتخب عناصر‘ نے ہراساں کیا، نواز شریف اور ان کی بیٹی کو ہراساں کیا گیا، ’یہ اس رجحان کا تسلسل ہے کہ جس میں جب بھی غیر منتخب اشرافیہ کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا، عوام کی رائے کو دبایاگیا‘۔ انہوں نے کہاکہ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف بھی اسی سلسلے کا شکار بنے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ رجحان اشرافیہ کے مسلسل کنٹرول کا مظہر ہے، جس میں رہنماؤں کو پہلے پروان چڑھایا جاتا ہے اور پھر انہیں برباد کر دیا جاتا ہے، جب وہ عوامی مینڈیٹ کے بل پر توانا ہو جاتے ہیں، اور مستحکم طاقت کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو منظم طریقے سے تحلیل کر دیا جاتا ہے، عوام کی رائے کو بار بار دبایا گیا تاکہ ریاست پر اشرافیہ کا قبضہ قائم رہے، یہ ایک ایسی خیانت اور تباہ کاری ہے جو آئینی جمہوریت کے قلب کو نشانہ بناتی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان بھی اسی دباؤکے تسلسل کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’سیاسی اختلاف کو جرم بنادیا گیا ہے، خواتین سمیت جو لوگ جھکنے سے انکار کرتے ہیں، انہیں غیر انسانی حالات میں گزارا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ ان سے انصاف چھینا جا رہا ہے‘۔