پاکستان میں 3 سال میں 5 ہزار ارب کی کرپشن ہوئی، جو کسی کو نظر نہیں آتی: مزمل اسلم
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
مشیرِ خزانہ خیبر پختون خوا مزمل اسلم—فائل فوٹو
مشیرِ خزانہ خیبر پختونخوا مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پچھلے 3 سال میں 5 ہزار ارب روپے کی کرپشن ہوئی، جو کسی کو نظر نہیں آتی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا توشہ خانہ سے لیا گیا ایک ہار سب کو نظر آتا ہے۔
مشیرِ خزانہ خیبر پختونخوا مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ حکومت نے پچھلے سال ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بہت کچھ ہے، اس رپورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کچھ چیزیں شائع کی گئی ہیں۔
مزمل اسلم نے کہا کہ پچھلے سال کی نسبت پنجاب کو محصولات 16 فیصد زیادہ دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ آئی ایم ایف کے حکم سے جاری کی گئی ہے، رپورٹ 186 صفحات پر مشتمل ہے جس میں حکومت کی کرپشن شائع کی گئی ہے، اس رپورٹ کے آنے کے بعد ابھی تک حکومت کی جانب سے کسی نے پریس کانفرنس نہیں کی۔
مزمل اسلم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے مطابق ایف بی آر سمیت دیگر ادارے سیاسی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 4 دسمبر کو حکومت نے این ایف سی کا پہلا اجلاس بلا لیا ہے، این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
آئی ایم ایف کا ریاستی اداروں میں کرپشن کے خطرات پر اصلاحاتی ایجنڈا فوری شروع کرنے کا مطالبہ
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے اپنی طویل انتظار کی جانے والی گورننس اور کرپشن ڈائگناسٹک اسیسمنٹ (جی سی ڈی اے) میں پاکستان میں بدعنوانی کے مستقل چیلنجز کو اجاگر کیا ہے، جو ریاستی اداروں میں موجود نظام کی کمزوریوں سے پیدا ہوتے ہیں، شفافیت، انصاف اور دیانتداری میں بہتری کے لیے 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوراً شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس رپورٹ کی اشاعت اگلے ماہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی منظوری کے لیے شرط قرار دی گئی ہے، جس کے مطابق پاکستان آئندہ 3 سے 6 ماہ کے اندر گورننس اصلاحات کا پیکج نافذ کرے تو 5 سال میں معاشی ترقی کی شرح میں تقریباً 5 سے 6.5 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔
جی سی ڈی اے میں چند بااثر سرکاری اداروں کو سرکاری ٹھیکوں میں دی جانے والی خصوصی رعایتیں ختم کرنے، اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی ) کے معاملات اور فیصلہ سازی میں شفافیت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مزید برآں، رپورٹ میں حکومت کے مالیاتی اختیارات پر سخت حدود کا تقاضا کیا گیا ہے، جن کے لیے زیادہ پارلیمانی نگرانی ضروری ہے اور اینٹی کرپشن اداروں کی تنظیمِ نو کی سفارش بھی کی گئی ہے، حکومت نے یہ رپورٹ اگست سے روک رکھی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک متحدہ موضوع یہ ہے کہ پالیسی سازی، اس پر عمل درآمد اور نگرانی میں شفافیت اور احتساب میں اضافہ کیا جائے، اس میں معلومات تک بہتر رسائی اور ریاستی و غیر ریاستی اسٹیک ہولڈرز کی صلاحیت بڑھانا شامل ہے تاکہ وہ گورننس اور معاشی فیصلہ سازی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔
رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان، جی سی ڈی اے کی سفارشات کے مطابق گورننس، احتساب اور دیانتداری میں بہتری لاتا ہے تو اسے نمایاں معاشی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، پاکستان 5 سال کے دوران گورننس اصلاحات کا پیکج نافذ کر کے جی ڈی پی میں 5 سے 6.5 فیصد اضافہ کر سکتا ہے۔
اہم شعبوں میں گورننس اور انسداد بدعنوانی، کاروباری ضابطہ کاری اور بیرونی تجارت کی ریگولیشن میں بہتری شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف اور حکومت دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ کرپشن کے خطرات سے نمٹنا پائیدار اصلاحات کے لیے ضروری ہے اور انسدادِ بدعنوانی کی کوششیں تب ہی مؤثر ہوتی ہیں جب گورننس کو مضبوط بنانے اور براہِ راست کرپشن سے نمٹنے کے اقدامات کو یکجا کیا جائے۔
اشاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ کرپشن پر کنٹرول کمزور ہوا ہے، جس سے عوامی اخراجات کی کارکردگی، محصولات کے حصول اور عدالتی نظام پر اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے۔
جی سی ڈی اے نے ریاستی افعال میں نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا اور بتایا کہ پاکستان بجٹ سازی اور مالیاتی معلومات کی رپورٹنگ، سرکاری مالی و غیر مالی وسائل کے انتظام، خصوصاً ترقیاتی اخراجات، سرکاری خریداری اور ریاستی ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کی نگرانی میں موجود خامیوں کی وجہ سے کرپشن کے خطرات سے دوچار ہے۔
اس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان کا ٹیکس نظام حد سے زیادہ پیچیدہ اور غیر شفاف ہے، جسے ایسے ٹیکس اور کسٹم ادارے چلاتے ہیں جن کی صلاحیت، انتظام اور نگرانی ناکافی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عدالتی شعبہ تنظیمی طور پر پیچیدہ ہے، معاہدوں پر عملدرآمد یا جائیداد کے حقوق کا تحفظ مؤثر طریقے سے نہیں کر سکتا، جس کی وجہ اس کی کارکردگی کے مسائل، فرسودہ قوانین اور ججوں اور عدالتی عملے کی دیانت داری سے متعلق خدشات ہیں۔
آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ تمام سرکاری خریداریوں میں ریاستی اداروں (ایس او ایز) کو دی جانے والی ترجیحات، بشمول براہِ راست ٹھیکے دینے کی خصوصی دفعات ختم کی جائیں، 12 ماہ کے اندر تمام سرکاری لین دین کے لیے ای-گورننس پروکیورمنٹ کا استعمال لازمی بنایا جائے۔
رپورٹ میں ایس آئی ایف سی کی پہلی سالانہ رپورٹ فوراً تیار کرنے اور عوام کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، جس میں اس کے ذریعے کرائی گئی تمام سرمایہ کاریوں، دی گئی مراعات (ٹیکس، پالیسی، ضابطہ جاتی یا قانونی)، تفصیلی جواز اور نتائج شامل ہوں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایس آئی ایف سی کے وسیع اور متنوع اختیارات کے پیش نظر ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں کے لیے واضح طریقۂ کار تیار کرے اور شفافیت بڑھائی جائے تاکہ مؤثر نگرانی اور احتساب ممکن ہو سکے۔
رپورٹ نے ایس آئی ایف سی کے قیام اور اس کے عملے کو فیصلوں میں حاصل استثنیٰ پر بھی سوالات اٹھائے، بتایا گیا کہ کونسل سرمایہ کاری اور نجکاری کی رفتار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری بورڈ (بی او آئی) کے قانون میں ترمیم کے ذریعے قائم کی گئی، لیکن بی او آئی اب بھی موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق بدعنوانی کے خطرات کا مالیاتی کارکردگی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے، دیگر عوامل کے باوجود پاکستان کا ٹیکس-جی ڈی پی تناسب کم اور گرتا ہوا ہے، جس کی اہم وجوہات ٹیکس نظام کی پیچیدگی، قواعد میں بار بار تبدیلی اور حکومت پر کم عوامی اعتماد ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت کے پاس عوامی وسائل کے استعمال میں وسیع صوابدیدی اختیارات موجود ہیں، کیونکہ بجٹ میں منظور شدہ رقوم اور اصل اخراجات میں بڑا فرق ہے، جب کہ بجٹ امور میں عوامی شفافیت اور پارلیمانی شمولیت محدود ہے۔
صوابدیدی رقوم زیادہ تر ان اضلاع کو دی جاتی ہیں، جن کی نمائندگی حکومت یا اعلیٰ بیوروکریسی کرتی ہے، جس سے سیاسی اثر و رسوخ کا امکان بڑھ جاتا ہے، اس کا نتیجہ عوامی سرمایہ کاری پر کم منافع کی صورت میں نکلتا ہے۔