Express News:
2025-12-01@02:20:30 GMT

بھارت افغان گٹھ جوڑ،نئے خطرات کا اشارہ

اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT

پاکستان نے افغان طالبان کی سیز فائرکی درخواست پر 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دونوں اطراف بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔

دوسری جانب پاکستان نے افغان صوبہ قندھار اورکابل میں نپے تلے فضائی حملے خالصتاً افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پرکیے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری سے وزیراعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزراء نے ملاقاتیں کیں، جس میں داخلی و خارجی سیکیورٹی صورتحال پر گفتگو کی گئی، صدر اور وزیراعظم نے افغان جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے پاک فوج کی چوکسی اور مہارت کی تعریف کی، وزیراعظم نے کہا کہ ملکی سلامتی کا ہر صورت دفاع کیا جائے گا۔

 پاکستان کی جانب سے افغانستان میں جوابی کارروائی کے بعد افغان طالبان کی حکومت پر دباؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اور وہ کمزور ہوتی جا رہی ہے، اگرچہ جھڑپیں تو رک چکی ہیں لیکن صورت حال اب بھی انتہائی نازک ہے۔ سرحدیں مکمل طور پر بند کردی گئی ہیں جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور آمد و رفت معطل ہو چکی ہے۔ دو ہمسایہ ممالک کے درمیان بگڑتا ہوا تنازع علاقائی سلامتی کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

 درحقیقت پاکستان پر حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب عبوری افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر تھے اور اس دوران انھوں نے نہ صرف پاکستان مخالف بیانات جاری کیے بلکہ کشمیرکو بھارت کا حصہ بھی تسلیم کیا۔

ایک طرف افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کی دہلی میں بیٹھ کر بیان بازی اور دوسری طرف سرحد پر اشتعال انگیزی کے بعد کابل اور دہلی کے درمیان وہ ہم آہنگ منصوبہ بے نقاب ہوگیا ہے جس کا مقصد پاکستان کو غیر اعلانیہ جنگ، پراپیگنڈے اور سفارتی دباؤ کے ذریعے غیر مستحکم کرنا ہے اور اس کی پیش بندی پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کے اطراف ایک عرصے سے ہو رہی تھی۔

بھارت میں بڑھتی ہوئی افغان سرگرمیوں اور سرحد پر عسکری کارروائیوں میں ایک منظم تسلسل ہے جس کا مقصد پاکستان دشمن عناصرکو سیاسی تحفظ دینا ہے۔ افغان طالبان فورسز کی جانب سے بیک وقت مختلف صوبوں سے سرحدی علاقوں پر حملے ظاہر کرتے ہیں کہ ان کارروائیوں کے پیچھے کوئی مرکزی منصوبہ بندی کارفرما ہے۔ اس منصوبہ بندی پر خطے کے ایسے عناصر کا اثر ہے جو جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

عبوری افغان حکومت کی تحریک طالبان پاکستان عناصر سے بڑھتی ملی بھگت دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو مزید کمزورکر رہی ہے، اگرکابل نے یہ پالیسی جاری رکھی تو اسے خطے میں مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انڈیا، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے اتحادکو ایک بڑے علاقائی گیم پلان کے تناظر میں بھی پرکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف جارحیت اور انڈیا کے ساتھ دوستی کابل کو کتنی مہنگی پڑے گی؟ افغان عبوری حکومت اپنے عوام کی فلاح کے بجائے تخریبی اتحادوں اور بیرونی اثرات کو ترجیح دے کر خود اپنے شہریوں سے دوری اختیار کر رہی ہے۔

افغان عوام تعلیم، صحت، تجارت اور روزگار کے لیے دہائیوں سے پاکستان پر انحصار کرتے آئے ہیں اور اگر کابل نے یہی روش برقرار رکھی تو پاکستان کے یہ دروازے جو ماضی میں افغان عوام کی بقا اور روابط کا ذریعہ رہے ہیں، بند ہو جائیں گے۔ ان پالیسیوں سے نہ صرف افغانستان علاقائی طور پر مزید تنہا ہو جائے گا بلکہ اس کے عوام اور پناہ گزینوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔

حالیہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آنے والا وقت خطے میں مزید کشیدگی لائے گا اور پاکستان کو بیک وقت افغان طالبان اور انڈیا کی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہو گا، وہ جارحیت عسکری کے ساتھ ساتھ پراپیگنڈے کے میدان میں بھی ہو گی۔ پاکستان کا ایک طویل عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، وہاں سے ہونے والی دہشت گردی کو بھارت سپورٹ کر رہا ہے۔

پاکستان جب بھی طالبان حکومت کے سامنے یہ معاملہ رکھتا تھا تو ان کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ تحریک طالبان پاکستان یعنی فتنہ الخوارج کے لوگ ان کے کنٹرول میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چار روز قبل پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف سرزمین استعمال کرنے کی قیمت چکانا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کابل میں فتنہ الخوارج کے مرکز اور لیڈر شپ کو نشانہ بنایا ہے۔ آئی ایس پی آر کا اعلامیہ بڑے واضح انداز میں بتا رہا ہے کہ پاکستان افغانستان کو اب پہلے جیسا ٹریٹ نہیں کرے گا۔ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو اپنا دہرا معیار ختم کر نا ہوگا اور فتنہ الخوارج اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

 اس صورتحال میں پاکستان دو اہم فیصلے کر چکا ہے کہ اب اگر پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہوئی تو پاکستان کو خود کارروائی کا حق حاصل ہے۔ دوسرا پاکستان افغان مہاجرین اور غیر قانونی افغانوں کے انخلا سے متعلق سخت پالیسی نافذ کرنے جا رہا ہے۔

پاکستان میں امن و استحکام کے لیے غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی ناگزیر ہو چکی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ پانچ دہائیوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے۔ دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہو چکا جس کے بعد افغان مہاجرین کا پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ غیر قانونی مقیم مہاجرین کے کچھ عناصر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کی خرابی اور جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔

صرف رواں ماہ ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے حملوں میں فوجی افسران سمیت پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد شہید ہوچکی ہے۔ یہ سال گزشتہ دہائی کا سب سے خون ریز سال ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کا افغان طالبان انتظامیہ کے خلاف صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جو ٹی ٹی پی کے دھڑوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرنے سے مسلسل انکاری ہے جنھیں وہ سرحد پار حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسٹریٹجک اعتبار سے دو اہم صوبوں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان جو کہ شدت پسندانہ حملوں کے مراکز ہیں، وہاں سیاسی عدم استحکام نے کالعدم گروہوں کو سرگرم عمل ہونے کا زبردست موقع فراہم کیا ہے۔ افغانستان سے پاکستان پر حملے کی یہ صورتِ حال اچانک پیدا نہیں ہوئی، برسوں کی سازشیں، سرحد پار اڈوں کا استعمال اور غیر ریاستی گروہوں کو افغان حکومت کے پناہ دینے کی خاموش روایتیں ہی آج اس تناؤ کی بنیاد ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان قیادت کو واضح شواہد دے کر کہا کہ تحریکِ طالبانِ پاکستان، داعش، خراسان اور دیگر شدت پسند گروہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

اس مسئلے پر جب افغانستان کی طرف سے سنجیدگی نظر نہ آئی اور وہاں سے مسلسل پاکستان مخالف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ یہ سلسلہ بڑھ کر پاکستان پر حملے تک آپہنچا تو دفاعی اداروں کو اپنی زمینی اور فضائی صلاحیتیں بروئے کار لانا پڑیں۔

ایک اور پہلو جو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا وہ ہے اطلاعاتی جنگ اور سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ۔ دشمن قوتیں، خاص طور پر بھارتی خفیہ ایجنسیاں محض عسکری حملوں تک محدود نہیں رہتیں، وہ غلط معلومات، جھوٹے بیانات اور اشتعال انگیز پیغامات کے ذریعے معاشرتی انتشار بھی پھیلاتی ہیں۔ اس لیے حکومت کو میڈیا کمیونیکیشن، شفاف اطلاعات اور سچائی کی فراہمی میں فعال رہنا ہوگا تاکہ عوام میں درپیش خطرات، سرحدی حالات اور ریاستی اقدامات کے پیچھے کے منطقی دلائل سمجھائے جاسکیں معاشی اور سفارتی راستے بھی اسی نسبت سے اہم ہیں۔

خطے میں امنِ سرمایہ کاری، تجارتی راہ داری اور توانائی کے منصوبے وہ مشترکہ مفادات ہیں جو افغان قوم کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جب کابل کے عوام کو معلوم ہوگا کہ امن کے ذریعے ان کی معیشت بہتر ہوگی، روزگار بڑھے گا اور بنیادی سہولتیں بہتر ہوں گی تو وہاں کے حکمرانوں پر بھی عوامی دباؤ بڑھے گا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کریں۔

آیندہ کے لیے واضح کرنا ہے کہ اگر داعش، فتنہ خوارج اور مسلح خفیہ نیٹ ورکس نے اپنے عزائم ترک نہ کیے تو پاکستان مجبوراً خود اپنے دفاع کے لیے کارروائی جاری رکھے گا، مگر حقیقی فتح وہی ہے جو امن، ترقی اور بھائی چارے کے ذریعے حاصل ہو، اور اس امن کے لیے افغان اقتدار پر بیٹھے سخت گیر حکمرانوں کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ بھارتی قربتیں تو افغانستان کو کبھی کوئی فائدہ نہ دے سکیں گی، بھارتی حکمران تو فتنہ انگیزیاں چاہتے ہیں جس سے افغانستان کو دامن بچانا ہوگا، افغانستان کا حقیقی بہی خواہ صرف پاکستان ہے، افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف افغانستان کو افغان طالبان پاکستان میں پاکستان پر پاکستان نے کے درمیان کے ذریعے کے بعد رہی ہے رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

افغان حکومت نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کےلیے خطرہ بن چکی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے دوران 7.2 بلین ڈالرز کا امریکی فوجی ساز و سامان افغانستان چھوڑ گئی ہیں، افغان رجیم نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے-

25 نومبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے سینئر صحافیوں کے ساتھ ملکی سلامتی کے امور پر تفصیلی گفتگو کی اور بتایا کہ 4 نومبر 2025 سے اب تک دہشتگردی کے خلاف 4910 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے، ان آپریشنز کے دوران 206 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا، رواں سال ملک بھر میں 67023 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے گئے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال صوبہ خیبرپختونخوا میں 12857 اور صوبہ بلوچستان میں 53309 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے گئے، رواں سال مجموعی طور پر 1873 دہشتگرد جہنم واصل ہوئے جن میں 136 افغانی بھی شامل ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ باررڈر مینجمنٹ پر سیکیورٹی اداروں کے حوالے سے  گمراہ  کن پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، پاک افغان بارڈر انتہائی مشکل اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے، خیبر پختونخوا میں پاک افغان سرحد 1229 کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں 20 کراسنگ پوائنٹس ہیں،  پاک افعان بارڈ پر  پوسٹوں کا فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر تک بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بارڈر فینس اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتی اگر وہ آبزرویشن اور فائر سے کور نہ ہو، اگر 2 سے 5 کلومیٹر کے بعد قلعہ بنائیں اور ڈرون سرویلنس کریں تو اس کے لیے کثیر وسائل درکار ہونگے، پنجاب اور  سندھ کے برعکس خیبر پختونخوا میں بارڈر کے دونوں اطراف منقسم گاؤں ہیں، ایسی صورت حال میں آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ایک چیلنج ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں بارڈر مینجمنٹ ہمیشہ دونوں ممالک مل کر کرتے ہیں، اس کے برعکس ،افغانستان سے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی کیلئے افغان طالبان مکمل سہولت کاری کرتے ہیں- 

اگر افغان بارڈر سے متصل علاقوں کو دیکھا جائے تو وہاں آپکو بمشکل مؤثر انتظامی ڈھانچہ دیکھنے کو ملتاہے جو  گورننس  کے مسائل میں اضافے کا باعث ہے، ان بارڈر ایریاز میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ ہے جسکی سہولت کاری فتنتہ آلخوارج کرتے ہیں- 

اگر سرحد پار سے دہشت گردوں کی تشکیلیں آرہی ہیں یا غیر قانونی اسمگلنگ اور تجارت ہو رہی ہےتو اندرون ملک اس کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں آپ کے صوبے میں گھوم رہی ہےتو انہیں  کس نے روکنا ہے؟ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اس پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسز کا حصہ  ہیں جو خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں-

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے حوالے سے پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے، پاکستان کا موقف ہے کہ افغان طالبان رجیم دہشتگردوں کی سہولت کاری بند کریں،  افغانستان میں دہشتگردی کے مراکز اور القاعدہ ، داعش اور دہشتگرد تنظیموں  کی قیادت موجود ہے- 

انہوں نے کہا کہ وہاں سے انہیں اسلحہ اور فنڈنگ بھی ملتی ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے، ہم نے انکے سامنے تمام ثبوت رکھے جنہیں وہ نظرانداز نہیں کر سکتے، پاکستان کا افغان طالبان رجیم سے مطالبہ ہے کہ وہ ایک قابلِ تصدیق میکانزم کے تحت معاہدہ کریں۔اگر قابلِ تصدیق میکنزم تھرڈ پارٹی نے رکھنا ہے توپاکستان کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔ 

پاکستان کے اس موقف کی مکمل آگاہی ثالث ممالک کو بھی ہے، فتنہ الخوارج کے بارے میں طالبان رجیم کا یہ دعویٰ کہ وہ پاکستانی ہیں، ہجرت کر کے آئے ہیں اور ہمارے مہمان ہیں غیر منطقی ہے، اگر وہ پاکستانی شہری ہیں تو ہمارے حوالے کریں، ہم انکو اپنے قانون کے مطابق ڈیل کریں گے،  یہ کیسے مہمان ہیں جو مسلح ہو کر پاکستان آتے ہیں؟ 

‏انہوں نے کہا کہ SIGAR کی رپورٹ کے مطابق امریکی افواج انخلا کے دوران 7.2 بلین ڈالرز کا امریکی فوجی ساز و سامان افغانستان چھوڑ گئی ہیں، افغان رجیم نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے- 

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں 2021 کے بعد ریاست اورحکومت کا قیام ہونا تھا جو ممکن نہ ہوسکا، طالبان رجیم نے اس وقت Non State Actor پالے ہوئے ہیں جو خطے کےمختلف ممالک کیلئے خطرہ ہیں- 

پاکستان کا مطالبہ واضح ہے کہ افغان طالبان کا طرز عمل ایک ریاست کی طرح ہونا چاہئے، دوحہ مذاکرات میں افغان طالبان نے بین الاقوامی برادری  سے اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہ ہونے کا وعدہ کیا مگر اس پراب تک عمل نہیں ہوا- 

افغان طالبان رجیم افغانیوں کا نمائندہ نہیں ہے کیونکہ یہ تمام قومیتوں کی نمائندگی نہیں کرتا، افغانستان کی 50 فیصد خواتین کی نمائندگی کا اس رجیم میں کوئی وجود نہیں، ہمارا افغانیوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ ہمارا مسئلہ افغان طالبان رجیم کے ساتھ ہے، پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے، ہندوستان میں خود فریبی کی سوچ رکھنے والی قیادت کی اجارہ داری ہے، انڈین آرمی چیف کا یہ بیان کہ ہم نے آپریشن سندور کے دوران ایک ٹریلر دکھایا خود فریبی کی حامل سوچ کا عکاس ہے۔ 

جس ٹریلر میں سات جہاز گر جائیں، 26 مقامات پر حملہ ہو جائے اور ایس-400کی  بیٹریاں  تباہ ہو جائیں تو ایسے ٹریلر پر مبنی فلم ان کیلئے horror فلم بن جائے گی، سندور میں ہوئی شکست پر بار بار کے جھوٹے ہندوستانی بیانات عوامی غم و غصے کو تحلیل کرنے کیلئے ہیں- 

کوئی بھی ملک اگرافغان طالبان رجیم کو فوجی سازو سامان مہیا کرتا ہے تو یہ دہشتگردوں کے ہاتھ ہی لگے گا،  ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہریلا بیانیہ بنانےوالے X اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلتے ہیں، پاکستان سے باہر بیٹھ کر یہاں کی سیاست اور دیگر معاملات میں زہر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ  بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا کے یہ اکاؤنٹس لمحہ بہ لمحہ پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں، یہ بات واضح ہے کہ جو سوشل میڈیا پاکستان میں چل رہا ہے درحقیقت  اس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں، 

دہشتگردی پر تمام حکومتوں اورسیاسی پارٹیوں کا  اتفاق ہےکہ اس کا حل نیشنل ایکشن پلان میں ہے، اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بلوچستان میں ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے- جبکہ خیبر پختونخوا میں اسکی کمی نظر آتی ہے۔

اس نظام کے تحت ضلعی ، ڈویژنل اور صوبائی سطح پر سٹیرنگ، مانیٹرنگ اور implementation کمیٹیاں بنائی گئی ہیں،  ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ غیر قانونی اسپیکٹرم کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے، اس مد میں حاصل ہونے والی رقم دہشتگردی کے فروغ کیلئے استعمال کی جاتی ہے- 

ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ پر آرمی اور ایف سی اور صوبائی حکومت کے کریک ڈاؤن سے پہلے 20.5 ملین لیٹر ڈیزل کی یومیہ اسمگلنگ ہوتی تھی، یہ مقدار کم ہو کر 2.7 ملین لیٹر یومیہ پر آ چکی ہے، ایران سے سمگل ہونے والے ڈیزل کی مد میں حاصل ہونے والی رقم بی ایل اے اور BYC کو جاتی ہے- 

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے باعث بلوچستان کے 27 ضلعوں کو پولیس  کے دائرہ اختیار میں لایا جا چکا ہے جو کہ  بلوچستان کا 86فیصد حصہ ہے، بلوچستان میں صوبائی حکومت اور سیکورٹی فورسز مقامی لوگوں سے مسلسل انگیجمنٹ کر رہے ہیں۔اس طرح کی 140 یومیہ اور 4000 ماہانہ انگیجمنٹ ہو رہی ہیں جسکے بہت دورس نتائج ہیں، ان حکومتی اقدامات کے بغیر دہشت گردی کو قابو نہیں کیا جا سکتا-

 

متعلقہ مضامین

  • طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج
  • بھارت و افغان گٹھ جوڑاورامن
  • افغان طالبان  دہشت گردوں کے سہولت  کار : ڈی  جی آئی ایس پی آر 
  • افغانستان بطور عالمی دہشتگردی کا مرکز، طالبان کے بارے میں سخت فیصلے متوقع
  • دہشت گردی اور افغانستان
  • افغانستان کی طالبان رجیم پورے خطے کیلیے بڑا خطرہ بن چکی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • افغان رجیم ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکی ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • افغان حکومت نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کےلیے خطرہ بن چکی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • افغان طالبان ایک قابلِ تصدیق میکانزم کے تحت معاہدہ کریں: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • بھارت افغان کی شدت پسند پالیسیاں عالمی امن کیلئے شدید خطرہ