افغانستان، بھارت کے چنگل سے نکلے!
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
افغانستان اور پاکستان کی مسلح افواج کے مابین کئی روز کی شدید کشیدہ صورت حال میں پاکستان کی جانب سے افغان دارالحکومت کابل پر حملے کے بعد فریقین میں جنگ بندی ہو گئی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق طالبان کی درخواست پر حکومت پاکستان اور افغان طالبان کے مابین باہمی رضا مندی سے بدھ کی شام چھے بجے سے آئندہ اڑتالیس گھنٹوں کے لیے عارضی جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جنگ بندی کے اس عرصہ کے دوران فریقین تعمیری بات چیت کے ذریعے اس پیچیدہ مگر قابل حل مسئلے کا مثبت حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔ سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ افغان طالبان نے جنگ بندی کی اپیل قطر اور سعودی عرب کے ذریعے بھی کی۔ دونوں ممالک نے پاک افغان تنائو کم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سفارتی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کی بھر پور جوابی کارروائی کے بعد افغان طالبان نے براہ راست رابطہ بھی کیا۔ دوسری طرف پاک فوج نے چمن کے علاقے اسپن بولدک اور کرم میں پاکستانی پوسٹوں پر افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے حملوں کو ناکام بناتے ہوئے 50 طالبان کو ہلاک کر دیا۔ پاک فوج کی بھر پور جوابی کارروائیوں میں 8 چوکیاں اور 6 ٹینک تباہ ہو گئے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق ایک پوسٹ پر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 15 اکتوبر کی صبح افغان طالبان نے بلوچستان کے علاقے اسپن بولدک کے 4 مقامات پر حملے کیے جنہیں پاکستانی فورسز نے موثر طریقے سے پسپا کر دیا۔ یہ حملے مقامی بنی ہوئی بستیوں کے ذریعے منظم کیے گئے تھے جن میں شہری آبادی کی جان و مال کی پروا نہیں کی گئی۔ افغان فورسز نے چمن میں سول آبادی پر بلا اشتعال فائرنگ کی جس پر پاکستان نے موثر جواب دیا۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ افغان طالبان نے اپنی جانب سے پاک افغان فرینڈ شپ گیٹ کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی جو سرحدی تجارت اور قبائلی آمدو رفت میں سہولت کے لیے اہم ہے۔ بیان کے مطابق پاکستانی جوابی کارروائی میں 15 تا 20 افغان طالبان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اسپن بولدک پر حملہ کوئی الگ واقعہ نہیں تھا، 14 اور 15 اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان اور فتنہ الخوارج نے خیبر پختون خوا کے کرم سیکٹر میں بھی پاکستانی سرحدوں پر حملے کی کوشش کی جسے موثر انداز میں ناکام بنا دیا گیا۔ ترجمان کے مطابق جوابی کارروائی میں افغان مراکز کو بھاری نقصان پہنچا۔ 8 پوسٹیں، 6 ٹینک تباہ کیے گئے اور اندازے کے مطابق 25 تا 30 افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے جنگجو ہلاک ہوئے۔ آئی ایس پی آر نے افغان طالبان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ حملہ پاکستان کی جانب سے شروع کیا گیا اس تاثر کو گھنائونا اور واضح جھوٹ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ طالبان انتظامیہ کے اس پروپیگنڈے کو عام حقائق کی روشنی میں باآسانی بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ بیان کے اختتام پر کہا گیا پاک افواج ملکی خود مختاری اور سرحدی سالمیت کے دفاع کے لیے پختہ عزم رکھتی ہیں اور کسی بھی جارحیت کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان کی افواج نے قندھار اور کابل میں ٹارگٹڈ کارروائیاں کیں جن میں فتنہ الخوارج کے مرکز اور قیادت کو نشانہ بنایا۔ پاکستان کی جانب سے شہری آبادی سے الگ تمام اہداف باریک بینی سے منتخب کیے گئے اور انہیں کامیابی سے تباہ کیا گیا۔ کابل میں فتنہ الخوارج کے مرکز اور لیڈر شپ کو نشانہ بنایا گیا۔ پاک فوج نے قندھار میں افغان طالبان کی بٹالین ہیڈ کوارٹر نمبر 4، 8 اور بارڈر بریگیڈ نمبر 5 کے اہداف کو نشانہ بنایا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج نے نوشکی سیکٹر میں افغانستان کو بھر پور جواب دیتے ہوئے غزنالی پوسٹ پر پاکستانی پرچم لہرا دیا۔ افغانستان کی حدود میں تین کلو میٹر اندر واقع غزنالی پوسٹ تباہ کی گئی، افغان طالبان فوجی جوابی حملے میں غزنالی پوسٹ اور اسلحہ چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق ژوب اور چمن سیکٹر میں متعدد پوسٹیں اور خوارجین کی پناہ گاہیں مکمل تباہ ہو گئیں۔ پاک فوج کی جوابی کارروائیوں میں بھاری توپ خانے کا بھی استعمال کیا گیا۔ افغان طالبان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ مارٹر فائر کے بعد علاقے میں دھویں کے بادل اور دھماکوں کی آوازیں دیر تک گونجتی رہیں۔ پاک فوج کی موثر کارروائیوں سے اب تک سرحد پار طالبان کے متعدد ٹھکانے تباہ ہو چکے ہیں۔ پاک فوج نے 21 افغان طالبان پوسٹیں عارضی طور پر قبضے میں لیں جب کہ دہشت گردوں کے کئی تربیتی کیمپ ناکارہ بنائے۔ پاکستان اور افغانستان دو ہمسایہ اور مسلمان ممالک ہیں۔ افغان عوام ہمارے بھائی ہیںاور پاکستان نے ہمیشہ ان کے مفادات کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔ سفارتی تعاون اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ جس کی نمایاں مثال ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام نے مل کر عالمی استعمار خصوصاً سوویت یونین کی افغانستان کے خلاف جارحیت کا مقابلہ کیا اور اسے شکست اور اندرونی شکست و ریخت کا داغ پیشانی پر سجائے افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا۔ مگر بدقسمتی سے موجودہ افغان قیادت بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے بلکہ وہ پاکستان کے وجود ہی کو دل سے تسلیم نہیں کرتا اسے جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ پاکستان ہی نہیں بھارت کے تقریباً تمام ہمسایہ ممالک اس کی منفی، متعصبانہ اور تخریب کارانہ سوچ سے تنگ اور پریشان ہیں کیونکہ انہیں ہمہ وقت بھارت کی سازشوںکا سامنا رہتا ہے بلکہ اب اس کی سازشوں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کا دائرہ امریکا، جرمنی اور کینیڈا تک پھیل چکا ہے۔ پاکستان میں حالات کی خرابی کا ذمے دار ہمیشہ سے بھارت ہی رہا ہے جس کا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت کلبوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے تخریب کاری کے نیٹ ورک کے بے نقاب ہونے سے پوری دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ گزشتہ مئی میں ’’آپریشن بنیانٌ مرصوص‘‘ کی شاندار کامیابی اور بھارت کی عبرت ناک شکست کے بعد سے اس کے سینے پر مسلسل سانپ لوٹ رہے ہیں اور وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے اس کی جارحانہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کا مرکز افغانستان ہے۔ افغان وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ بھارت سے یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ افغانستان پوری طرح بھارت کے چنگل میں پھنس چکا ہے چنانچہ افغان قیادت نے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر پاکستانی عوام کے جذبات ہی کو ٹھیس نہیں پہنچائی جس کی کشمیر شہ رگ ہے بلکہ کشمیر کے اسی لاکھ مسلمانوں کے زخموں پر بھی نمک پاشی کی ہے۔ موجودہ صورت حال کا لازمی تقاضا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کشیدگی کو بڑھانے اور مسلح تصادم کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کی سنجیدہ کوشش کریں اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے بجائے دشمن کے عزائم کو پہچانیں اور انہیں ناکام بنانے کے لیے سفارتی ذرائع اور مذاکرات کا راستہ اختیار کریں اور محدود جنگ بندی سے آگے بڑھ کر خطے میں مستقل امن، استحکام اور مسائل کا پائیدار حل تلاش کریں اس مقصد کے لیے دوست ممالک کے خیر سگالی جذبات اور دونوں ملکوں کی نظریاتی ہم آہنگی کو بھی بروئے کار لایا جانا چاہیے…!!!
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سیکورٹی ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے فتنہ الخوارج کے پاکستان کی کی جانب سے پاک فوج نے اور افغان بھارت کے کیے گئے کیا گیا بھر پور کے لیے کے بعد
پڑھیں:
منشیات کا پھیلاؤ ’’فساد فی الارض‘‘ ہے !
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روس اور افغانستان کی جنگ 24/ دسمبر 1979 کو شروع ہوئی اور 10، سال بعد 15/ فروری 1989کو بند ہوگئی۔ اس جنگ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچاہے،ان دو ممالک کی جنگ کے دوران پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی، حکومت نے مذہبی رواداری اور انسانیت کے ناطے مظلوم افغان بھائی بہنوں کے لیے اپنی سرحدوں کو فراخ دلی سے کھول دیا انہیں رہائش کے ساتھ ساتھ کاروبار کی آزادی بھی حاصل ہوگئی۔ افغان پاک سرحد 2500، کلومیٹر طویل ہے، ہماری مہمان نوازی کی وجہ سے 70، لاکھ افغان مہاجرین ، پاکستان کے اہم حصوں میں رہائش پذیر ہوگئے اور اپنی مضبوط بستیاں قائم کرلیں۔ حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے مظلوم افغانیوں کے ساتھ بہت بڑی تعداد منشیات فروشوں کی کلاشنکوف کے ساتھ داخل ہوگئ اور دیکھتے ہی دیکھتے منشیات اور ناجائز اسلحہ پورے ملک میں پھیل گیا،1980 میں ہیروئین کا ایک بھی عادی فرد نہیں تھا لیکن آج پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ افراد اربوں روپوں کانشہ کر رہے ہیں، بے تحاشہ جدید اسلحہ حشرات الارض کی طرح قاتلوں کے پاس پہنچ گیا، ظلم تو یہ ہوا کہ طلباء میں منشیات کی رسائی کے ساتھ، افسوس در افسوس ان کو کلاشنکوف بھی تھما دی گئیں! منشیات کی پیداوار ، اسمگلنگ اور سپلائی کرنے والے ممالک میں ، افغانستان،ایران اور پاکستان پہلا ’’گولڈن کریسنٹ‘‘بن گئے ہیں۔ افغانستان سے منشیات کی ترسیل ،’’طور خم‘‘، ’’چمن‘‘ اور پاکستان کے سرحدی علاقوں سے منظم طریقوں سے ہوتی ہے۔ اس وقت افغانستان میں پوست کی کاشت 32، ہزار ایکڑ پر محیط ہے، امارات اسلامیہ افغانستان کو چاہیے کہ وہ اس کاشت کو مکمل طور پر تلف کر دے۔ تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کا مرکز افغانستان میں ہے، ٹی ٹی پی کسی بھی صورت میں پاکستان میں امن اور خاتمہ منشیات نہیں چاہتی اس سلسلے میں اس نے ہمارے دشمن انڈیا سے بھی ہاتھ ملا لیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق “طالبان حکومت ہر ماہ فتنہ الخوارج کے امیر نور علی محسود کو 50، ہزار 5،سو ڈالر دے رہی ہے۔”
ڈرگ مافیا اور افغانستان سے بڑے پیمانے پر خیبر پختون خواہ میں منشیات فروشوں کو ہمارے مقامی سیاسی لوگوں کی سہولت کاریاں اور سرپرستی حاصل ہے ۔ وادی تیراہ میں “فوجی آپریشن” کی مخالفت بھی یہ ہی لوگ کرتے ہیں، اس وجہ سے پورے ملک میں جرائم، لاقانونیت اور منشیات کے پھیلاؤ سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں، منشیات فروشوں کی محفوظ پناہ گاہیں افغان بستیاں بن چکی ہیں وہ یہاں سے نکل کر منشیات فروشی اور بڑے سے بڑا جرم کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں، ان جرائم پیشہ عناصر نے صرف کراچی شہر میں گزشتہ سال موبائل فون اور موٹر سائیکل چھیننے کی مزاحمت پر 110، اور رواں سال میں 76، معصوم شہریوں کی جانیں لی جا چکی ہیں۔ ملک بھر میں ان کے اربوں روپے کے ڈمپرز بغیر ٹیکس اور کاغذات کے چل رہے ہیں، ان ڈمپرز نے صرف کراچی میں رواں سال 217، معصوم لوگوں کی جان لی ہے، ان لوگوں کی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ قانون کی گرفت میں نہیں آپا تے ہیں۔ ،پاکستان کے بڑے شہروں کے چائے کے ہوٹل کی سر پر ستی بھی انہیں حاصل ہے، عوام الناس کو ملاوٹ والی نشی چائے پلا رہے ہیں، یہ ہوٹل دن رات کھلے رہنے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کی مستقل بیٹھک بن گئی ہے۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق منشیات فروش ٹی ٹی پی کے ذریعے وادی تیراہ اور سرحدی علاقوں میں 12، ہزار ایکڑ زمین پر پوست کی کاشت کر رہے ہیں،یہ ہمارے اینٹی نارکوٹکس فورس اور فرنیٹر گروپز کے جوانوں کو شہید کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں، ان لوگوں نے ہمارے 582، فوجی جوان و افسران اور 356، بے گناہ شہریوں کو بھی شہید کر دیا ہے۔ افغان حکومت جھوٹا پروپیگینڈا کرتی ہے کہ “پاکستان نے امریکہ کو اپنی سر زمین افغانستان پر حملوں کے لیے دے رکھی ہے، اسے جواز بنا کر افغانستان اب پاکستان پر وقتاً فوقتاً حملے کر رہا ہے۔افغان حکومت یاد رکھے کہ پاک فوج کے ساتھ 25، کروڑ عوام سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔
اگر ہم منشیات سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں تو جلد از جلد بقیہ 60، لاکھ افغانیوں کو 50، سال مہمان نوازی کے بعد اچھے طریقے سے رخصت کرنا ہوگا ، آپ دیکھیں گے کہ چند سالوں میں یقیناً وطنِ عزیز سے منشیات اور دیگر جرائم میں حیرت انگیز کمی واقع ہو جائے گی، ان کے جانے سے ہماری سلامتی محفوظ اور دنیا میں عزت کے مقام کے ساتھ ساتھ ہمارے لاکھوں معصوم لوگ منشیات کی عفریت سے بچ جائیں گے۔ ان شاءاللہ ۔