اسرائیل کا ریکارڈ اچھا نہیں، غزہ کے لیے جدوجہد جاری رہے، ترک صدر
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
اسرائیل کا ریکارڈ اچھا نہیں، غزہ کے لیے جدوجہد جاری رہے، ترک صدر WhatsAppFacebookTwitter 0 18 October, 2025 سب نیوز
انقرہ :ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ اسرائیل کا ریکارڈ اچھا نہیں اور ہمیں غزہ کے حوالے سے گہری تشویش ہے، کیونکہ وہاں کے عوام کو فوری طور پر شفا اور تعمیر نو کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق، صدر رجب طیب اردگان نے جمعہ کو استنبول میں پانچویں ترکی-افریقہ بزنس اور اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے لیے سخت محنت کی تاکہ غزہ میں امن قائم ہو سکے اور وہاں کے لوگ سکون کی زندگی گزار سکیں۔
اس سے پہلے، صدر اردوان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ترکی خلیجی ممالک، امریکا اور یورپی ممالک سے غزہ کی تعمیر نو کے لیے تعاون طلب کرے گا اور اُمید ظاہر کی کہ غزہ کے لیے مالی معاونت جلد فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں دو سال کے بعد تباہ شدہ مساجد دوبارہ آباد ہو رہی ہیں اور نماز جمعہ کی ادائیگی بھی شروع ہو چکی ہے۔
صدر اردوان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مغربی ممالک کا فلسطین کو تسلیم کرنا دو ریاستی حل کی طرف ایک اہم قدم ہے، اور غزہ کی تعمیر نو خطے میں امن اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ترکی جنگ بندی معاہدے کی نگرانی کے لیے ایک ”ٹاسک فورس“ کا حصہ بنے گا اور کہا کہ اُمید ہے کہ ترکی اس فورس میں شامل ہو گا، جو معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کرے گا۔
صدر نے ایک اور متنازعہ خطے کی طرف توجہ مبذول کرتے ہوئے سوڈان میں جاری جھڑپوں پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے افریقی ملک میں فوری جنگ بندی اور پائیدار امن کے لیے امید ظاہر کی، جبکہ عالمی برادری پر اس انسانی المیے پر ناکافی توجہ دینے پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا، ”خونریزی کا خاتمہ سب کی انسانی ذمہ داری ہے۔“
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرافغانستان کی سہ ملکی سیریز سے دستبرداری پر پی سی بی کا ردعمل سامنے آگیا پاکستان اور افغانستان کی جنگ ختم کرنا میرے لیے بہت آسان ہے، ٹرمپ سعودی حکام ابراہام معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ہیں، صدر ٹرمپ کا دعوی اسرائیلی پابندیاں دفن یرغمالیوں کی لاشیں نکالنے میں رکاوٹ ہیں: حماس حسینہ واجد 1400 مرتبہ سزائے موت کی مستحق ہیں: چیف پراسیکیوٹر بنگلادیش وینزویلا میں سی آئی اے کے “خفیہ آپریشن” کی لاطینی امریکہ کی طرف سے مذمت جاپان کے سابق وزیراعظم مورایاما تومیچی انتقال کر گئےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
حماس نے ایک اور مغوی کی لاش ریڈ کراس کے ذریعے اسرائیل کے حوالے کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے امن معاہدے کے تحت ایک اور اسرائیلی مغوی کی لاش ریڈ کراس کے حوالے کردی۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ ریڈ کراس کے ذریعے انہیں ایک مغوی کی لاش موصول ہوئی ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اب تک 28 میں سے 9 مغویوں کی لاشیں واپس مل چکی ہیں۔
حماس کے ترجمان نے وضاحت کی کہ متعدد لاشیں اب بھی تباہ شدہ عمارتوں اور سرنگوں کے ملبے تلے دبی ہوئی ہیں، جنہیں نکالنے میں بھاری مشینری اور وقت درکار ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری نے ایسے حالات پیدا کیے ہیں جن میں انسانی باقیات تک پہنچنا انتہائی دشوار ہو چکا ہے۔
قبل ازیں دو روز قبل اسرائیلی وزیر دفاع کی جانب سے دھمکی آمیز بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ حماس اگر معاہدے کی شرائط پر مکمل عمل نہیں کرتا اور اسرائیل کے تمام یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہیں کی جاتیں تو فوج غزہ میں دوبارہ حملے شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
اسی اثنا میں اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے گزشتہ روز بھی غزہ پر فضائی حملہ کیا گیا ہے، جس میں ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد کو شہید کردیا گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے حماس پر امن معاہدے پر عمل کے لیے دباؤ ڈالنا محض دھمکیاں دینے کے مترادف ہے جب کہ صہیونی ریاست خود اپنی جارحیت جاری رکھتے ہوئے عمل معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز حماس نے کہا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں اور غزہ کے شمالی حصے میں جاری جارحیت تباہ شدہ سرنگوں سے لاشیں نکالنے کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ تنظیم کے مطابق اسرائیلی فورسز نے ان علاقوں میں بارود برسا کر نہ صرف انسانی ہمدردی کے کاموں کو متاثر کیا بلکہ ریڈ کراس کے اہلکاروں کو بھی کئی مقامات پر جانے سے روک رکھا ہے۔
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق یہ تازہ پیش رفت اگرچہ معمولی نظر آتی ہے، لیکن غزہ امن معاہدے کے نفاذ کے حوالے سے ایک عملی قدم ہے، جو مستقبل میں فریقین کے درمیان قیدیوں اور لاشوں کے تبادلے کے لیے ماحول ہموار کر سکتا ہے۔