اسرائیل نے امن معاہدے کی دھجیاں اُڑا دیں؛ غزہ میں فضائی حملہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد شہید
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: قابض صہیونی ریاست نے امن معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک بار پھر عالمی کوششوں کو روند کر اپنی جارحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔
اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ پر بمباری کرکے الزیتون کے علاقے میں ایک ہی فلسطینی خاندان کے گیارہ افراد کو شہید کردیا، جس میں 7 بچے اور تین خواتین بھی شامل تھیں۔
قابض فوج کی اس جارحیت کا نشانہ بننے والے یہ فلسطینی اپنے گھر واپس لوٹ رہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی کو فضائی حملے کا نشانہ بنا دیا گیا اور لمحوں میں سب کچھ ملبے میں تبدیل ہو گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے کسی پیشگی وارننگ کے بغیر غزہ شہر کے گنجان آباد علاقے الزیتون میں کار پر میزائل داغا۔ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اردگرد کے گھروں کے شیشے بھی چکنا چور ہوگئے۔ مقامی افراد نے زخمیوں کو ملبے سے نکالنے کی کوشش کی لیکن گاڑی میں سوار تمام افراد موقع پر ہی جامِ شہادت نوش کر گئے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب چند روز قبل ہی مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے درمیان جنگ بندی طے پائی تھی، تاہم اسرائیلی فورسز کی جانب سے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی امن معاہدے کی کھلی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور یہ حملہ اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔
فلسطینی حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل کی اس کارروائی نے واضح کر دیا ہے کہ صہیونی ریاست کسی امن معاہدے کی پابند نہیں، بلکہ وہ جان بوجھ کر انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔
حماس کے ترجمان نے اس وحشیانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ امن معاہدے کی کھلی خلاف ورزی اور فلسطینی عوام کے خلاف دہشت گردی کی تازہ مثال ہے۔ اسرائیل مسلسل نہتے شہریوں، بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنا کر اپنے وحشیانہ عزائم کو واضح کر رہا ہے، جب کہ عالمی طاقتیں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ترجمان نے مطالبہ کیا کہ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں فوری طور پر کارروائی کریں اور اسرائیل کو جنگی جرائم پر جواب دہ بنایا جائے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اسرائیلی حملے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔ اداروں نے اپنے بیانات میں کہا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے رہائشی علاقوں پر بمباری عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ان تنظیموں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل پر سفارتی اور قانونی دباؤ ڈالا جائے تاکہ وہ معصوم فلسطینیوں کے قتلِ عام کو روکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امن معاہدے کی
پڑھیں:
غزہ معاہدے کے حامی مسلم ممالک کو ’اپنی پوزیشن پر دوبارہ غور‘ کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اتوار کو غزہ میں امن کے لیے اسرائیل کی وابستگی پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ امن معاہدے کی حمایت کرنے والے مسلم ممالک کو ’اپنی پوزیشن پر دوبارہ غور کرنے‘ کی ضرورت پڑ سکتی ہے، کیوں کہ علاقے میں نازک جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
اگرچہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 9 اکتوبر کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم اسرائیل نے علاقے پر بمباری جاری رکھی ہے، اور امن کے لیے طویل مدتی منصوبے پر بات چیت کی جا رہی ہے۔
وزیر دفاع نے آج سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ میں کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے پر ایک طرفہ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے، اور اسرائیلی افواج ’معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں فلسطینی، بشمول بچے، مارے جا رہے ہیں‘۔
The ceasefire agreement in Gaza has been criticized for being one-sided, Israeli forces continue to violate the truce, killing Palestinians, including children. Since the ceasefire took effect on October 10, at least 352 Palestinians have been killed, and over 70,000 people have…
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) November 29, 2025
خواجہ آصف نے کہا کہ شرم الشیخ میں دستخط کیے گئے اس معاہدے کا مقصد خطے میں استحکام لانا تھا، لیکن اسرائیل کے اقدامات نے اس کی وابستگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ مسلم ممالک جو اس معاہدے کی حمایت کر چکے ہیں (جن میں ترکی، مصر اور قطر شامل ہیں) کو جاری تشدد کے پیش نظر اپنی پوزیشن پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان پہلے ہی تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں اور کہا ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کو فلسطینی مسئلے کے حتمی حل کے طور پر نہیں سمجھنا چاہیے۔
خواجہ آصف نے نشاندہی کی کہ جب سے 10 اکتوبر کو جنگ بندی نافذ ہوئی، کم از کم 352 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ تصادم کے آغاز سے اب تک غزہ میں 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کا نسل کشی کا عمل ختم نہیں ہوا، اور بین الاقوامی برادری خصوصاً مغربی حکومتوں کو اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کی پابندی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔
امریکی ثالثی میں طے پانے والے غزہ امن معاہدے کی بنیاد بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کے قیام پر ہے، جو زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک کے فوجیوں پر مشتمل ہے، تاہم، وہ ممالک جو پہلے اس منصوبے کی حمایت کر چکے تھے، اب تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
گزشتہ روز ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان غزہ امن فورس میں فوجی تعینات کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن حماس کو غیر مسلح کرنے میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں، یہ ہمارا کام نہیں، بلکہ فلسطینی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے، ہمارا کام امن قائم رکھنا ہے، امن نافذ کرنا نہیں۔