عالمی مسابقت کی ملک میں بنیادی معاشی حیثیت ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (بزنس رپورٹر )بینک دولت پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر جمیل احمد نے زور دیا ہے کہ پاکستان کو قلیل مدتی معاشی استحکام کی کوششوںکے بجائے ہنگامی بنیادو ں پر ایک مضبوط، پائیدار اور بیرونی دنیا سے مربوط معاشی نمو کے ماڈل پر منتقل ہونا چاہیے۔ پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کے ’معیشت پر مذاکرات‘ کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر جمیل احمد نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان بار بار معاشی نمو اور اس کے بعد استحکام کے تکلیف دہ اقدامات کے ادوار سے گذر چکا ہے اور موجودہ حالات طویل مدتی تبدیلی لانے کا حقیقی موقع فراہم کرتے ہیں ، بشرطیکہ پالیسیوں میں تسلسل برقرار رہے اور نجی شعبہ حالات سے مطابقت کے لحاظ سے ہراول دستے کا کردار ادا کرے۔ جمیل احمدنے وضاحت کی کہ موجودہ استحکام کا مرحلہ گذشتہ ادوار سے کیوں مختلف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب کلی معاشی نظم و ضبط ہم آہنگ اور مستقبل بین زری اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے مستحکم ہوا ہے اور اسی کی مدد سے اس قبل از وقت نرمی سے بچا جاسکا ہے جو ماضی میں استحکام کو متاثر کرتی رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی بینک کی پیش گوئی کی بہتر صلاحیت سے پالیسی سازوں کو قلیل مدتی اظہاریوں کے بجائے آٹھ سہ ماہیوں کے تخمینوں کی بنیاد پر فیصلے کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے توثیق کی کہ مہنگائی نہ صرف ہماری پیش گوئی کے مطابق کم ہوئی ہے بلکہ توقع ہے کہ وسط مدت میں یہ 5 تا7 فیصد کے ہدف میں برقرار رہے گی۔ جمیل احمد نے زور دیا کہ بہتر استحکام کا ایک اہم ستون بیرونی بفرز کا معیاری طور پر مضبوط ہونا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں قرض پر مبنی آمدنی پر انحصار کے بجائے زرمبادلہ ذخائر میں حالیہ اضافہ اسٹریٹجک زرِ مبادلہ خریداریوں اور کم ہوتے ہوئے مستقبل کے واجبات (forward liabilities) کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ 2022ء سے اب تک سرکاری شعبے کے بیرونی قرضے تقریباً مستحکم رہے ہیں، جبکہ بیرونی قرضوں اور جی ڈی پی کا تناسب 31 فیصد سے کم ہو کر 26 فیصد رہ گیا ہے۔ اسی مدت کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 2.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ جمیل احمد نے اسٹیٹ بینک طویل مدتی کے بجائے کی بنیاد زور دیا
پڑھیں:
عالمی کوششوں کے باوجود اسرائیلی جارحیت جاری ہے، پاکستان کا سلامتی کونسل میں دوٹوک مؤقف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں مشرقِ وسطیٰ کی سنگین صورتحال اور فلسطینی عوام کی بدستور جاری اذیت ناک حالت پر پاکستان نے ایک مرتبہ پھر نہایت واضح، دوٹوک اور اصولی مؤقف پیش کیا۔
پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اپنے تفصیلی بیان میں دنیا کو یاد دلایا کہ مقبوضہ فلسطین میں سیاسی پیش رفت کی چند جھلکیاں دکھائی دینے کے باوجود زمینی حقیقتیں اب بھی شدید تباہی، مسلسل جارحیت اور انسانی جانوں کے زیاں کے گرد گھوم رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں پچھلے 2 برس کے دوران اسرائیلی قبضے نے جس بے رحمی کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے کو کھنڈر بنا دیا ہے، وہ صرف ایک انسانی بحران نہیں بلکہ عالمی نظامِ انصاف کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔
سفیر پاکستان عاصم افتخار نے بتایا کہ 70 ہزار سے زائد فلسطینی، جن میں خواتین اور بچے بڑی تعداد میں شامل ہیں، اسرائیلی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں۔ پورا معاشی و سماجی ڈھانچہ ملبے میں بدل چکا ہے جبکہ دنیا کی جانب سے بارہا کیے گئے جنگ بندی کے مطالبے مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔
پاکستانی مندوب نے اپنی بریفنگ میں دو اہم سفارتی پیش رفتوں کا ذکر کیا جو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سامنے آئیں۔ پہلی پیش رفت وہ اعلیٰ سطحی بین الاقوامی نشست تھی جس میں عالمی برادری نے دو ریاستی حل کے لیے ناقابلِ واپسی اقدامات اٹھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ دوسری بڑی کامیابی شرم الشیخ امن سربراہ اجلاس تھی، جہاں خطے اور عالمی طاقتوں نے جنگ بندی کے استحکام، انسانی المیے کے ازالے اور ریاستِ فلسطین کے قیام کے قابلِ عمل راستے پر اتفاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ انہی سفارتی کوششوں کا نتیجہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2803 کی صورت میں سامنے آیا، جس نے امن کے لیے ایک نیا سیاسی دروازہ کھولا، تاہم پاکستانی مندوب نے تشویش ظاہر کی کہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود اسرائیلی فورسز کے حملے مسلسل جاری ہیں اور 300 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ محض بیانات عملی تحفظ کا راستہ نہیں بن سکتے۔
انہوں نے واضح کیا کہ مغربی کنارہ بھی شدید عدمِ تحفظ کا شکار ہے جہاں اسرائیلی آبادکاروں کی پرتشدد کارروائیاں ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہیں اور متعدد فلسطینی دیہات جبری بے دخلی کا سامنا کررہے ہیں۔
عاصم افتخار نے امن عمل کے لیے بنیادی نکات پیش کیے جن میں قرارداد 2803 پر مخلصانہ عمل درآمد، مکمل جنگ بندی، انسانی امداد کی بلارکاوٹ رسائی، غزہ کی فوری تعمیرِ نو، جبری بے دخلی اور الحاق کی مکمل روک تھام، اسرائیلی آبادکاری کا خاتمہ اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر شفاف احتساب شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک پائیدار سیاسی راستہ تب ہی ممکن ہے جب فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کا احترام کیا جائے اور 1967 کی سرحدوں کے مطابق القدس شریف کو دارالحکومت بنا کر ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔
پاکستانی مندوب نے عالمی برادری کو یاد دلایا کہ یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ اب وعدے نہیں، عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ وہ فلسطینی عوام کی جدوجہد، ان کے حقوق، اور ان کی آزادی کے لیے نہ صرف سفارتی سطح پر بلکہ اصولی بنیادوں پر ہمیشہ کھڑا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کی بے مثال ثابت قدمی عالمی برادری سے اسی درجے کے عزم کی متقاضی ہے اور پاکستان ان کے ساتھ اپنی غیر متزلزل یکجہتی جاری رکھے گا۔