Express News:
2025-11-25@00:15:04 GMT

تم ڈاکٹر نہیں دہشت گرد ہو

اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT

انیس سو انچاس کے جنیوا کنونشن کے تحت حالتِ جنگ میں طبی مراکز اور عملے کا مکمل تحفظ متحارب فریقوں کی بنیادی ذمے داری ہے۔کسی بھی طبی مرکز یا عملے کو جان بوجھ کر مادی یا جانی نقصان پہنچانے کی کارروائی بھلے کسی بھی جواز کی آڑ میں کی جائے، اسے انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جائے گا۔

عالمی میڈیکل ایسوسی ایشن ( صدر دفتر جنیوا ) کے بنیادی منشور کے مطابق طبی عملے کو کسی بھی انسانی یا قدرتی بحران میں بلاامتیاز و رکاوٹ اپنے پیشہ وارانہ حلف کی پاسداری کرتے ہوئے صرف انسانیت کی خدمت پیشِ نظر رکھنی چاہیے۔ معالجوں کو غیر جانبدار رہنا چاہیے تاہم سیاست یا کسی اور دباؤ کے سبب بنیادی طبی اخلاقیات خطرے میں پڑ جائیں، تب طبی ضوابط کے تحفظ کے لیے بولنا ضروری ہے۔کیونکہ طب محض کوئی سائنسی شعبہ یا پیشہ نہیں بلکہ انسانی فریضہ ہے اورجب فرض کی حرمت خطرے میں پڑ جائے تو خاموش رہنا بھی جرم کے دائرے میں آتا ہے۔

اس تناظر میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ عالمی سطح پر طبی سائنس اور پیشے سے وابستہ اداروں ، افراد اور تحقیقی رسائل نے اب تک مقبوضہ فلسطین کے انسانی و طبی بحران پر کیا موقف اختیار کیا ؟ آیا خاموشی میں عافیت جانی یا آواز بلند کی ؟

اس سوال کے جواب سے بھی پہلے مسئلے کی سنگینی دیکھنا ضروری ہے۔عالمی ادارہِ صحت سمیت اقوامِ متحدہ کے متعلقہ اداروں کے مطابق موجودہ جنگ بندی ( دس اکتوبر ) سے پہلے تک غزہ کے صحت مراکز پر سات سو اسی حملے ہوئے۔ پچانوے فیصد ایمبولینسیں اور تمام بڑے اسپتال تباہ ہو گئے۔صحت کے شعبے کے سترہ سو بائیس افراد شہید ہوئے۔چار سو اکتیس کو اسرائیلی فوج نے اغوا کیا۔مغویوں میں غزہ اور مغربی کنارے پر کام کرنے والے پچانوے ڈاکٹر اور طبی کارکن بھی شامل ہیں۔

ان میں سے تین سو نو کو پوچھ گچھ اور ٹارچر کے بعد چھوڑ دیا گیا۔مگر جو ڈاکٹر اب بھی قید ہیں، ان میں شمالی غزہ کے کمال ادوان اسپتال کے ڈائریکٹر حسام ابو صفیہ نمایاں ہیں۔حسام کو ڈیوٹی کے دوران بمباری سے اپنے بیٹے کی شہادت کی اطلاع ملی مگر حسام بدستور مریضوں کے ساتھ رہے۔ حسام کو گزشتہ سال دسمبر میں اسپتال سے گرفتار کیا گیا۔ان پر ایک قانونی ریاست (اسرائیل) سے نبرآزما جنگجو ہونے کی فردِ جرم لگائی گئی۔عدالت ان کی نظربندی میں چھ چھ ماہ کی دو بار توسیع کر چکی ہے۔حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے جن دو ہزار فلسطینی قیدیوں کی فہرست پیش کی تھی، اس میں حسام کا نام بھی شامل تھا مگر اسرائیل نے انھیں خطرناک قیدی بتا کر رہا کرنے سے انکار کر دیا۔

 تین سینئر فلسطینی ڈاکٹر ، ایک فارماسسٹ اور ایک فزیو تھراپسٹ ہنوز لاپتہ ہیں اور دیگر پانچ کے مرنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ فزیشنز فار ہیومین رائٹس اسرائیل ( ایف ایچ آر آئی ) کے ڈیٹا کے مطابق جو فلسطینی قیدی دورانِ قید مرے ، ان میں تین ڈاکٹر اور ایک طبی کارکن شامل ہیں۔ان میں سب سے مشہور نام غزہ کے آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر عدنان البرش کا ہے۔

سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد ڈاکٹر عدنان غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس دوران سوشل میڈیا پر وڈیوز بھی پوسٹ کرتے تھے جن میں گھمبیر حالات میں ڈاکٹروں کو کام کرتے دکھایا جاتا رہا۔ایک وڈیو میں ڈاکٹر عدنان اسپتال کے احاطے پر اسرائیلی بمباری سے مرنے والوں کے لیے اجتماعی قبر کھودنے کے کام میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ محاصرے کے سبب لاشوں کو بھی تدفین کے لیے اسپتال سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

جب اسرائیلی فوج کے مسلسل حملوں اور محاصرے کے نتیجے میں مریضوں سمیت الشفا اسپتال خالی کرنا پڑا تو ڈاکٹر عدنان انڈونیشیا اسپتال میں منتقل ہو کر زخمیوں کو بچانے کے کام میں لگ گئے۔انڈونیشیا اسپتال کے محاصرے اور مسلسل حملوں کے بعد ڈاکٹر عدنان کو العودہ اسپتال منتقل ہونا پڑا اور وہاں سے انھیں دیگر طبی کارکنوں اور ڈاکٹروں کے ہمراہ حراست میں لے کر اسرائیل منتقل کر دیا گیا۔ چار ماہ تک انھیں بہیمانہ ریپ سمیت مسلسل ٹارچر کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔

فزیشنز فار ہیومین رائٹس نے رہائی کے بعد جن چوبیس طبی کارکنوں کی شہادتیں ریکارڈ کیں۔ان میں سے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے سدی تیمان فوجی کیمپ میں آنکھوں پر مسلسل پٹی باندھ کے رکھا گیا۔ تشدد کے سبب مجھے ہرنیا ہو گیا۔کئی ہفتوں بعد قیدخانے کے ایک ڈاکٹر نے میری آنکھوں سے پٹی اتارے بغیر معائنہ کیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں بھی تمہاری طرح ڈاکٹر ہوں لہٰذا ٹھیک سے معائنہ کرنا۔اس نے میرے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا کہ تم ڈاکٹر نہیں دہشت گرد ہو۔

اسرائیلی میڈیکل ایسوسی ایشن نے غزہ پر فوج کشی کی مخالفت کرنے والوں کی بارہا کھلی مذمت کی۔ ایک سو سے زائد اسرائیلی ڈاکٹروں نے غزہ کے اسپتالوں کو دہشت گردی کے ٹھکانے قرار دینے کے سرکاری بیانیے کی مکمل تائید کرتے ہوئے ان اسپتالوں پر حملوں کو جائز قرار دیا۔کسی اسرائیلی ڈاکٹر نے مغربی کنارے پر دندناتے مسلح یہودی آبادکاروں کے علاج سے انکار نہیں کیا البتہ فلسطینی قیدیوں پر ٹارچر میں نہ صرف ساتھ دیا بلکہ اسرائیلی پیرا میڈیکل اسٹاف اور ہیلتھ ورکرز باقاعدہ فوجی خدمات بھی انجام دیتے ہیں۔ قید خانوں کے اسپتالوں میں متعین ڈاکٹروں کو فوجی یونیفارم میں مسلح ہو کر آنے کی اجازت ہے۔

گذرے مئی میں نیویارک ریویو آف بکس میں ’’اسرائیلی طبی شعبے کے لیے شرم کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شایع ہوا۔ یہ مضمون فزیشنز فار ہیومین رائٹس کے سابق ڈائریکٹر نیوی گورڈن ، طبی اسکالر گائے شولوم اور عرب اسرائیلی ماہرِ امراضِ اطفال اسامہ تانوس نے مشترکہ طور پر لکھا۔

مضمون کے مطابق اسرائیلی اسپتالوں میں فلسطینی مریضوں کو مشکل سے داخل کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عموماً قیدی مریضوں کی بیڑیاں اور آنکھوں کی پٹیاں اتروانے پر بھی اصرار نہیں کرتے۔ایسے مریضوں کو جان بوجھ کر طاقت ور پین کلرز نہیں دیے جاتے۔کئی ڈاکٹر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نسل کشی پر اکسانے والے پیغامات شئیر کرتے ہیں۔وہ اپنے عرب ساتھیوں کے سامنے بہت آرام سے کہتے ہوئے گذر جاتے ہیں کہ غزہ میں کوئی معصوم نہیں ، غزہ کو جلا دینا چاہیے۔پوری اسرائیلی طبی برادری نے بے حسی یا خوف کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔

 اس کے برعکس اگر کوئی عرب اسرائیلی ڈاکٹر یا طبی کارکن غزہ کے بارے میں ایک بھی ہمدردانہ جملہ پوسٹ کر دے تو اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی چھان پھٹک اور پوچھ تاچھ شروع ہو جاتی ہے اور نوکری بھی جا سکتی ہے۔مثلاً ہیبرو یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نادرہ شلہوب کو ایک پوڈ کاسٹ میں اہلِ غزہ کے لیے ہمدردی کے دو بول بولنے پر نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔

اسرائیل کے طبی شعبے میں عرب نژاد ڈاکٹروں کا تناسب پچیس فیصد اور نرسنگ اسٹاف میں لگ بھگ پچاس فیصد ہے۔یہ عرب اسرائیلی ڈاکٹرز بھی میڈیکل ایسوسی ایشن کے ممبر ہیں مگر ان کے یہودی ساتھی ان کے خلاف ہونے والی کسی بھی تادیبی کارروائی سے لاتعلق رہتے ہیں۔البتہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں۔ فزیشنز فار ہیومین رائٹس نامی انجمن انیس سو اٹھاسی سے فعال ہے۔اس کا مقصد مقبوضہ فلسطین میں ہر ایک کو یکساں طبی حقوق دلانا ہے۔ ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اس انجمن کے ممبر ہیں اور وہ اپنے موبائل کلینکس کے ذریعے ان علاقوں میں سالانہ تقریباً بیس ہزار افراد کو طبی سہولتیں فراہم کرتے ہیں جنھیں اسرائیلی ریاستی طبی ڈھانچہ نظر انداز کرتا ہے۔

 اسرائیل سے باہر کی ڈاکٹرز برادری اور میڈیکل اداروں کو فلسطینیوں کی آخر کتنی پرواہ ہے؟ اس کا جواب اگلے مضمون میں تلاش کرنے کی کوشش ہو گی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فزیشنز فار ہیومین رائٹس اسرائیلی ڈاکٹر ڈاکٹر عدنان کے مطابق کسی بھی غزہ کے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

عورت کو نعرے نہیں حقوق چاہئیں،خواتین بیدار ہو گئیں،ڈاکٹر حمیرا طارق

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور (نمائندہ جسارت) حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان کی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حمیرا طارق نے کہا ہے کہ عورت کو نعرے نہیں حقوق چاہئیں، خواتین اب بیدار ہوگئی ہیں ،جماعت اسلامی عورت کو گھر کی زینت اور معاشرے کی قوت بنانا چاہتی ہے،یہ بات انہوں نے اجتماعِ عام کے دوسرے روز خواتین سیشن بعنوان ’’جہاں آباد تم سے ہے ‘‘سے اپنے خطاب میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اجتماع عام میں خواتین کی بھرپور حاضری اس حقیقت کی گواہ ہے کہ پاکستان کی خواتین بیدار ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر حمیرا طارق نے کہا کہ عورت بحیثیت ماں، بہن، بیوی بیٹی کمزور نہیں، اسلام نے اسے اسی حیثیت میں عزت دی ہے، آج وہی عورت ظلم، گھریلو تشدد اور وراثت سے محروم ہے۔حمیرا طارق نے کے بقولجیلوں میں قید خواتین کی بحالی، رہنمائی اور باعزت آزادی کے لیے جماعت اسلامی جدوجہد کر رہی ہے۔’’ناظمہ اجتماع اور ڈپٹی سیکرٹری ثمینہ سعید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن نے حلال و حرام، جائز و ناجائز کی مکمل وضاحت کر دی ہے۔ انہوں نے حضرت حفصہؓ، حضرت عائشہؓ کی علمی خدمات اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے اکابر کی تربیت کرنے والی عظیم خواتین کا ذکر کیا اور کہا کہ قرآن ان باکردار عورتوں کی گواہی دیتا ہے، ہمیں بھی اُمید کی کرن بنتے ہوئے اسلامی نظام نافذ کرنے کی کوشش جاری رکھنی ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے پرجوش نعروں سے ماحول گونج اٹھا۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس اجتماع میں خواتین کی بھرپور موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نظامِ تبدیلی کے لیے سرگرم اور پُرعزم ہیں۔ڈاکٹر زبیدہ جبین نے کانفرنس کا اعلامیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عورت پر مظالم کی بڑی وجہ قران کے نظام کا نفاذ نہ ہونا ہے۔انہوں نے اعلامیہ کی سفارشات میں کہا کہ نظام کی تبدیلی پر صحت مندنسل کی تیاری کے لے تعلیمی ادارے بچوں کی اخلاق،نفسیاتی اور جسمانی نشوونما کے بھی ذمے دار بنیں گے،ماں اور بچے کو صحت مند ماحول کی فراہمی،سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کی تربیت اور فری ہیلتھ کئیر کا قیام شامل ہے اس خواتین سیشن میں نمایاں خواتین کو ہائی ایچیورز ایوارڈ دیے گئے ۔ ان میں ملائیشیا سے ڈاتو ہاجا،زیرائدھا بینٹی کورنین،فلسطین سے ڈاکٹر فوزیہ حسن،بنگلا دیش سینور النساء صدیقہ،انگلینڈ سے لورئین بوتھ، آسٹریلیا سے سانو ابوشبان،ہسنا عبیداللہ عزیز انڈونیشیا،لائلہ زیتونی جرمنی،نورجہاں ہلوانی انڈونیشیا، عائشہ عطاالرحمن ترکیہ،ھداحسین محمد عتوم اردن،سمیرا تاج کو بحرین سے دیے گئے۔ خواتین سیشن میں ڈپٹی سیکرٹری ڈاکٹر زبیدہ جبیں، عطیہ نثار، عائشہ سید، ناظمہ وسطی پنجاب نازیہ توحید، ناظمہ حلقہ لاہور عظمی عمران، ناظمہ کے پی کے شازیہ افضل، ناظمہ صوبہ سندھ رخشندہ منیب بھی موجود تھیں۔

نمائندہ جسارت گلزار

متعلقہ مضامین

  • اسلام نے خاندانی نظام کو مضبوط بنیادیں فراہم کی ہیں، ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں
  • پشاور ایف سی ہیڈکوارٹر پر دہشت گردی اور لبنان پر اسرائیلی جارحیت قابلِ مذمت ہے، علامہ نثار قلندری
  • اقبالؒ اور بلوچستان
  • غزہ سیز فائر، مستقبل پر سنگین سوالات
  • کوئی بھی بین الاقوامی طاقت حماس کو غیر مسلح نہیں کر سکتی، صیہونی وزیر
  • اسرائیلی حمایت کا شبہ، انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم نے چیئرمین سے استعفیٰ طلب کر لیا
  • غزہ لبنان نہیں ہے‘‘ حماس نے جنگ بندی معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دے دی
  • عورت کو نعرے نہیں حقوق چاہئیں،خواتین بیدار ہو گئیں،ڈاکٹر حمیرا طارق
  • انسدادِ دہشت گردی عدالت نے یاسمین راشد کی ضمانت منظور کرلی