Express News:
2025-11-23@22:34:10 GMT

اقبالؒ اور بلوچستان

اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT

میں ابھی ابھی کوئٹہ سے لوٹا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ میرے اس سفر کا حاصل کیا ہے؟ زیادہ سوچنا نہیں پڑا جیسے ہی سوال ذہن میں آیا، ایک نورانی صورت آنکھوں میں سما گئی۔ بوٹا سا قد، نورانی چہرہ اور لبوں سے جھڑتے ہوئے پھول، فرمایا:

’یہ امت متصادم نہیں متشامل ہے‘

یہ جملہ محض ایک جملہ نہیں، ایک لائحہ عمل ہے، صرف لائحہ عمل نہیں، مسلم امہ کے مسائل کی تشخیص اور ان کے حل کا تیر بہدف نسخہ ہے۔ کیسے؟ اس سوال کے جواب سے قبل ضروری کہ اس جملے کی شان نزول بیان کر دی جائے۔ کچھ عرصہ ہوتا ہے، اقبال اکیڈمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف رفیقی نے مجھے خبردار کیا کہ کوئٹہ کے لیے تیار رہنا۔ ہماری رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اتھارٹی کے متحرک و سرگرم ڈائریکٹر سہیل بن عزیز مجھے پہلے ہی بتا چکے تھے کہ اقبال اکادمی نے علامہ محمد اقبال ؒکی سال گرہ کی مناسبت سے کوئٹہ میں بین الاقوامی کانفرنس کا فیصلہ کیا ہے جس میں رحمۃ للعالمین یوتھ کلب کوئٹہ تعاون کر رہا ہے۔

اتھارٹی کے ممبر کی حیثیت سے مجھے بھی اس میں شرکت کرنی ہے۔ یہ یوتھ کلب کوئٹہ کے معروف اور نیک نام تعلیمی ادارے تعمیر نو پبلک کالج میں قائم کیا گیا ہے جس کے کوآرڈینیٹر حافظ طاہر جیسی متحرک اور مخلص شخصیت ہیں۔ حافظ طاہر کا تعارف آسان نہیں۔ وہ جذبہ ٔٔعمل سے سرشار ایک ایسی شخصیت ہیں جن کا دل ایک مقصد اور نظریے کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر وہ اشک بہائے بغیر نہیں کر سکتے جب کہ امت کی زبوں حالی کا ماجرا بھی انھیں دل کے آنسوؤں سے رلاتا ہے۔

حافظ طاہر نے تعمیر نو ٹرسٹ کے چیئرمین بریگیڈیئر عبد الجلیل

 ریٹائرڈ، پرنسپل پروفیسر عابد مقصود اور ٹرسٹ کے دیگر ذمے داران کے تعاون سے یہ کانفرنس اس شان سے منعقد کرائی کہ ملک بھر سے آنے والے اہل دانش اش اش کر اٹھے۔ کالج کے اساتذہ اور دیگر ذمے داران نے کانفرنس کی ذمے داریاں نہایت محنت سے انجام دینے کے ساتھ ایسی مہمان نوازی کی جس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ ہمارے ہوٹل کے ذمے دار پروفیسر افضل تھے اور نوجوان لیکچرر زرک خان ان کے معاون۔ ان لوگوں کے احساس ذمے داری، اخلاص اور محبت نے، سچی بات ہے، ہمیشہ کے لیے ہمیں اپنا اسیر بنا لیا۔ اس محبت کا جواب دعا سے بڑھ کر کچھ نہیں لہٰذا ان دوستوں کے لیے بہت سی دعائیں۔

یہ کانفرنس اقبالؒ کے تعلق سے تھی، اس لیے اقبالؒ کا ذکر تو ہونا ہی تھا۔ اقبالؒ کا ذکر ہو اور اسلام اور مسلمانوں کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ بھی ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی بلوچستان کے دکھ بھی زیر بحث آئے۔

یوں یہ کانفرنس صرف اقبالؒ کانفرنس نہ رہی، امت مسلمہ کے دکھوں اور مسائل کی ترجمان بن گئی۔ کانفرنس میں ملک بھر سے اہم ماہرین اقبالیات شریک تھے جن میں اسلام آباد سے ادارہ فروغ قومی زبان کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر، چیئرپرسن اکادمی ادبیات ڈاکٹر نجیبہ عارف، لاہور سے پروفیسر ڈاکٹر اقبال شاہد، سرگودھا سے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، بریگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق، عبید اللہ کیہر، ڈاکٹر بابر نسیم آسی، ساؤتھ پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر اور ایمز ایجو کیشن فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر الماس صابر شریک ہوئے۔ خبیب فاؤنڈیشن کے سربراہ ندیم خان سمیت برطانیہ سے ممتاز پاکستانی تعمیراتی کنسلٹنٹ ڈاکٹر سمیع اللہ ملک، ممتاز ادیب اور کویت میں پاکستانی برادری کے راہ نما رانا اعجاز کی شرکت نے کانفرنس کی اہمیت دو چند کر دی۔

ان کے علاوہ کئی برادر ملکوں سے بھی ماہرین اقبالیات شریک ہوئے جن میں بنگلا دیش انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ کے سربراہ ڈاکٹر عبد العزیز، مالدیپ کی نیشنل لینگویج اتھارٹی کے سربراہ ڈاکٹر اشرف عبد الرحیم، ایران سے ڈاکٹر علی کاوسی نژاد اورجامعہ الازہر مصر سے عثمان عبد الناصر شریک ہوئے۔

تمام پاکستانی اور غیر ملکی مندوبین نے اقبال کی فکر کے مختلف گوشوں خاص طور پر خودی، بیداری اور تحرک کے علاوہ مسلم امہ کے اتحاد کے ضمن میں گفتگو کی۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے مغرب کی بے حسی اور مفادات کے تابع انداز فکر کی غضب ناکیوں پر اپنے پرمغز مقالے میں روشنی ڈالی۔ کچھ مقررین نے غزہ کے حالیہ المیے کے پس منظر میں عالمی بیداری کا ذکر کیا اور بتایا کہ اسی قسم کے مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اقبالؒ نے جہاد پر زور دیا ہے۔ خبیب فاؤنڈیشن کے سربراہ ندیم احمد خان نے اپنے خصوصی لیکچر میں فکر اقبالؒ کے مختلف گوشوں کا بڑی جامعیت سے احاطہ کیا۔ ان کا ایک اعزاز کلام اقبال کی تحت اللفظ ادائی بھی ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران انھوں نے اقبالؒ کی کئی نظمیں پڑھ کر سماں باندھ دیا۔

 سوال جواب کے وقفے میں دو طلبہ نے بلوچستان کی صورت حال کے پس منظر میں ان سے سوالات کیے۔ ندیم احمدخان کا کہنا تھا کہ فکر اقبال ایک پیکیج ہے جس پر عمل کی صورت میں علاقائی سوالات پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور اجتماعی فلاح کا تصور ابھرتا ہے جس سے بلوچستان کے مسائل کے حل کی ضمانت بھی ملتی ہے۔

اس سیشن کی صدارت تعمیر نو ٹرسٹ کے سیکریٹری نسیم لہڑی اور ان سطور کے لکھنے والے نے مشترکہ طور پر کی۔ ان سوالوں کے جواب میں، میں نے عرض کیا کہ بلوچستان کی صورت حال پر پورا پاکستان پریشان ہے۔ یہاں سے جب دکھی کر دینے والی خبریں آتی ہیں تو پنجاب سمیت پورا ملک غم میں ڈوب جاتا ہے۔ احتجاج اور ہڑتالیں ہوتی ہیں اور پارلیمنٹ میں آواز بلند کی جاتی ہے۔ بلوچستان کو اللہ نے بہت قیمتی خزانوں سے مالامال کر رکھا ہے، پاکستانی عوام سمجھتے ہیں کہ اللہ نے یہ خزانے بلوچستان کو عطا کیے ہیں تو ان پر حق بھی بلوچستان کا ہے۔ اس دولت سے بلوچستان کی قسمت بدلنی چاہیے اور نوجوانوں کو تعلیم، روزگار ترقی کے بہترین مواقع ملنے چاہئیں۔ میں نے عرض کیا کہ بلوچستان کے اس حق کو پورا ملک تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اس مقصد کے لیے بلوچستان کے عوام کے ساتھ جدوجہد کے لیے بھی تیار ہے۔

میں نے یہ بھی گزارش کی کہ حقوق کے حصول کا طریقہ خون ریزی نہیں بلکہ جمہوری اور عوامی جدوجہد ہے۔ خون ریزی خاص طور پر مسافروں کے قتل سے دوری پیدا ہوتی ہے اور مسائل کے سلسلے میں بلوچستان کو ملک بھر سے جو حمایت حاصل ہے، اسی میں کمی ہوتی ہے۔ حاضرین نے یہ باتیں خوش گوار تعجب کے ساتھ سنیں اور دل کھول کر داد دی۔ سیشن ختم ہو جانے کے بعد نوجوانوں کے بہت سی ٹولیوں نے گھیر کر میرے مؤقف کی داد دی اور مجھ سے بہت سے سوالات کیے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ بلوچستان اور ملک کے مختلف حصوں کے عوام کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں۔ بین الاقوامی اقبال کانفرنس کے ذریعے فکر اقبالؒ کے فروغ کے علاوہ بلوچستان سے ملک کے دیگر حصوں کے رابطے کے مبارک سلسلے کا بھی آغاز ہوا جس پر اقبال اکیڈمی کے ڈاکٹر عبد الرف رفیقی اور تعمیر نو ٹرسٹ کے ذمے داران خاص طور پر حافظ طاہر تعریف اور داد کے مستحق ہیں۔

توقع ہے کہ رابطوں کا یہ سلسلہ اب برقرار رہے گا۔دیگر اداروں کو بھی اس سلسلے میں اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے جیسے اکادمی ادبیات پاکستان نے نوجوان ادیبوں کی تربیت کے لیے دو ہفتوں کی ایک ورک شاپ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ہر صوبے سے چار نوجوانوں کو منتخب کیا جائے گا۔ اس قسم کے پروگرام بھی فاصلوں میں کمی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ دیگر ادبی اور ثقافتی اداروں کو بھی اکادمی ادبیات کی پیروی کرنی چاہیے۔

بلوچستان سے رابطے بڑھانے کے سلسلے میں رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اتھارٹی کا صوبائی دفتر تعمیر نو ٹرسٹ میں قائم کیا گیا ہے جس کے دفتر کا افتتاح ابھی ہونا ہے ۔ کانفرنس کی اختتامی تقریب میں اتھارٹی کے ڈائریکٹر سہیل بن عزیز نے چیئرمین خورشید احمد ندیم کا یہ پیغام بھی پہنچایا کہ اتھارٹی اسی ادارے میں اگلے برس اپریل میں ایک بین الاقوامی سیرت کانفرنس کا انعقاد بھی کرنے جا رہی ہے۔ یہ کانفرنس سیرت کا مبارک پیغام پہنچانے کے علاوہ رابطوں کے فروغ کا ذریعہ بھی بنے گی۔

کانفرنس کا حاصل علامہ زید گل خٹک کی گفتگو تھی۔ انھوں نے فرمایا کہ مسلمانوں کے یہاں جدوجہد کے تصور میں کچھ مسائل ہیں۔ ہمارے بہت سے طبقات غیر مسلموں کو دشمن تصور کر کے ان کے خلاف ذہنی اعتبار سے حالت جنگ میں چلے گئے ہیں۔ اس وجہ سے دنیا میں کشیدگی اور آویزش مسلسل بڑھ رہی ہے لہٰذا امن اور سلامتی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسلامی تصور اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلامی تصور یہ ہے کہ پوری دنیا اولاد آدم ہے اور ہم یعنی مسلمان بھی اس سے الگ نہیں یعنی متصادم نہیں بلکہ اس میں شامل ہیں۔

عقیدے کے اختلاف کا مطلب تصادم نہیں۔ ایسے معاملات سلجھانے کا طریقہ محبت، حسن اخلاق اور حسن سلوک ہے۔ مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا طریقہ بھی یہی ہے اور نسل آدم کی بقا کا بھی۔ حافظ طاہر نے کانفرنس کی ابتدا میں کہا تھا کہ امت مسلمہ کا جسد خاکی خاک پر بے جان پڑا ہے، اسے سپرد خاک کرنا ہے یا اسے توانائی بخش کر اسے کار آمد بنانا ہے؟ علامہ زید گل خٹک نے اپنے دھیمے اور محبت بھرے انداز میں اس سوال کا جواب ایک مختصر جملے میں دے دیا اور بتایا کہ فکر اقبال ؒبھی یہی کہتی ہے۔

ہم سنا کرتے تھے کہ بزرگ عطا کرنے والے ہوتے ہیں، وہ شفقت فرماتے ہیں اور کشش لوگوں کو ان کے قریب کر دیتی ہے۔ غیر معروف علامہ زید کو میں نے ایسا ہی پایا۔ کوئٹہ ایئرپورٹ کے لاؤنج میں جس کسی کی نظر بھی ان پر پڑی وہ ان کی طرف کھنچا چلا آیا اور دعا کا درخواست گزار ہوا۔ علامہ نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علامہ زید گل خٹک کی دریافت میرے دورہ کوئٹہ کا حاصل ہے۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بلوچستان کے کانفرنس کی اتھارٹی کے یہ کانفرنس فکر اقبال کے سربراہ علامہ زید حافظ طاہر کے علاوہ کے ساتھ ٹرسٹ کے کا ذکر کے لیے

پڑھیں:

کوئٹہ میں تحریکِ تحفظ آئین پاکستان کی پریس کانفرنس رُکوا دی گئی

تحریکِ تحفظ آئین پاکستان کے صوبائی قائدین کی مجوزہ پریس کانفرنس اس وقت روک دی گئی جب پولیس کی بھاری نفری پریس کلب کے باہر پہنچ گئی اور اجلاس میں شریک کارکنوں کو اندر جانے سے منع کردیا۔

پولیس نے پریس کلب کے اطراف کے تمام راستے بند کر دیے، جبکہ پریس کانفرنس کے لیے آنے والے کارکنوں کو واپس بھیج دیا گیا۔

صورت حال اس وقت مزید کشیدہ ہوئی جب قائدین کی ممکنہ گرفتاری کے لیے قیدی وین بھی پریس کلب کے سامنے لا کھڑی کی گئی۔

پولیس کی کارروائی کے باعث صوبائی قائدین پریس کانفرنس نہ کر سکے، جبکہ تنظیم کی جانب سے اس اقدام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • عوام نفرت، انتشار کی سیاست سے تھک چکے: احسن اقبال
  • عورت کو نعرے نہیں حقوق چاہئیں،خواتین بیدار ہو گئیں،ڈاکٹر حمیرا طارق
  • سی پیک فیز 2 میں کون سے 5 نئے کوریڈور شامل ہیں؟ احسن اقبال نے بتا دیا
  • تحریک تحفظ کی پریس کانفرنس، پولیس کا کوئٹہ پریس کلب کا محاصرہ
  • وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی دبئی پہنچ گئے، صدر آصف علی زرداری سے ملاقات نہیں ہو سکی
  • کوئٹہ میں تحریکِ تحفظ آئین پاکستان کی پریس کانفرنس رُکوا دی گئی
  • میڈیا انڈسٹری اور اکیڈیمیا میں رابطہ اور صحافت کا مستقبل
  • بلوچستان کے مسائل
  • برازیل: کوپ 30 موسمیاتی کانفرنس کے مقام پر آتشزدگی