WE News:
2025-11-17@05:59:12 GMT

جنات، سیاست اور ریاست

اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT

معروف اور موقر مغربی جریدے ’اکانومسٹ‘ کی حالیہ رپورٹ نے پاکستانی سیاست کے اس پراسرار گوشے کو پھر کھول کر سامنے رکھ دیا ہے جہاں حکمرانی کا تعلق مشاورت، قانون یا ریاستی نظام سے کم اور تعویزوں، کالے بکروں، صدقوں، چِلّوں، کالے جادو، بھوت پریت، جنات اور گھڑے میں پرچیاں ڈال کر فیصلے کرنے جیسے طریقوں سے زیادہ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق عمران خان کے دورِ حکومت میں بڑے فیصلوں کی بنیاد وہ ’روحانی اشارے‘ تھے جو بشریٰ بی بی تک کبھی کسی مراقبے، کبھی کسی چِلّے اور کبھی کسی غیر مرئی قوت کی طرف سے پہنچائے جاتے تھے۔

پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کی تقرری ہو یا اہم تعیناتیاں، بیوروکریسی کی تبدیلیاں ہوں یا سیاسی حکمتِ عملی ہر جگہ یہ تاثر دیا گیا کہ اہم فیصلوں کے پیچھے وہ سرگوشیاں تھیں جن کا تعلق دنیا سے زیادہ کسی اَن دیکھی طاقت سے تھا۔

کبھی کالے جادو سے دشمنوں کو ’بھسم‘ کر دینے کا ذکر، کبھی صدقے کے لیے کالے بکرے کا انتظام، کبھی چِلّوں کی محفل میں سنی گئی ہدایات، اور کبھی گھڑے میں پرچیاں ڈال کر طے کیے گئے نام۔ یوں لگتا تھا جیسے ریاست کے فیصلے دنیاوی عقل سے زیادہ غیر مرئی پیغام رسانی پر چل رہے ہوں۔

لیکن ان تمام حیرت انگیز باتوں کے باوجود اصل سوال وہی ہے: کیا عمران خان اس سب سے لاعلم تھے؟ کیا وہ واقعی اس پورے سلسلے کے محض تماشائی تھے؟ یا اس پورے ماحول کو وہ خود اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے؟

عمران خان کی سیاسی شخصیت ہمیشہ سے ایسی رہی ہے کہ وہ اپنے فائدے کو مقدم رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کے متعلق یہ خیال کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی ہی حکومت میں تعویز، چِلّوں، مراقبوں اور ’غیبی مشوروں‘ کے بڑھتے ہوئے اثر سے بے خبر رہے ہوں گے۔ وزیراعظم ہاؤس کے اندر کوئی بھی سرگرمی اس وقت تک وزن نہیں رکھتی جب تک حکمران خود اسے اہمیت نہ دے۔

اگر یہ سب کچھ بشریٰ بی بی کے اردگرد ممکن ہو رہا تھا، تو عمران خان کی خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ فائدہ انہی کو پہنچ رہا تھا۔

مثلاً عثمان بزدار کی بطورِ وزیراعلیٰ تقرری بہت عرصے تک ایک سیاسی معمہ رہی۔ اس فیصلے کو جب روحانی مشوروں یا جنات کے اشاروں سے جوڑا گیا تو گویا ایک ایسا جواز مہیا کر دیا گیا جس سے عمران خان کی براہِ راست ذمہ داری کم دکھائی جا سکے۔ لیکن حقیقت برعکس ہے:

کمزور وزیراعلیٰ ہمیشہ طاقتور وزیراعظم کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اگر بزدار کی تقرری کسی مراقبے میں ملنے والے اشارے یا گھڑے کی پرچی سے ’طے‘ ہوئی، تو بھی آخری فیصلہ عمران خان نے ہی کیا اور وہی اس سے سیاسی طور پر سب سے زیادہ مستفید ہوئے۔

اسی طرح انتظامی تقرریوں اور تبدیلیوں میں اگر تعویز گنڈے، صدقے یا چِلّوں کی روشنی میں فیصلے کیے گئے، تو یہ سب اسی صورت میں اہمیت رکھتے ہیں جب حکمران انہیں روکتا نہ ہو۔ اگر کسی چِلّے میں سنی گئی ہدایت کے مطابق کوئی افسر تبدیل ہوتا تھا، اگر کسی غیر مرئی قوت کے ’اشارے‘ پر کوئی فیصلہ ہوتا تھا، تو عمران خان اس سب سے غافل نہیں ہو سکتے تھے۔ اور اگر غافل تھے تو یہ مزید سنگین ہے، مگر زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ہر بات سے آگاہ تھے اور اسے اپنے فائدے کے لیے جاری رہنے دیتے تھے۔

یہ بات بھی زیرِ غور رہنی چاہیے کہ اگر ایجنسیاں واقعی بشریٰ بی بی کے ذریعے کپتان کو پیغام پہنچاتی تھیں، تو یہ سلسلہ عمران خان کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتا تھا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزیراعظم کی شریکِ حیات تک حساس نوعیت کی باتیں پہنچ رہی ہوں اور وزیراعظم لاعلم رہیں۔ اگر وہ اسے برداشت کرتے رہے تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ یہ نظام اُن کے اقتدار کو سہارا دیتا تھا۔ یوں بشریٰ بی بی صرف ایک ذریعہ تھیں، اصل فائدہ عمران خان کو ہی ملتا تھا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پوری کہانی میں کوئی بھی مکمل طور پر پاک دامن نہیں تھا۔ نہ تعویز کرنے والے اس سب کچھ میں بے قصور تھے، نہ وہ حلقے جو ’روحانی مشورے‘ پہنچاتے تھے، اور نہ وہ حکمران جو ان اشاروں کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتا رہا۔ سب اپنے اپنے مقام پر شریکِ جرم تھے۔ جنات، کالے بکرے، بھوت پریت، چِلّے اور گھڑے کی پرچیاں چل رہی تھیں، مگر ان سرگرمیوں کے سیاسی نتائج ہمیشہ عمران خان کے ہاتھ میں آ کر ٹھہرتے تھے۔

بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اس پوری ناکامی کا بوجھ کسی ایک کردار پر ڈال دیا جائے، مگر تصویر واضح ہے:

نہ کوئی یکسر معصوم تھا نہ کوئی یکسر ناتجربہ کار۔ یہ ایک مشترکہ بندوبست تھا جس میں ہر کردار اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔ غیر مرئی قوتوں کا ذکر محض وہ پردہ تھا جو سیاسی اختیار کو لپیٹنے کے لیے اوڑھا گیا تھا۔

اکانومسٹ کی رپورٹ نے جو نقشہ کھینچا ہے، وہ صرف ایک شخص یا ایک کردار کی کہانی نہیں۔ یہ پوری حکومتی سوچ، پورے سیاسی انداز، اور پورے ریاستی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ اور اس نقشے کے وسط میں فیصلہ ساز وہی تھا جس کے دستخط ہر کاغذ پر موجود تھے: عمران خان۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: عمران خان کی سے زیادہ کے لیے

پڑھیں:

رانا ثنااللہ: جو کرو گے وہ بھروگے، خدمت کی سیاست ہی کامیاب

مشیر وزیراعظم و سینیٹر رانا ثنااللہ نے اپنے آبائی شہر فیصل آباد کے بوڑیوال روڈ پر سوئی گیس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ جو کرو گے، وہ بھروگے۔
انہوں نے کہا کہ ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور تیل و گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ رانا ثنااللہ نے خدمت کی سیاست پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نفرت اور بغض کی سیاست نے کبھی قوم کو کچھ نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور مخصوص کردار ملک میں تبدیلی کا حصہ ہیں۔
مزید کہا کہ معرکہ حق کی کامیابی کے بعد پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر عزت ملی اور بھارت رسوا ہوا، جس سے ملک کے معاشی حالات بہتر ہوں گے۔ رانا ثنااللہ نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • وی ایکسکلوسیو، حکومت سیاسی درجہ حرارت میں کمی پر متفق، پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ جلد ہوگا، فواد چوہدری
  • وہ چند ہزار
  • بدلتی ہوئی مسلم دنیا اور پاکستان
  • ترمیمی سیاست کے ماہر؛ ایم کیو ایم اور کراچی کا دائمی المیہ
  • رانا ثنااللہ: جو کرو گے وہ بھروگے، خدمت کی سیاست ہی کامیاب
  • فیض حمید پر بشریٰ بی بی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام”دی اکانومسٹ”
  • عمران خان کی سیاست جھوٹ اور بہتان کے سوا کچھ نہیں تھی، تمام فیصلے بشریٰ بی بی کرتی تھیں: عطا تارڑ
  • عسکری اور معاشی دہشت گردی کبھی اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے مجبور نہیں کر سکتی، ایران
  • سیاست، روحانیت اور اسٹیبلشمنٹ کا متنازع امتزاج،  عمران خان اور بشریٰ بی بی پر عالمی رپورٹ