ایک نئی غیر ملکی رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کو بدعنوانی کے خلاف ایک عوامی پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا اور اسلامی فلاحی ریاست کا وعدہ کیا، تاہم بشریٰ بی بی سے تیسری شادی نے ان کی ذاتی اور سیاسی زندگی دونوں رخ بدل دیے۔

یہ بھی پڑھیں:بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی تنہائی میں ملاقات کے لیے درخواست کی سماعت

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی، جو پنجاب سے تعلق رکھنے والی صوفیانہ رجحان کی روحانی شخصیت ہیں، نے عمران خان کے روزمرہ فیصلوں سے لے کر سرکاری تعیناتیوں تک وسیع اثر و رسوخ استعمال کیا۔

روحانی اثر، رسومات اور غیر معمولی دعوے

رپورٹ کے مطابق عمران خان کی زندگی اور حکومتی فیصلوں میں خوابوں، چہروں کے تجزیے (فیس ریڈنگ) اور روحانی رسومات کو حد سے زیادہ اہمیت دی جاتی رہی۔

سابق ملازمین نے دعویٰ کیا کہ بنی گالا میں گوشت، جانوروں کے سروں اور جگر کے ذریعے بدروحوں سے نجات جیسے اعمال کیے جاتے تھے، جس سے قومی قیادت کے گرد توہم پرستی کا ماحول اجاگر ہوتا ہے۔

بشریٰ بی بی کا مبینہ اثر و رسوخ اور بنی گالا میں خوف

رپورٹ میں ایک سابق کابینہ رکن کے حوالے سے کہا گیا کہ حکومتی معاملات میں بشریٰ بی بی کی ’مکمل مداخلت‘ تھی۔

دعویٰ کیا گیا کہ عمران خان کے ساتھ ملاقاتیں، سرکاری امور اور یہاں تک کہ پروازوں کے وقت بھی بشریٰ بی بی کی منظوری سے طے پاتے تھے، جس کی وجہ سے اندرونی حلقوں میں خوف اور غیر یقینی کیفیت پیدا ہوتی تھی۔

پی ٹی آئی کے اپنے حلقوں کی شکایات اور بلیک میجک کے الزامات

رپورٹ میں جہانگیر ترین سمیت پارٹی کے اہم حمایتیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بعض لوگوں نے ’کالے جادو‘ کے استعمال پر تشویش ظاہر کی، اور مبینہ طور پر انہی خدشات کے بعد بعض وفادار شخصیات کو الگ کر دیا گیا۔

اس اقدام  سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ پارٹی فیصلے کسی باقاعدہ ادارہ جاتی نظام کے تحت نہیں بلکہ ذاتی پسند یا ناپسند کے مطابق ہوتے رہے۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کردار اور اندرونی روابط کا دعویٰ

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2018 میں عمران خان کی کامیابی فوج اور آئی ایس آئی کی مدد سے ممکن ہوئی، جو PTI کے ’احتسابی انقلابی‘ نعرے سے متصادم ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایس آئی کے بعض عناصر مبینہ طور پر بشریٰ بی بی سے وابستہ پیران کے ذریعے معلومات عمران خان تک پہنچاتے رہے، جس سے ان کے روحانی یقین کو تقویت ملتی رہی۔

عاصم منیر کی برطرفی اور مفاداتی بیانیہ

رپورٹ میں دعویٰ ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو اس وقت ہٹایا گیا جب انہوں نے مبینہ طور پر بشریٰ بی بی کے گرد کرپشن کی نشاندہی کی۔ اس اقدام کو عمران خان کے ’اصولوں پر مبنی سیاست‘ کے دعوے سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔

وعدے، ناکامیاں اور قانونی نتائج

رپورٹ کے مطابق عمران خان اپنے بڑے انتخابی وعدے، لاکھوں گھروں اور ملازمتوں، پر عمل درآمد نہ کر سکے اور بعدازاں خود اعتراف کیا کہ ایک مدت میں ایسا ممکن نہ تھا۔

معاشی بحران، سیاسی محاذ آرائی اور اسٹیبلشمنٹ سے تنازع کے بعد وہ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کیے گئے۔

بعد ازاں توشہ خانہ تحائف اور القادر یونیورسٹی کیس سمیت متعدد مقدمات میں عمران خان اور بشریٰ بی بی دونوں کو جیل بھیج دیا گیا، جس سے عمران خان کی ’صاف ہاتھ‘ والی سیاسی شناخت کو شدید دھچکا لگا۔

عمران خان کی مقبولیت اور تنقیدی بیانیہ

اگرچہ عمران خان پر پابندیوں اور میڈیا خاموشی کے باوجود وہ عوامی سطح پر اب بھی ’اخلاقی اتھارٹی‘ کے طور پر سمجھے جاتے ہیں، مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ سادہ لوح ثابت ہوئے، غلط لوگوں کے اثر میں آئے، روحانی اور غیر رسمی کرداروں پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا اور اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کیا جس کے خلاف آج لڑ رہے ہیں۔

سیاسی تحریک، شخصی مرکزیت اور تشدد کا تاثر

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی ایک باقاعدہ ادارہ جاتی پارٹی کے بجائے ایک شخصیت،عمران خان کے گرد گھومتی رہی۔ ان کی گرفتاری کے بعد پارٹی کارکنوں کی جانب سے بعض عسکری اور تاریخی تنصیبات پر حملوں نے PTI کے ’اداروں کے محافظ‘ بیانیے کو کمزور کیا۔

یہ رپورٹ مجموعی طور پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ایک ایسے جوڑے کے طور پر پیش کرتی ہے جنہوں نے سیاست، روحانیت اور طاقت کے غیر رسمی ذرائع کو یکجا کر کے ایک متنازع حکومتی ماڈل تشکیل دیا، جو بالآخر انہی پر الٹ آیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیبلشمنٹ بشریٰ بی بی جنرل عاصم منیر عمران خان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے عمران خان کی رپورٹ میں پی ٹی آئی گیا ہے کہ اور بشری کے مطابق کہا گیا

پڑھیں:

راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

بہار کی انتخابی فضا ایک بار پھر لفظوں کے تیروں سے گونج رہی ہے ۔ اسمبلی انتخابات قریب آتے ہی بھارتی سیاست میں الزامات، جوابی حملے اور حب الوطنی کے نعروں نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے ۔ بی جے پی رہنما رمیش بدھوری کے حالیہ بیان نے اس فضا میں خاصا اشتعال پیدا کیا ہے ، جب انہوں نے کانگریس لیڈر راہول گاندھی پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان کی آواز کی بازگشت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق راہول گاندھی کے بیانات نہ صرف ملک کے نوجوانوں کے مواقع چھین رہے ہیں بلکہ سیاسی مفاد کے لیے غیر ملکی بیانیے کو تقویت دے رہے ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب راہول گاندھی نے بہار انتخابات کو ہریانہ کی طرز پر منظم کرنے کی بات کی تھی، جو بظاہر انتخابی اصلاحات اور انتظامی عمل کی مثال تھی مگر اسے بی جے پی نے قوم پرستی کے زاویے سے پیش کر کے سیاسی فضا کو مزید تقسیم کر دیا۔
راہول گاندھی کے خلاف پاکستان کی زبان بولنے کے الزامات نیا موضوع نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے بی جے پی کی انتخابی سیاست میں یہ حربہ مسلسل استعمال ہو رہا ہے ۔ یہ بیانیہ کہ کانگریس یا اس کے رہنما ملک دشمن سوچ رکھتے ہیں، عوامی ذہنوں میں ایک مستقل تاثر پیدا کر چکا ہے ۔ ماہرینِ سیاست کے مطابق، بی جے پی نے 2014 کے بعد سے انتخابی مہمات میں قومی سلامتی، مذہب، اور دشمن ملک کے خوف کو اپنے مرکزی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ اس حکمتِ عملی کا مقصد نہ صرف ووٹر کو جذباتی سطح پر متحرک کرنا ہے بلکہ مخالف جماعتوں کو دفاعی پوزیشن میں لانا بھی ہے ۔راہول گاندھی نے پچھلے برسوں میں مسلسل یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بی جے پی حکومت روزگار، مہنگائی، زرعی بحران اور تعلیمی تنزلی جیسے بنیادی مسائل پر ناکام رہی ہے ۔ بہار کے حوالے سے ان کے بیانات کا اصل زور بھی اسی پہلو پر تھا کہ ریاست کو ترقیاتی منصوبوں اور وفاقی وسائل میں نظر انداز کیا گیا ہے ۔ مگر سیاسی ماحول اس قدر حساس بنایا جا چکا ہے کہ کسی بھی تنقید کو فوری طور پر ملک دشمنی سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ رمیش بدھوری جیسے رہنما بی جے پی کے اندر اس حکمتِ عملی کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں جو جارحانہ بیانات کے ذریعے مخالفین کو حب الوطنی کے ترازو میں تولنے لگتے ہیں۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ رمیش بدھوری اس سے قبل پارلیمنٹ میں بھی کئی بار متنازع جملے ادا کر چکے ہیں۔ ان کی تقاریر میں قوم پرستی کا عنصر جذباتی شدت کے ساتھ شامل رہتا ہے ، جو سامعین کو وقتی طور پر متاثر تو کرتا ہے مگر جمہوری گفتگو کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بدھوری جیسے رہنما دراصل بی جے پی کی مہم میں ”غصے کے نمائندے ” کے طور پر کردار ادا کرتے ہیں تاکہ میڈیا کا رخ
پالیسی سے ہٹ کر حب الوطنی کی بحث کی طرف مڑ جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا کے نمایاں چینلز پر اکثر ایسے بیانات کئی دنوں تک
بحث کا مرکز بنے رہتے ہیں۔
بہار کی زمینی حقیقت البتہ مختلف ہے ۔ یہ ریاست آج بھی بھارت کی غریب ترین اکائیوں میں شمار ہوتی ہے ۔ ناخواندگی ، غربت اور نوجوان آبادی کا تناسب زائد ہے ۔ ایسے میں ووٹرز کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہونا چاہیے کہ روزگار کے مواقع کہاں ہیں، تعلیم کا معیار کیوں نہیں بڑھ سکا، صحت کی سہولیات کیوں محدود ہیں؟ مگر بدقسمتی سے انتخابی بیانیہ ان حقیقی مسائل سے دور جا چکا ہے ۔ سیاستدان اب ترقیاتی منصوبوں سے زیادہ جذباتی نعروں کے سہارے عوام کو متوجہ کرتے ہیں۔راہول گاندھی کی موجودہ سیاست بھی ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے ۔ وہ ایک جانب بی جے پی کے منظم پروپیگنڈا کے مقابلے میں اپنی جماعت کو فعال اپوزیشن کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، تو دوسری طرف خود پر لگنے والے پاکستان نواز الزامات کی صفائی میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر مبنی گفتگو کو آگے نہیں بڑھا پاتے ۔ بی جے پی کا یہ بیانیہ اس قدر مضبوطی سے عوامی شعور میں پیوست ہو چکا ہے کہ کسی بھی اختلاف کو فوراً دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
میڈیا کے کردار کا ذکر یہاں ناگزیر ہے ۔ بھارتی میڈیا، خاص طور پر ٹی وی چینلز، اب اکثر ریاستی بیانیے کے تابع دکھائی دیتے ہیں۔ راہول گاندھی کی کسی تقریر یا بیان کے چند گھنٹوں کے اندر پاکستانی ایجنڈا، غداری، یا فوج کی توہین جیسے الفاظ ٹی وی اسکرینوں پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اس سے ایک طرف عوامی ذہنوں میں خوف اور شک پیدا ہوتا ہے ، تو دوسری جانب اختلافِ رائے کو غیر اخلاقی یا غیر قومی تصور کر لیا جاتا ہے ۔ صحافت کا یہ رجحان بھارت میں جمہوری اقدار کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے کیونکہ آزاد میڈیا کے بغیر جمہوریت کا توازن قائم نہیں رہ سکتا۔
انتخابات کے دوران بھارت کا منظرنامہ ایک ایسے ڈرامے میں بدل جاتا ہے جہاں جذباتی نعروں کی گونج میں عقل کی آواز دب جاتی ہے ۔ بی جے پی کے لیے یہ حکمتِ عملی وقتی طور پر کامیاب ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ ووٹر کے مذہبی اور قومی جذبات کو بیدار کر کے اپنی بنیاد کو مستحکم کر لیتی ہے ۔ مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ معاشرہ اندر سے منقسم ہوتا جا رہا ہے ۔ نفرت، بدگمانی، اور اقلیتوں کے خلاف تعصب جیسے عوامل اس سیاسی بیانیے کے سائے میں پنپ رہے ہیں۔راہول گاندھی کو اگر اس فضا میں مؤثر سیاست کرنی ہے تو انہیں جذبات کے جواب میں جذبات نہیں بلکہ اعداد و شواہد سے بات کرنی ہوگی۔ انہیں یہ دکھانا ہوگا کہ بھارت کی ترقی کا اصل راستہ روزگار کی فراہمی، زرعی اصلاحات، تعلیمی استحکام، اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے میں ہے ۔ عوام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ انتخابی نعروں کے بجائے حقیقی کارکردگی پر ووٹ دیں۔ سیاست میں محبت اور برداشت کی فضا قائم کیے بغیر کوئی جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔
اب بھارت کی سیاست کو ”پاکستان” کے سائے سے نکل کر اپنی زمین کے مسائل پر آنا ہوگا۔ بہار، جھارکھنڈ، اور اترپردیش جیسی ریاستوں کو ترقی، تعلیم، اور صحت کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، نہ کہ الزامات اور نعروں کی۔ اگر سیاسی جماعتیں واقعی عوام کی نمائندہ بننا چاہتی ہیں تو انہیں حب الوطنی کے دعووں سے زیادہ انسانی ترقی کے پیمانوں پر خود کو ثابت کرنا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو بھارت کو تقسیم سے نکال کر اتحاد کی راہ پر ڈال سکتا ہے ۔
راہول گاندھی پر الزامات کی گونج وقتی ہو سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عوام ان نعروں سے مطمئن ہوں گے یا وہ اب ایک نئی سیاسی گفتگو کے متلاشی ہیں؟ وقت گزرنے کے ساتھ عوامی شعور بڑھ رہا ہے ، اور شاید اب ووٹر یہ سمجھنے لگا ہے کہ سیاست محض نعروں سے نہیں بلکہ عمل سے بدلی جاتی ہے ۔ اگر بی جے پی اور کانگریس دونوں اپنی پالیسیوں کو عوامی مفاد کے مطابق ڈھالیں، تو بھارت کا جمہوری مستقبل زیادہ روشن ہو سکتا ہے ۔ یہی وہ اقدام ہے جو قوم پرستی کو نعروں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لے آئے گا، اور یہی سیاست کا اصل امتحان بھی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • علامہ اقبال اور جدید سیاسی نظام
  • ظہران ممدانی: دہلی کے بے گھر بچوں کے خواب سے نیویارک تک
  • چینی سرحد کے قریب متنازع خطہ: بھارت کی نئی ایئر بیس قائم، طیارے کی افتتاحی لینڈنگ
  • چینی سرحد کے قریب متنازع خطے لداخ میں بھارت کی نئی ایئربیس کا افتتاح
  • بھارت کا چینی سرحد کے قریب متنازع خطے میں نیا ایئربیس، طیارے کی افتتاحی لینڈنگ
  • 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم نے واضح کر دیا کہ پی پی اسٹیبلشمنٹ کی اے ٹیم کا کردار ادا کر رہی ہے: حافظ نعیم
  • راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی
  • حسینہ واجد کے متنازع انٹرویو پر بنگلہ دیش کا بھارت سے احتجاج، میڈیا رسائی محدود کرنے کا مطالبہ
  • کیا مفاہمت ممکن ہوسکے گی؟