Jasarat News:
2025-11-15@21:44:54 GMT

ترمیمی سیاست کے ماہر؛ ایم کیو ایم اور کراچی کا دائمی المیہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251116-03-4

 

میر بابر مشتاق

کراچی… روشنیوں کا شہر، محنت کشوں کا مسکن، اور پاکستان کی معاشی شہ رگ، مگر افسوس! سیاسی مفادات کی بندر بانٹ نے اس شہر کو اندھیروں، خوف اور محرومیوں کے گڑھ میں بدل دیا ہے۔ اس شہر کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ نہیں کہ اسے وفاق نے نظر انداز کیا، بلکہ یہ ہے کہ اس کے اپنے نمائندے بار بار اسے بیچ کر، اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ ایم کیو ایم؛ وہ جماعت جو کبھی مہاجروں کی شناخت اور امید کی علامت سمجھی جاتی تھی آج سیاسی موقع پرستی، وزارتوں کی بھوک اور خود غرضی کی علامت بن چکی ہے۔

ایم کیو ایم نے اپنے قیام سے لے کر آج تک ’’مہاجر حقوق‘‘ کے نام پر جو سیاست کی، وہ دراصل اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کا شارٹ کٹ تھی۔ ہر دورِ حکومت میں اس جماعت نے وزارتوں، مشاورتوں، اور مراعات کے بدلے کراچی کے عوام کے مسائل کا سودا کیا۔ کبھی مشرف کے ساتھ، کبھی پیپلزپارٹی کے ساتھ، کبھی مسلم لیگ ن کے ساتھ، اور کبھی تحریک انصاف کے ساتھ۔ ہر اقتدار کے دسترخوان پر ان کا حصہ یقینی رہا۔ مگر جب عوام نے پوچھا کہ کراچی کو کیا ملا؟ تو جواب میں صرف نعروں اور بہانوں کا شور سنائی دیا۔ یہ جماعت ہمیشہ ’’اقتدار میں شمولیت‘‘ کو شہر کے مسائل کا حل سمجھتی رہی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے مزے لیتے ہوئے انہوں نے کراچی کی سڑکوں، نکاسی ِ آب، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل کو پس پشت ڈال دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج کراچی کا شہری بارش میں ڈوبتا ہے، دھوپ میں جلتا ہے، اور بلدیاتی ادارے محض نعرے بازی کا میدان بن چکے ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنما جلسوں میں پیپلزپارٹی پر برسنے کے ماہر ہیں۔ مگر جیسے ہی وزارت یا کمیٹی کا عہدہ سامنے آتا ہے، ان کی للکار فوراً معذرت میں بدل جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے کراچی کے بلدیاتی اختیارات سلب کیے، شہری اداروں کو تباہ کیا، مگر ایم کیو ایم نے کبھی سنجیدہ مزاحمت نہیں کی۔ جب بھی کوئی آئینی یا انتظامی ترمیم سامنے آتی ہے، یہ پارٹی یا تو خاموش رہتی ہے یا پیپلزپارٹی کی زبان بولنے لگتی ہے۔ نتیجہ؟ سندھ کے شہری علاقے مسلسل پسماندگی، بدانتظامی اور ناانصافی کا شکار ہیں، جبکہ ایم کیو ایم کے رہنما ٹی وی پر صرف ’’بیانات‘‘ دے کر اپنی سیاسی موجودگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ اگر پاکستان کی پارلیمانی تاریخ دیکھی جائے تو ایک بات واضح ہے کہ ایم کیو ایم نے ہر آئینی ترمیم، بل یا قرارداد کو اپنے مفاد کے مطابق تول کر فیصلہ کیا۔ کبھی اصولوں کی خاطر نہیں، بلکہ ’’فائدے‘‘ کی بنیاد پر۔ کبھی وہ ’’متحدہ‘‘ تھی، کبھی ’’پاکستان‘‘ بنی، کبھی ’’بحالی‘‘ ہوئی، کبھی ’’رابطہ کمیٹی‘‘ نئی بن گئی مگر عوامی مسائل وہیں کے وہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کراچی کا عام شہری خود سے سوال کرتا ہے: ’’آخر ایم کیو ایم نے ہمیں کیا دیا؟‘‘ جواب واضح ہے کچھ نہیں، سوائے تقسیم، انتشار، اور مایوسی کے۔

ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات نے اس جماعت کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ کبھی ایک دھڑا لندن کا وفادار، کبھی ایک پاکستان کا محب وطن، کبھی کوئی پاک سرزمین پارٹی بناتا ہے، تو کبھی ’’اتحاد‘‘ کے نام پر نئی پریس کانفرنس ہوتی ہے۔ یہ وہ قیادت ہے جو مہاجر قوم کو متحد کرنے نکلی تھی، مگر خود ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ اب ان کے جلسے خالی، نعرے مدھم، اور ووٹ بینک سکڑ چکا ہے۔ کراچی کا نوجوان اب ان چہروں پر اعتماد نہیں کرتا، جو ہر پانچ سال بعد نئے وعدے اور پرانے بہانے لے کر آتے ہیں۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی، کراچی سب کے لیے ایک ’’کماؤ گائے‘‘ ہے، مگر کسی کے لیے ذمے داری نہیں۔ یہی حال ایم کیو ایم کا بھی ہے۔ جب اقتدار میں ہوں تو کراچی کے نام پر فنڈز لیتے ہیں، جب اقتدار سے باہر ہوں تو کراچی کی بدحالی پر آنسو بہاتے ہیں۔ ان کی سیاست نے شہر کو لسانیت، خوف اور مفاد پرستی کا اکھاڑا بنا دیا ہے۔ کراچی اب ایم کیو ایم جیسے سیاسی تاجر برداشت نہیں کر سکتا۔ اس شہر کو ایسی قیادت چاہیے جو اقتدار نہیں، خدمت کے لیے سیاست کرے۔ ایسی قیادت جو پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی یا ن لیگ کے دروازے پر وزارت کی بھیک مانگنے نہ جائے، بلکہ عوام کے حق کے لیے لڑے۔ کراچی کے ووٹرز کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ جو لوگ تمہیں بار بار بیچتے رہے، وہ تمہارے خیرخواہ نہیں، تمہارے اصل دشمن ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو اب آئینہ دیکھنا چاہیے۔ وہ ’’حقوق‘‘ کی بات کرتے ہیں، مگر ان کے اپنے دفاتر عوام کے خون پسینے سے تعمیر ہوئے۔ وہ ’’اختیارات‘‘ مانگتے ہیں، مگر جب ملتے ہیں تو عوامی خدمت کے بجائے ذاتی کاروبار چمکانے میں لگ جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے مہاجروں کی شناخت کو ذاتی مفادات کا ہتھیار بنا دیا۔ وہ ایک نظریہ تھی، مگر اب ایک سیاسی دکان بن چکی ہے۔ کراچی کا زوال اس وقت شروع ہوا جب اس کے نمائندے خود اس کی محرومی کے ذمے دار بن گئے۔ اب وقت ہے کہ کراچی کے عوام اٹھیں، ان سیاسی ترمیمی ماہرین کو مسترد کریں، اور ایک نئی سیاسی قوت کو جنم دیں جو کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا سکے، نہ کہ ترمیموں اور وزارتوں کا کھیل۔ یہی پیغام وقت کا تقاضا ہے: کراچی اب کسی ترمیم کا محتاج نہیں؛ اسے تحریک ِ خدمت کی ضرورت ہے، سیاست ِ تجارت کی نہیں۔

میر بابر مشتاق.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایم کیو ایم کے ایم کیو ایم نے کراچی کے کراچی کا کے ساتھ ہے کہ ا کے لیے

پڑھیں:

سیاست، روحانیت اور اسٹیبلشمنٹ کا متنازع امتزاج،  عمران خان اور بشریٰ بی بی پر عالمی رپورٹ

ایک نئی غیر ملکی رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کو بدعنوانی کے خلاف ایک عوامی پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا اور اسلامی فلاحی ریاست کا وعدہ کیا، تاہم بشریٰ بی بی سے تیسری شادی نے ان کی ذاتی اور سیاسی زندگی دونوں رخ بدل دیے۔

یہ بھی پڑھیں:بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی تنہائی میں ملاقات کے لیے درخواست کی سماعت

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی، جو پنجاب سے تعلق رکھنے والی صوفیانہ رجحان کی روحانی شخصیت ہیں، نے عمران خان کے روزمرہ فیصلوں سے لے کر سرکاری تعیناتیوں تک وسیع اثر و رسوخ استعمال کیا۔

روحانی اثر، رسومات اور غیر معمولی دعوے

رپورٹ کے مطابق عمران خان کی زندگی اور حکومتی فیصلوں میں خوابوں، چہروں کے تجزیے (فیس ریڈنگ) اور روحانی رسومات کو حد سے زیادہ اہمیت دی جاتی رہی۔

سابق ملازمین نے دعویٰ کیا کہ بنی گالا میں گوشت، جانوروں کے سروں اور جگر کے ذریعے بدروحوں سے نجات جیسے اعمال کیے جاتے تھے، جس سے قومی قیادت کے گرد توہم پرستی کا ماحول اجاگر ہوتا ہے۔

بشریٰ بی بی کا مبینہ اثر و رسوخ اور بنی گالا میں خوف

رپورٹ میں ایک سابق کابینہ رکن کے حوالے سے کہا گیا کہ حکومتی معاملات میں بشریٰ بی بی کی ’مکمل مداخلت‘ تھی۔

دعویٰ کیا گیا کہ عمران خان کے ساتھ ملاقاتیں، سرکاری امور اور یہاں تک کہ پروازوں کے وقت بھی بشریٰ بی بی کی منظوری سے طے پاتے تھے، جس کی وجہ سے اندرونی حلقوں میں خوف اور غیر یقینی کیفیت پیدا ہوتی تھی۔

پی ٹی آئی کے اپنے حلقوں کی شکایات اور بلیک میجک کے الزامات

رپورٹ میں جہانگیر ترین سمیت پارٹی کے اہم حمایتیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بعض لوگوں نے ’کالے جادو‘ کے استعمال پر تشویش ظاہر کی، اور مبینہ طور پر انہی خدشات کے بعد بعض وفادار شخصیات کو الگ کر دیا گیا۔

اس اقدام  سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ پارٹی فیصلے کسی باقاعدہ ادارہ جاتی نظام کے تحت نہیں بلکہ ذاتی پسند یا ناپسند کے مطابق ہوتے رہے۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کردار اور اندرونی روابط کا دعویٰ

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2018 میں عمران خان کی کامیابی فوج اور آئی ایس آئی کی مدد سے ممکن ہوئی، جو PTI کے ’احتسابی انقلابی‘ نعرے سے متصادم ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایس آئی کے بعض عناصر مبینہ طور پر بشریٰ بی بی سے وابستہ پیران کے ذریعے معلومات عمران خان تک پہنچاتے رہے، جس سے ان کے روحانی یقین کو تقویت ملتی رہی۔

عاصم منیر کی برطرفی اور مفاداتی بیانیہ

رپورٹ میں دعویٰ ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو اس وقت ہٹایا گیا جب انہوں نے مبینہ طور پر بشریٰ بی بی کے گرد کرپشن کی نشاندہی کی۔ اس اقدام کو عمران خان کے ’اصولوں پر مبنی سیاست‘ کے دعوے سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔

وعدے، ناکامیاں اور قانونی نتائج

رپورٹ کے مطابق عمران خان اپنے بڑے انتخابی وعدے، لاکھوں گھروں اور ملازمتوں، پر عمل درآمد نہ کر سکے اور بعدازاں خود اعتراف کیا کہ ایک مدت میں ایسا ممکن نہ تھا۔

معاشی بحران، سیاسی محاذ آرائی اور اسٹیبلشمنٹ سے تنازع کے بعد وہ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کیے گئے۔

بعد ازاں توشہ خانہ تحائف اور القادر یونیورسٹی کیس سمیت متعدد مقدمات میں عمران خان اور بشریٰ بی بی دونوں کو جیل بھیج دیا گیا، جس سے عمران خان کی ’صاف ہاتھ‘ والی سیاسی شناخت کو شدید دھچکا لگا۔

عمران خان کی مقبولیت اور تنقیدی بیانیہ

اگرچہ عمران خان پر پابندیوں اور میڈیا خاموشی کے باوجود وہ عوامی سطح پر اب بھی ’اخلاقی اتھارٹی‘ کے طور پر سمجھے جاتے ہیں، مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ سادہ لوح ثابت ہوئے، غلط لوگوں کے اثر میں آئے، روحانی اور غیر رسمی کرداروں پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا اور اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کیا جس کے خلاف آج لڑ رہے ہیں۔

سیاسی تحریک، شخصی مرکزیت اور تشدد کا تاثر

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی ایک باقاعدہ ادارہ جاتی پارٹی کے بجائے ایک شخصیت،عمران خان کے گرد گھومتی رہی۔ ان کی گرفتاری کے بعد پارٹی کارکنوں کی جانب سے بعض عسکری اور تاریخی تنصیبات پر حملوں نے PTI کے ’اداروں کے محافظ‘ بیانیے کو کمزور کیا۔

یہ رپورٹ مجموعی طور پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ایک ایسے جوڑے کے طور پر پیش کرتی ہے جنہوں نے سیاست، روحانیت اور طاقت کے غیر رسمی ذرائع کو یکجا کر کے ایک متنازع حکومتی ماڈل تشکیل دیا، جو بالآخر انہی پر الٹ آیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیبلشمنٹ بشریٰ بی بی جنرل عاصم منیر عمران خان

متعلقہ مضامین

  • رانا ثنااللہ: جو کرو گے وہ بھروگے، خدمت کی سیاست ہی کامیاب
  • عمران خان کی سیاست جھوٹ اور بہتان کے سوا کچھ نہیں تھی، تمام فیصلے بشریٰ بی بی کرتی تھیں: عطا تارڑ
  • افغانستان میں بچوں کی غذائی قلت انسانی المیہ کی دہلیز پر
  • عسکری اور معاشی دہشت گردی کبھی اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے مجبور نہیں کر سکتی، ایران
  • سیاست، روحانیت اور اسٹیبلشمنٹ کا متنازع امتزاج،  عمران خان اور بشریٰ بی بی پر عالمی رپورٹ
  • علامہ اقبال اور جدید سیاسی نظام
  • ظہران ممدانی: دہلی کے بے گھر بچوں کے خواب سے نیویارک تک
  • سندھ طاس معاہدہ، ثالثی عدالت اور غیر جانبدار ماہر کے فیصلوں کا خیر مقدم: پاکستان
  • راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی