اسلام میں برداشت کا تصور؛ پاکستان، افغانستان اور سوڈان کے حالات
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251124-03-7
دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے 16 نومبر 1995 سے ’’عالمی یوم برداشت‘‘ دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اصل میں جس کا مقصد ملکوں کے درمیان ثقافتی رواداری اور برداشت ہے، لیکن آج کل جو دنیا میں ہورہا ہے وہ یہ کہ اب بات ثقافت سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے، اب تو ملکوں کو آپس میں ایک دوسرے کا وجود ہی برداشت نہیں ہورہا اور اگر ان کا بس چلے تو ایک دوسرے کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں۔ رواں سال کے پانچویں مہینے میں پاکستان نے ایک مکروہ پڑوسی کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا کر اس کے دانت کھٹے کردیے۔ آج دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت برداشت کی ہے۔ قرآن مجید نے رحمت اللعالمین سیدنا محمدؐ کے بارے فرمایا: ترجمہ؛ ’’یہ اللہ کی رحمت ہی تھی کہ تم ان کے لیے نرم دل ہو گئے، اور اگر تم سخت مزاج اور تندخو ہوتے تو وہ تمہارے گرد سے بکھر جاتے‘‘۔ (آل عمران: 159) یہ آیت بتاتی ہے کہ قیادت اور قوموں کے درمیان تعلق نرمی، برداشت، اور مکالمے سے مضبوط ہوتے ہیں، نہ کہ سختی اور الزام تراشی سے۔
اب آتے ہیں پاکستان اور افغانستان کی جانب۔ آج جب ہم پاکستان اور افغانستان کے تعلقات دیکھتے ہیں، تو دونوں ملکوں کو یہی سبق اپنانا چاہیے۔ الزام تراشی اور غصہ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ بات چیت، صبر اور تحمل ہی امن کی کنجی ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ: ’’اصل طاقتور وہ نہیں جو دوسروں کو گرا دے، بلکہ وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے‘‘۔ اگر دونوں ممالک برداشت اور نرمی کے ساتھ آگے بڑھیں تو دشمنی دوستی میں، اور نفرت امن میں بدل سکتی ہے۔ اسی کا نام ہے اسلامی برداشت ہے جو انسانوں کو قریب لاتی ہے، اور ملکوں کو مضبوط بناتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان نے ماضی میں طے پائے ایک عبوری جھڑپ ختم کرنے والے معاہدے کے بعد، حالیہ مہینوں میں سرحد پر شدید جھڑپیں کی ہیں، جن میں فوجی اور عام شہری دونوں ہلاک ہوئے۔ 19 اکتوبر 2025 کو دوحا میں ثالثی کے تحت ایک عارضی ہنگامی معاہدہ ہوا جس میں فائر بندی کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم، مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے ہیں، جیسے کہ ترکیے (استنبول) میں ثالثی کے ساتھ بات چیت ہورہی تھی۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ امن کا دارومدار اس بات پر ہے کہ افغانستان کی حکومت ملٹری اور عسکری کارروائیوں کو اپنے کنٹرول میں لائے، خصوصاً وہ گروہ جو پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ دوسری جانب، افغانستان نے پاکستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں سے تجاوز کرتی ہے اور وہ خود اپنی سرزمین محفوظ نہ ہونے کی شکایت کرتا ہے۔ حالیہ مذاکرات ناکام قرار پائے ہیں پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ بات چیت ’’ڈیڈ لاک‘‘ میں ہے، ابھی تک کوئی ٹھوس حل نہیں نکلا۔ استنبول (ترکیے) میں کابل اسلام آباد کے درمیان ثالثی مذاکرات ہوئے تھے، جن کا مقصد سرحدی جھڑپوں کو کم کرنا تھا۔ مگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے۔ مذاکرات ناکام ہونے کے باوجود، دونوں جانب سے ایک جنگ بندی کا معاہدہ پہلے طے پا چکا تھا، اور وہ ’’فی الحال‘‘ برقرار ہے۔
مجموعی طور پر، سرحدی خطے کی صورت حال بحرانی مگر قابو میں ہے: جنگ بندی برقرار ہے، بڑی جنگ جاری نہیں، مگر مذاکرات کا عمل رک گیا ہے اور کشیدگی کا امکان بدستور موجود ہے۔ 10 نومبر کو دوبارہ فتنہ الخوارج نے آرمی پبلک اسکول والا ہولناک کھیل کھیلنا چاہا جو کہ اللہ کی رضا سے آرمی نے ناکام بنادیا اور اپنے پڑوسیوں کو بتایا کہ دوبارہ کبھی یہ غلطی بھول کر بھی نہیں کرنا۔ قرآن کہتا ہے کہ ’’دشمن کے ساتھ بھی عدل کرو‘‘۔ (سورۂ المائدہ: 8) اگر پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی بات تحمل اور نرمی سے سنیں، تو غلط فہمیاں کم ہوں گی۔ برداشت کا مطلب کمزوری نہیں بلکہ حکمت اور وقار کے ساتھ بات کرنا ہے۔
اب چلتے ہی افریقا کے رقبے کے لحاظ سے تیسرے بڑے ملک سوڈان جہاں پر 2023ء سے جاری تصادم کے دوران ملک کی فوجی قیادت Sudanese Armed Forces اور پیراملٹری گروپ Rapid Support Forces کے درمیان لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے۔ اس جنگ نے ہنگامی انسانی بحران کھڑا کیا ہے: تقریباً 30 ملین لوگ امداد کے محتاج ہیں، جن میں کروڑوں بچے شامل ہیں۔ قحط، خوراک کی کمی، وبائیں سب ملک کے مختلف علاقوں میں شدید حالات ہوچکے ہیں۔ 2021 میں فوج نے سول حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، دونوں جنرل (البرہان اور حمیدتی) شروع میں ایک ساتھ تھے۔ بعد میں اختلاف اس بات پر ہوا کہ ملک کا کنٹرول کس کے پاس ہوگا یعنی اقتدار کی کرسی۔
سونے کی کانوں کا کنٹرول: سوڈان افریقا کے سب سے بڑے سونا پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ آر ایس ایف (حمیدتی گروپ) کے پاس زیادہ تر سونے کی کانیں اور ان سے حاصل ہونے والا پیسہ ہے۔ فوج (ایس اے ایف) چاہتی ہے کہ یہ دولت ریاست کے کنٹرول میں آئے، نہ کہ کسی ملیشیا کے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کے پیچھے سونا، معیشت اور طاقت تینوں چیزیں چھپی ہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو یہ سارا خون خرابہ عدمِ برداشت کا نتیجہ ہے دونوں فریق اقتدار اور دولت کی خاطر ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے۔ اسلام اور انسانی اخلاقیات ہمیں سکھاتے ہیں کہ: ’’امن اور انصاف صرف تب قائم ہوتا ہے جب طاقتور برداشت اور انصاف سے کام لے‘‘۔ اگر دونوں گروہ برداشت، مکالمہ اور عوامی مفاد کو ترجیح دیں، تو نہ صرف سونا محفوظ رہے گا بلکہ انسانی جانیں بھی بچیں گی۔
سوڈان کی جنگ اور برداشت کا سبق: آج دنیا کے کئی ممالک میں طاقت، دولت اور سیاست کی خاطر خون بہایا جا رہا ہے۔ ظاہری طور پر یہ جنگ اقتدار کی ہے، مگر اس کے پیچھے سونے کی کانوں، دولت کے ذرائع، اور ملک کے کنٹرول کی لڑائی ہے۔ دونوں فریق چاہتے ہیں کہ وہی طاقتور رہیں، لیکن اس کی قیمت لاکھوں بے گناہ انسانوں کی جانوں سے ادا کی جا رہی ہے۔ بچے بھوکے ہیں، لوگ ہجرت پر مجبور ہیں، اور پورا ملک قحط اور بیماری کا شکار ہے۔ ایسے میں اسلام اور انسانیت ہمیں ایک ہی راستہ دکھاتے ہیں۔ برداشت کا راستہ۔ قرآن کہتا ہے: ’’اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ‘‘۔ (انفال: 61) اور نبیؐ نے فرمایا: ’’طاقتور وہ نہیں جو لڑائی میں دوسرے کو گرا دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے‘‘۔ اگر سوڈان کے یہ دونوں گروہ برداشت، صبر، اور مکالمے کا راستہ اختیار کریں تو جنگ ختم ہو سکتی ہے، اور وہی دولت اور سونا جو آج تباہی لا رہا ہے، کل خوشحالی لا سکتا ہے۔ سوڈان ہمیں ایک سبق دیتا ہے کہ جب طاقت برداشت کے بغیر ہو، تو امن تباہ ہو جاتا ہے۔ لیکن جب برداشت طاقت کے ساتھ ہو، تو قومیں دوبارہ زندہ ہو جاتی ہیں۔ ’’سوڈان کی جنگ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ امن کی کنجی بندوق نہیں، بلکہ برداشت ہے‘‘۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان برداشت کا ایک دوسرے کے ساتھ میں ایک کیا ہے
پڑھیں:
چین کا جاپان کو دوٹوک پیغام: تائیوان پر مداخلت برداشت نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیجنگ:چین نے جاپان کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر دیے گئے حالیہ بیانات کو سرخ لکیر کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بیجنگ کسی بھی صورت جاپانی عسکریت پسندی کی دوبارہ ابھرتی شکل کو برداشت نہیں کرے گا۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ ٹوکیو کو تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم عالمی اصولوں کو چیلنج کرنا خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں اپنے تاجک ہم منصب سروج الدین مہرالدین کے ساتھ اولین اسٹریٹجک مذاکرات کے دوران وانگ یی نے کہا کہ جاپان کی دائیں بازو قوتیں تاریخ کا رخ دوبارہ موڑنے کی کوشش کر رہی ہیں اور چین نہ تو اس مہم جوئی کی اجازت دے گا اور نہ ہی کسی بیرونی طاقت کو تائیوان کے معاملے میں مداخلت کرنے دے گا۔
انہوں نے زور دیا کہ چین تمام ممالک کے ساتھ مل کر ون چائنا پالیسی پر قائم بین الاقوامی اتفاق” کا تحفظ کرے گا کیونکہ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی نظام کا بنیادی ستون ہے۔