انسانی روحوں کا ڈریم ٹائم تصور
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
انسان اپنے آغاز سے ہی اپنے وجود کے بھید کھولنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ زندگی کے سوالات تو کبھی نہ کبھی سلجھ ہی جاتے ہیں، مگر موت آج بھی وہ سب سے گہری پہیلی ہے جس نے انسان کو چونکا بھی رکھا ہے اور متجسس بھی۔ شاید اسی لیے ہر مذہب، ہر تہذیب اور ہر قبیلے نے اپنی اپنی شناخت اور تجربے کے مطابق اس سوال کا جواب تراشا کہ انسان مرنے کے بعد کہاں جاتا ہے؟
حیرت یہ ہے کہ یہ جوابات مختلف ہونے کے باوجود ایک لطیف سی ہم آہنگی رکھتے ہیں کہ جیسے سچائی کے کئی چراغ مختلف مکانوں میں روشن ہوں مگر اُن کی لو ایک ہی آسمانی ہوا سے جل رہی ہو۔
اسلام میں کہا جاتا ہے کہ جب انسان کا دنیاوی سفر تمام ہوتا ہے تو روح عالمِ برزخ میں داخل ہوجاتی ہے۔ یعنی 2 جہانوں کے بیچ ایک خاموش مقام، جہاں روح اپنے اعمال کے ساتھ رہتی ہے، جیسے زندگی کی پوری کتاب کھلی ہو اور روح اس کے اوراق پلٹتی رہے۔
یہودی اور مسیحی روایت میں بھی موت کے بعد ایسے ہی ایک عارضی قیام کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ مسیحیت اسے ’پرگیٹری‘ کہتی ہے اور یہودیت میں اسے ’ہائیڈیز‘ یا ’شیول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یعنی یک ایسا مقام جہاں روح آخری مرحلے (قیامت) کا انتظار کرتی ہے۔
روح کے بعد کے سفر کا جو تصور آسٹریلیا کی عظیم اور قدیم ایب اوریجنی تہذیب میں ملتا ہے، وہ بے حد شاعرانہ، نرم اور حیرت انگیز ہے۔ ایب اوریجنیز دنیا کی سب سے پرانی زندہ ثقافتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی داستانیں، رسمیں اور عقائد کے سلسلے محض کہانیاں نہیں بلکہ انسان، فطرت اور کائنات کے درمیان ایک گہرے روحانی رشتے کا عہد نامہ ہیں۔
اُن کے کائناتی نظریات کا مرکز ڈریم ٹائم ہے، یعنی وہ اوّلین وقت جب دنیا بنی، جب پہاڑوں نے شکل اختیار کی، دریا، سمندر اور ندیاں بہہ نکلیں اور انسان نے پہلی مرتبہ زندگی کا لمس محسوس کیا۔
ڈریم ٹائم کی کہانیوں میں موت بھی زندگی کی طرح ایک سفر ہے جو ختم نہیں ہوتا، صرف روپ بدلتا ہے۔ ان کی روایت کہتی ہے کہ جب انسان اس دھرتی سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی روح جسمانی قید سے آزاد ہو کر آسمان کی وسعتوں میں داخل ہوجاتی ہے، اور پھر ایک چمکتے ہوئے ستارے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ان کے نزدیک آسمان پر جھلملاتے بے شمار ستارے دراصل وہی ارواح ہیں جو کبھی اسی زمین پر چلتی تھیں، گاتی تھیں، ہنستی تھیں، بچوں کو گود میں اٹھاتی تھیں اور شکار کے پیچھے بھاگتی تھیں۔ اب وہی ارواح اپنی نسلوں کو آسمان کی بلندیوں سے دیکھتی ہیں۔ یوں آسمان کا ہر ستارہ ایک کہانی ہے۔ ایک انسان، ایک خاندان، ایک سفر کی بازگشت۔
کئی ایب اویریجنیز قبائل جیسے Yolngu، Arrernte اور Noongar مانتے ہیں کہ زندگی ایک دائروی چکر ہے۔ روح آسمان سے اتر کر ماں کی کوکھ میں داخل ہوتی ہے، اور تکمیل کے مراحل طے کرکے دنیا میں قدم رکھتی ہے۔ پھر اپنا سفر مکمل کرکے دوبارہ اپنی آسمانی جائے پیدائش کی طرف لوٹ جاتی ہے۔
جب کسی کے مرنے پر آسٹریلیا کے آسمان میں کوئی تارہ ٹوٹتا ہے یا کبھی کوئی چمکتی لکیر آسمان پر دوڑتی دکھائی دیتی ہے، تو ایب اوریجنیز اسے ایک روح کا آسمان کی طرف اوپر اٹھنے کا سفر سمجھتے ہیں، جو اپنے خاندان (گلیکسی) میں پہنچ کر ایک نیا ستارہ بن جاتی ہے۔
یوں زمین اور آسمان کے درمیان رشتہ منقطع نہیں ہوتا۔ زندگی بس اپنے دائرے میں چلتی رہتی ہے۔ گویا ایب اوریجنی عقیدے کے مطابق زندگی اور موت الگ حقیقتیں نہیں بلکہ ایک ہی داستان کے 2 باہم جڑے ہوئے ابواب ہیں۔
اس فلسفے میں ایک نرم سی شاعری بکھری ہوئی ہے۔ ایک ایسا رشتہ جو ہر ستارے کو انسان کے ہر دکھ، ہر امید اور ہر محبت سے جوڑ دیتا ہے۔ جب کوئی بچھڑ جاتا ہے تو ایب اوریجنی باپ اپنے بچے کو آسمان کی طرف اشارہ کرکے بتاتا ہے: ’وہ دیکھو! وہ چمکتا ستارہ ۔۔۔ تمہارے دادا کی روح ہے۔ وہ تمہیں اوپر سے دیکھ رہا ہے، تمہاری حفاظت کر رہا ہے اور اندھیری رات میں تمہیں راستہ دکھا رہا ہے۔‘
یوں آسمان کا ہر ستارہ ایک حوالہ بن جاتا ہے، یاد کا حوالہ، محبت کا حوالہ، حفاظت کا حوالہ، اور اس رشتے کا حوالہ جو موت سے بھی نہیں ٹوٹتا۔ انسان جسمانی طور پر مر جاتا ہے، مگر اس کی روشنی باقی رہتی ہے۔ کہیں ستاروں کی صورت، کہیں یادوں کی صورت، کہیں خدا کے قرب میں۔ موت کے بعد ستارہ بن جانے کا اپنا ہی ایک حسن ہے۔
آئیے ہم بھی زندگی میں ایسے اعمال کریں کہ جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں تو شاید آسمان پر ستارہ نہ بن سکیں، مگر زمین پر کسی کے دل کی گلیکسی میں یاد کی ایک نرم روشنی ضرور چھوڑ جائیں، اور اگر کائنات کا کوئی روشن تارہ ہمارے حصے میں نہ آیا، تو کم از کم محبت اور نیک نیتی کا استعارہ بن کر لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں۔ یوں ہماری روشنی کہیں نہ کہیں، ہمیشہ کسی نہ کسی کے لیے راستہ دکھاتی رہے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔
انسانی روح ایب اوریجنیز ڈریم ٹائم سڈنی عالمِ برزخ عباس سیال یہودی اور مسیحی روایت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایب اوریجنیز ڈریم ٹائم عالم برزخ عباس سیال ڈریم ٹائم آسمان کی کا حوالہ جاتا ہے کے بعد
پڑھیں:
فیروز خان نے اپنی ذاتی زندگی کو ٹارگٹ کیے جانے پر خاموشی توڑ دی
فیروز خان نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں لوگوں کی جانب سے ان کی ذاتی زندگی کو ٹارگٹ کیے جانے کے بارے میں بات کی۔
فیروز خان ایک ورسٹائل اور باصلاحیت پاکستانی ٹیلی ویژن اور فلمی اداکار ہیں جنہوں نے اپنے ڈرامہ سیریل خانی کی کامیابی کے بعد بے پناہ اسٹارڈم حاصل کیا۔
تاہم فیروز خان کی ذاتی زندگی اور طلاق اس وقت بڑی سرخیاں بنیں جب ان کی سابقہ بیوی نے ان پر بدسلوکی کا الزام لگایا۔ اگرچہ اب وہ ڈاکٹر زینب کے ساتھ شادی کے بندھن میں منسلک ہیں لیکن ان کی ذاتی زندگی ان کی سابق اہلیہ کی پوسٹس کی وجہ سے آج بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
حال ہی میں فیروز خان ایک نجی شو میں نظر آئے جس کی میزبانی احمد رندھاوا کر رہے تھے۔ اس انٹرویو کا ایک ٹیزر شیئر کیا گیا جس میں فیروز خان نے اپنی ذاتی زندگی کے لیے نشانہ بننے کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح ان کی والدہ کی دعاؤں نے انہیں مشکل وقت میں مضبوط رکھا۔
انہوں نے تناؤ اور سوشل میڈیا پر مسلسل نفرتوں کی وجہ سے اپنے قریب المرگ کے تجربات کے بارے میں بھی بات کی۔
اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فیروز خان نے کہا کہ مجھے ذاتی طور پر شدید نشانہ بنایا گیا، ایک دن میں گر گیا اور موت کے منہ میں جا پہنچا، ایک دن میں اپنے ٹوائلٹ گیا اور میں نے خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ میں اپنے بچوں کو بہت یاد کر رہا تھا کیونکہ مجھے ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ اداکاری چھوڑ دوں گا، عدالت میں جا کر کپڑے بیچنا شروع کر دوں گا۔ مجھے متعدد الزامات کا سامنا کرنا پڑا لیکن میری والدہ کی دعاؤں نے میرے لیے کام کیا اور مجھے ہوش آیا۔