data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251124-03-5
اختر شیخ
پاکستان میں ٹریفک کا بگڑتا ہوا نظام ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ کسی بھی ریاست کا نظم و نسق عوامی تعاون کے بغیر موثر نہیں چل سکتا مگر ہمارے ہاں ٹریفک کے معاملے میں یہ تعاون نہایت کمزور ہے۔ قوانین موجود ہیں، ٹریفک پولیس بھی اپنے دائرۂ کار میں چالان اور جرمانے کرتی ہے، گو کے ان کی بھی بہت کمزوریاں ہیں، مگر مجموعی طور پر عوامی رویہ ایسا ہے کہ گویا قانون ان کے لیے بنا ہی نہ ہو۔ سڑکوں پر ایک عجیب سا ازدحام ہر ایک کی جلدی ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جنون اور نتیجہ یہ کہ قانون پر چلنے والا ہی اپنے آپ کو مشکل میں پاتا ہے۔ شاہراہوں پر غلط پارکنگ بنا ہیلمٹ موٹر سائیکل بغیر سیٹ بیلٹ گاڑیاں، اور دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال اتنا عام ہو چکا ہے کہ شاید اب کوئی اسے خلاف ورزی سمجھتا بھی نہیں۔ یہی رویے ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہیں اور ان حادثات کی قیمت جانوں کی صورت میں ادا ہوتی ہے۔ کتنی ہی مائیں آج بھی اپنے نوجوان بچوں کی اچانک موت کا دکھ اٹھائے بیٹھی ہیں، کتنے بچے کم عمری ہی میں اپنے والدین کو کھو کر زندگی بھر کے صدمے کا شکار ہو جاتے ہیں، اور بہت سے لوگ معذوری اور نفسیاتی تکالیف کے ساتھ عمر گزارتے ہیں۔ افسوس ہمیں متعلقہ اداروں کی کمزوری تو دکھائی دیتی ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان حادثات میں ہماری اپنی غلطیاں سب سے زیادہ شامل ہوتی ہیں۔

کراچی کی سڑکوں پر پیش آنے والے حادثات کی ایک بڑی وجہ ڈرائیورز کا وہ خطرناک رجحان ہے جس میں وہ بائیں جانب سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ہمارا نظام رائٹ ہینڈ ڈرائیونگ ہے۔ سامنے والی گاڑی اگر بائیں طرف مڑنے کا اشارہ بھی دے رہی ہو تب بھی پیچھے آنے والا نوجوان اسی طرف سے گھسنے کی کوشش کرتا ہے، اور یہی حرکت کئی جان لیوا حادثات کا سبب بنتی ہے۔ خصوصاً نوجوانوں میں یہ بے احتیاطی بہت زیادہ ہے جو نہ صرف قانون شکنی ہے بلکہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

رات کے اوقات میں یہ صورتحال مزید خطرناک ہو جاتی ہے۔ کراچی میں ستر فی صد موٹر سائیکلوں کی ہیڈ لائٹ تک صحیح کام نہیں کرتی۔ اندھیرے میں تیز رفتار بائیکیں، سڑکوں پر چلتے بزرگوں اور بچوں کی پروا کیے بغیر، نہ صرف حادثات کا باعث بنتی ہیں بلکہ خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں۔ مگر ایک اور لمحہ ٔ فکر یہ ہے کہ آج والدین خود اپنی اولاد کو حادثوں کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے بچوں کو جن کی عمر ابھی شناختی کارڈ کے قابل بھی نہیں نہ قوانین کا علم ہے، نہ سڑک کا شعور انہیں والدین باقاعدہ اپنی بائیکیں پکڑا دیتے ہیں۔ وہ بچے نہ رفتار سمجھتے ہیں نہ ٹریفک کا بہاؤ، اور والدین اسے معمول کی بات سمجھتے ہیں۔ جب حادثہ ہو جائے تو اپنی غلطی ماننے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں، مگر بعد میں یہی لوگ اپنے ہی رویے کے ذریعہ تربیت پانے والے بچوں کو روتے بھی ہیں۔ اولاد والدین کا سہارا ہوتی ہے اور اگر کسی مجبوری میں بچہ بائیک لے کر جا رہا ہو تو والدین کی ذمے داری ہے کہ کم از کم اسے سمجھا کر بھیجیں کہ مین شاہراہ پر نہ جائے، گھر کے قریب سے ضرورت کی چیز لے آئے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ کم عمر بچوں کو بائیک دینا دراصل اپنے آپ پر اور اپنی اولاد پر ظلم ہے۔

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی، سڑکوں کی خستہ حالی، قوانین سے لاعلمی اور روڈ سب سے زیادہ سیفٹی کی تعلیم کا فقدان یہ سب مسائل مل کر حادثات کو جنم دیتے ہیں۔ مگر ان سب سے بڑا مسئلہ ہمارا اجتماعی رویہ ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ ٹریفک حادثات قدرت کا نہیں بلکہ ہماری اپنی غلطیوں اور جلد بازی کا نتیجہ ہوتے ہیں تو بہت سے دکھ ٹل سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب، ادارے بھی اور عوام بھی اپنی ذمے داری محسوس کریں تاکہ ہماری سڑکیں بھی محفوظ ہوں اور ہماری زندگیاں بھی۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں یہ

پڑھیں:

ہتھیار ڈالنے کی ڈیڈ لائن

اسلام ٹائمز: یوکرین آج ایک مہلک مثلث میں گرفتار ہو چکا ہے: ٹرمپ کی جانب سے بے رحمانہ اور یکطرفہ دباو جو اپنے کل کے اتحادی کو مکمل طور پر ہتھیار پھینک دینے پر مجبور کر رہا ہے اور یورپ سے مکمل چشم پوشی کر رکھی ہے، یورپ کی سستی اور صرف مالی اور فوجی امداد تک اکتفا اور اندرونی سطح پر زیلنسکی کی کمزوری اور کرپشن کا بحران۔ اس سہ طرفہ بند گلی کا نتیجہ صرف ایک چیز ہے اور وہ بے معنی قتل و غارت کا تسلسل، انفرااسٹرکچر کی مزید تباہی اور روزانہ سینکڑوں فوجیوں اور عام شہریوں کی ہلاکت ہے۔ دوسری طرف جان لیوا سردی ان کروڑوں یوکرینی شہریوں کی جانوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے جو بجلی سے محروم ہیں۔ جب تک ٹرمپ اپنی توہین آمیز ڈیڈ لائن، یورپ اپنی بے عملی اور زیلنسکی اپنی خیالی ریڈ لائنز سے پیچھے نہیں ہٹتے، امن کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ تحریر: مہدی سیف تبریزی
 
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے 21 نومبر کے دن کیف کے صدارتی محل میں تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 28 نکاتی جنگ بندی منصوبے کو "مکمل طور پر ناممکن" قرار دیا اور اسے قبول کرنے کو یوکرین کا وقار، خودمختاری اور مستقبل قربان کر دینے کے مترادف جانا۔ کچھ ہی گھنٹے بعد وائٹ ہاوس نے معمول سے ہٹ کر ایک بیانیہ جاری کیا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ یوکرین کے پاس ٹرمپ کے پیش کردہ جنگ بندی منصوبے کو قبول کرنے کی آخری مہلت، امریکہ کا یوم شکر گزاری (27 نومبر) ہے اور اگر اس نے اس مدت میں یہ منصوبہ قبول نہ کیا تو اس کی تمام تر فوجی، مالی، انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ ایک ہی رات میں اور ہمیشہ کے لیے بند کر دی جائے گی۔ یہ توہین آمیز ڈیڈ لائن ایسے وقت سامنے آئی ہے جب یوکرین جنگ کو چوتھا سال شروع ہو چکا ہے۔
 
اس وقت یوکرین کی صورتحال یہ ہے کہ وہ چار سال کی جنگ کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر لوڈ شیڈنگ، فوجی ہتھیاروں کی شدید کمی اور بربادی کے دہانے پر پہنچی معیشت سے روبرو ہے۔ اب وہ اپنی تاریخ کے مہلک ترین دو راہے پر کھڑا ہے: یا تو اسے امریکہ کا پیش کردہ جنگ بندی منصوبہ قبول کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں وہ اپنی سرزمین، فوج اور سلامتی سے محروم ہو جائے گا اور یا امریکہ کی حمایت مکمل طور پر گنوا دینے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ وہ منصوبہ جسے ڈونلڈ ٹرمپ بہت فخر سے "جیت جیت راہ حل" قرار دے رہا ہے درحقیقت یوکرین کی جانب سے یکطرفہ طور پر ہتھیار پھینک دینے کی دستاویز ہے اور مکمل طور پر اس کے نقصان میں ہے۔ اس منصوبے کے اہم نکات یہ ہیں: جزیرہ کریمہ اور مقبوضہ علاقے مستقل طور پر روس کے حوالے کر دینا، یوکرین فوج کو پچاس فیصد چھوٹا کر دینا، نیٹو میں رکنیت کی مستقل ممانعت، یوکرین پر مستقل نظارت۔
 
یورپ اور زیلنسکی، فراوان نعرے اور عمل نہ ہونے کے برابر
وائٹ ہاوس کی جانب سے یوکرین کے لیے سرینڈر کر جانے کی ڈیڈ لائن اعلان ہونے کے چند ہی گھنٹے بعد سفارتی کالیں شروع ہو گئیں۔ فردریش مرٹز، ایمونوئیل میکرون، کیر اسٹارمر، اورزولا فنڈر لائن اور کایا کالاس، سب نے یکزبان ہو کر امریکی منصوبے کو "ناقابل قبول" اور "یورپ کی سلامتی کے لیے نقصان دہ" نیز "جارح طاقت کو انعام دینے کے مترادف" قرار دے دیا۔ اسی طرح انہوں نے زیلنسکی سے غیر متزلزل حمایت کا وعدہ بھی کیا۔ لیکن ان پرجوش نعروں کے پیچھے کوئی واضح روڈمیپ نہیں پایا جاتا۔ یورپ سالانہ 100 ارب یورو سے زیادہ یوکرین کی مدد کر رہا ہے جس کا زیادہ تر حصہ اسلحہ خریدنے، فوجیوں کی تنخواہیں دینے اور یوکرین کے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ لیکن اب تک جنگ میں فتح سے متعلق کوئی واضح منظرنامہ نہیں پایا جاتا۔
 
مرٹس نے ٹرمپ سے کہا کہ وہ ڈیڈ لائن آگے بڑھا دے، ایمونوئیل میکرون نے "ایک چپہ سرزمین دیے بغیر امن" پر زور دیا اور فنڈر لائن نے اپنا پرانا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ "یوکرین کے بغیر یوکرین سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا"۔ لیکن یہ تمام بیانات ایک راہ حل کی بجائے وقت خریدنے اور اتحاد کی فیس سیونگ کی کوشش ہے۔ عمل کے میدان میں یورپ اب بھی حتی امریکہ کے ساتھ بند کمرے میں ایک نشست بھی منعقد نہیں کر پا ہے چہ جائیکہ ایک مکتوب اور قابل دفاع پیشکش کے ذریعے ٹرمپ کو ڈیڈ لائن موخر کرنے پر مجبور کر سکے۔ کیف میں بھی زیلنسکی نے اسی ہمیشگی لہجے میں ہر قسم کی مفاہمت قبول کرنے کو "قتل ہونے والوں کے خون سے غداری" قرار دیتے ہوئے کہا: "ہم اپنی نسلوں کو بیرونی دباو کی بھینٹ چڑھانا نہیں چاہتے۔"
 
کرپشن، واشنگٹن کا دباو اور اعتماد کا فقدن
ٹرمپ کی جانب سے ڈیڈ لائن کے اعلان کے ساتھ ہی زیلنسکی کے قریبی حلقوں کی کرپشن کے اسکینڈل بھی منظرعام پر آئے ہیں۔ انرجی اور انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے منصوبوں میں 100 ملین ڈالر کی کرپشن، زینلسکی کے پرانے شریک تیمور میندیچ کا اپنے اہلخانہ سمیت ملک سے فرار ہو جانا، وزیر انرجی اور وزیر انصاف کے اچانک استعفے، سرکاری عہدیداروں کے گھروں میں بڑے پیمانے پر نقد پیسوں کی برآمد اور حتی مغربی مالی امداد سے دوبئی اور لندن میں انتہائی مہنگی پراپرٹی خریدے جانے کی رپورٹس نے حکومت پر عوام کا اعتماد چکناچور کر ڈالا ہے۔ اسٹیو ویٹکوف، امریکی ایلچی نے فاکس نیوز پر کہا کہ ہم امریکہ کے ٹیکس دہندگان کا پیشہ زیلنسکی کی گینگ کو مزید نہیں دے سکتے۔ یوکرین کی پارلیمنٹ میں 2022ء کے بعد پہلی بار صدر کے خلاف مظاہرہ ہوا ہے۔
 
سہ طرفہ بند گلی اور حقیقی قربانی
یوکرین آج ایک مہلک مثلث میں گرفتار ہو چکا ہے: ٹرمپ کی جانب سے بے رحمانہ اور یکطرفہ دباو جو اپنے کل کے اتحادی کو مکمل طور پر ہتھیار پھینک دینے پر مجبور کر رہا ہے اور یورپ سے مکمل چشم پوشی کر رکھی ہے، یورپ کی سستی اور صرف مالی اور فوجی امداد تک اکتفا اور اندرونی سطح پر زیلنسکی کی کمزوری اور کرپشن کا بحران۔ اس سہ طرفہ بند گلی کا نتیجہ صرف ایک چیز ہے اور وہ بے معنی قتل و غارت کا تسلسل، انفرااسٹرکچر کی مزید تباہی اور روزانہ سینکڑوں فوجیوں اور عام شہریوں کی ہلاکت ہے۔ دوسری طرف جان لیوا سردی ان کروڑوں یوکرینی شہریوں کی جانوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے جو بجلی سے محروم ہیں۔ جب تک ٹرمپ اپنی توہین آمیز ڈیڈ لائن، یورپ اپنی بے عملی اور زیلنسکی اپنی خیالی ریڈ لائنز سے پیچھے نہیں ہٹتے، امن کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی کی سڑکیں، ناقص کام کی گواہی
  • ہتھیار ڈالنے کی ڈیڈ لائن
  • راولپنڈی: ٹریفک کے 2 مختلف حادثات میں ایک شخص جاں بحق، 6 زخمی
  • سب تماشا ہے!
  • اگر میں قابل قدر نہیں تو ساتھ کام بھی نہ کریں، شیفالی شاہ
  • کراچی میں ای چالان کے بعد روبوٹ کار ٹریفک کا انتظام سنبھالنے کے لے میدان میں آگئیں
  • ثانیہ زہرہ کیس اور سماج سے سوال
  • نظام کی اصلاح کے لیے اسلوبِ دعوت
  • شدید تنقید کے بعد کراچی میں ٹریفک سائن بورڈ نصب ہونا شروع