ہتھیار ڈالنے کی ڈیڈ لائن
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یوکرین آج ایک مہلک مثلث میں گرفتار ہو چکا ہے: ٹرمپ کی جانب سے بے رحمانہ اور یکطرفہ دباو جو اپنے کل کے اتحادی کو مکمل طور پر ہتھیار پھینک دینے پر مجبور کر رہا ہے اور یورپ سے مکمل چشم پوشی کر رکھی ہے، یورپ کی سستی اور صرف مالی اور فوجی امداد تک اکتفا اور اندرونی سطح پر زیلنسکی کی کمزوری اور کرپشن کا بحران۔ اس سہ طرفہ بند گلی کا نتیجہ صرف ایک چیز ہے اور وہ بے معنی قتل و غارت کا تسلسل، انفرااسٹرکچر کی مزید تباہی اور روزانہ سینکڑوں فوجیوں اور عام شہریوں کی ہلاکت ہے۔ دوسری طرف جان لیوا سردی ان کروڑوں یوکرینی شہریوں کی جانوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے جو بجلی سے محروم ہیں۔ جب تک ٹرمپ اپنی توہین آمیز ڈیڈ لائن، یورپ اپنی بے عملی اور زیلنسکی اپنی خیالی ریڈ لائنز سے پیچھے نہیں ہٹتے، امن کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ تحریر: مہدی سیف تبریزی
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے 21 نومبر کے دن کیف کے صدارتی محل میں تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 28 نکاتی جنگ بندی منصوبے کو "مکمل طور پر ناممکن" قرار دیا اور اسے قبول کرنے کو یوکرین کا وقار، خودمختاری اور مستقبل قربان کر دینے کے مترادف جانا۔ کچھ ہی گھنٹے بعد وائٹ ہاوس نے معمول سے ہٹ کر ایک بیانیہ جاری کیا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ یوکرین کے پاس ٹرمپ کے پیش کردہ جنگ بندی منصوبے کو قبول کرنے کی آخری مہلت، امریکہ کا یوم شکر گزاری (27 نومبر) ہے اور اگر اس نے اس مدت میں یہ منصوبہ قبول نہ کیا تو اس کی تمام تر فوجی، مالی، انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ ایک ہی رات میں اور ہمیشہ کے لیے بند کر دی جائے گی۔ یہ توہین آمیز ڈیڈ لائن ایسے وقت سامنے آئی ہے جب یوکرین جنگ کو چوتھا سال شروع ہو چکا ہے۔
اس وقت یوکرین کی صورتحال یہ ہے کہ وہ چار سال کی جنگ کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر لوڈ شیڈنگ، فوجی ہتھیاروں کی شدید کمی اور بربادی کے دہانے پر پہنچی معیشت سے روبرو ہے۔ اب وہ اپنی تاریخ کے مہلک ترین دو راہے پر کھڑا ہے: یا تو اسے امریکہ کا پیش کردہ جنگ بندی منصوبہ قبول کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں وہ اپنی سرزمین، فوج اور سلامتی سے محروم ہو جائے گا اور یا امریکہ کی حمایت مکمل طور پر گنوا دینے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ وہ منصوبہ جسے ڈونلڈ ٹرمپ بہت فخر سے "جیت جیت راہ حل" قرار دے رہا ہے درحقیقت یوکرین کی جانب سے یکطرفہ طور پر ہتھیار پھینک دینے کی دستاویز ہے اور مکمل طور پر اس کے نقصان میں ہے۔ اس منصوبے کے اہم نکات یہ ہیں: جزیرہ کریمہ اور مقبوضہ علاقے مستقل طور پر روس کے حوالے کر دینا، یوکرین فوج کو پچاس فیصد چھوٹا کر دینا، نیٹو میں رکنیت کی مستقل ممانعت، یوکرین پر مستقل نظارت۔
یورپ اور زیلنسکی، فراوان نعرے اور عمل نہ ہونے کے برابر
وائٹ ہاوس کی جانب سے یوکرین کے لیے سرینڈر کر جانے کی ڈیڈ لائن اعلان ہونے کے چند ہی گھنٹے بعد سفارتی کالیں شروع ہو گئیں۔ فردریش مرٹز، ایمونوئیل میکرون، کیر اسٹارمر، اورزولا فنڈر لائن اور کایا کالاس، سب نے یکزبان ہو کر امریکی منصوبے کو "ناقابل قبول" اور "یورپ کی سلامتی کے لیے نقصان دہ" نیز "جارح طاقت کو انعام دینے کے مترادف" قرار دے دیا۔ اسی طرح انہوں نے زیلنسکی سے غیر متزلزل حمایت کا وعدہ بھی کیا۔ لیکن ان پرجوش نعروں کے پیچھے کوئی واضح روڈمیپ نہیں پایا جاتا۔ یورپ سالانہ 100 ارب یورو سے زیادہ یوکرین کی مدد کر رہا ہے جس کا زیادہ تر حصہ اسلحہ خریدنے، فوجیوں کی تنخواہیں دینے اور یوکرین کے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ لیکن اب تک جنگ میں فتح سے متعلق کوئی واضح منظرنامہ نہیں پایا جاتا۔
مرٹس نے ٹرمپ سے کہا کہ وہ ڈیڈ لائن آگے بڑھا دے، ایمونوئیل میکرون نے "ایک چپہ سرزمین دیے بغیر امن" پر زور دیا اور فنڈر لائن نے اپنا پرانا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ "یوکرین کے بغیر یوکرین سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا"۔ لیکن یہ تمام بیانات ایک راہ حل کی بجائے وقت خریدنے اور اتحاد کی فیس سیونگ کی کوشش ہے۔ عمل کے میدان میں یورپ اب بھی حتی امریکہ کے ساتھ بند کمرے میں ایک نشست بھی منعقد نہیں کر پا ہے چہ جائیکہ ایک مکتوب اور قابل دفاع پیشکش کے ذریعے ٹرمپ کو ڈیڈ لائن موخر کرنے پر مجبور کر سکے۔ کیف میں بھی زیلنسکی نے اسی ہمیشگی لہجے میں ہر قسم کی مفاہمت قبول کرنے کو "قتل ہونے والوں کے خون سے غداری" قرار دیتے ہوئے کہا: "ہم اپنی نسلوں کو بیرونی دباو کی بھینٹ چڑھانا نہیں چاہتے۔"
کرپشن، واشنگٹن کا دباو اور اعتماد کا فقدن
ٹرمپ کی جانب سے ڈیڈ لائن کے اعلان کے ساتھ ہی زیلنسکی کے قریبی حلقوں کی کرپشن کے اسکینڈل بھی منظرعام پر آئے ہیں۔ انرجی اور انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے منصوبوں میں 100 ملین ڈالر کی کرپشن، زینلسکی کے پرانے شریک تیمور میندیچ کا اپنے اہلخانہ سمیت ملک سے فرار ہو جانا، وزیر انرجی اور وزیر انصاف کے اچانک استعفے، سرکاری عہدیداروں کے گھروں میں بڑے پیمانے پر نقد پیسوں کی برآمد اور حتی مغربی مالی امداد سے دوبئی اور لندن میں انتہائی مہنگی پراپرٹی خریدے جانے کی رپورٹس نے حکومت پر عوام کا اعتماد چکناچور کر ڈالا ہے۔ اسٹیو ویٹکوف، امریکی ایلچی نے فاکس نیوز پر کہا کہ ہم امریکہ کے ٹیکس دہندگان کا پیشہ زیلنسکی کی گینگ کو مزید نہیں دے سکتے۔ یوکرین کی پارلیمنٹ میں 2022ء کے بعد پہلی بار صدر کے خلاف مظاہرہ ہوا ہے۔
سہ طرفہ بند گلی اور حقیقی قربانی
یوکرین آج ایک مہلک مثلث میں گرفتار ہو چکا ہے: ٹرمپ کی جانب سے بے رحمانہ اور یکطرفہ دباو جو اپنے کل کے اتحادی کو مکمل طور پر ہتھیار پھینک دینے پر مجبور کر رہا ہے اور یورپ سے مکمل چشم پوشی کر رکھی ہے، یورپ کی سستی اور صرف مالی اور فوجی امداد تک اکتفا اور اندرونی سطح پر زیلنسکی کی کمزوری اور کرپشن کا بحران۔ اس سہ طرفہ بند گلی کا نتیجہ صرف ایک چیز ہے اور وہ بے معنی قتل و غارت کا تسلسل، انفرااسٹرکچر کی مزید تباہی اور روزانہ سینکڑوں فوجیوں اور عام شہریوں کی ہلاکت ہے۔ دوسری طرف جان لیوا سردی ان کروڑوں یوکرینی شہریوں کی جانوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے جو بجلی سے محروم ہیں۔ جب تک ٹرمپ اپنی توہین آمیز ڈیڈ لائن، یورپ اپنی بے عملی اور زیلنسکی اپنی خیالی ریڈ لائنز سے پیچھے نہیں ہٹتے، امن کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ٹرمپ کی جانب سے شہریوں کی یوکرین کے یوکرین کی ڈیڈ لائن رہا ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
یوکرین سے جنگ بندی: روس نے ٹرمپ کے امن منصوبےکی حمایت کردی
ماسکو (نیوزڈیسک) روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین سے جنگ بندی کے لیے امریکی امن منصوبے کی حمایت کردی۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے تصدیق کی کہ اس منصوبے میں روس کے کئی اہم مطالبات کو شامل کیا گیا ہے، یوکرین کی جانب سے معاہدے کو مسترد کیے جانے کی صورت میں وہ مزید علاقوں پر قبضہ کرسکتے ہیں۔
پیوٹن نے زیلنسکی کو خبردار کیا کہ جیسے حال ہی میں یوکرین کے علاقے کیپیانسک پر قبضہ ہوا ایسا دیگر اہم علاقوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
روسی صدر نے یہ بھی کہا کہ امریکی دستاویز میں کچھ ایسی شقیں شامل ہیں جن پر بات چیت کی جا سکتی ہے، امریکا کا یہ 28 نکاتی امن منصوبہ یوکرین کے لیے حتمی امن معاہدے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو امن معاہدہ قبول کرنے کے لیے آئندہ جمعرات تک کا وقت دیا ہے۔